جنسی ہراسانی اور دھمکیاں: ’سفید کوٹ پاکستانی خواتین ڈاکٹرز کی حفاظت کا ضامن نہیں‘
ہسپتالوں میں خواتین ڈاکٹرز کو ہراساں کیا جانا ہمارے معاشرے میں کوئی نئی بات نہیں جبکہ ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے مناسب سہولیات کا فقدان ہے۔ پوری دنیا کو کئی دہائیوں سے اس مسئلے کا سامنا ہے لیکن حال ہی میں بھارت کے شہر کولکتہ کے آر جی کار میڈیکل کالج اور ہسپتال میں ٹرینی ڈاکٹر کے ریپ اور بے رحمانہ قتل نے اس مسئلے کو مزید اجاگر کیا ہے۔
یہ واقعہ انتہائی سفاک تھا لیکن 2019ء میں مغربی بنگال کی ریاست کے میمو کے باوجود اس نوعیت کے واقعے نے مزید پریشان کیا۔ ریاستی حکومت نے اعادہ کیا تھا کہ سیکیورٹی کو بہتر، خواتین گارڈز کی بھرتی اور داخلی راستوں پر نگرانی سخت کرکے ڈاکٹرز کے خلاف تشدد کی روک تھام کی جائے۔ تاہم یہ وعدے کبھی بھی پورے نہیں کیے گئے۔
جیسا کہ ہم پاکستانی اکثر کرتے ہیں، اس سے پہلے کہ ہم اپنے پڑوسی ملک کی جانب انگلیاں اٹھائیں، ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ پاکستانی خواتین ڈاکٹرز بھی ان مسائل سے محفوظ نہیں۔
طویل اور سخت ڈیوٹی
18 یا 36 گھنٹوں کی طویل شفٹ کے بعد پرانے صوفوں پر تھکان سے چور ڈاکٹرز کا آنکھیں کھول کر نیم دراز ہونا، یہ مناظر پاکستان کے ہسپتالوں میں عام ہیں۔ ان پرانے خستہ حال کمروں میں تو ڈاکٹرز کے لیے آرام کے لیے بستر تک موجود نہیں ہوتے جبکہ ان کے دروازوں پر لاک بھی نہیں لگے ہوتے۔
اگر ان کمروں سے باہر جھانکیں تو مہنگے نجی ہسپتالوں یا رش والے سرکاری ہسپتالوں کے افراتفری سے بھرے ایمرجنسی رومز میں مریضوں کے ورثا تشخیص پر بحث کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں یا اپنے کام میں مصروف خواتین نرسز اور ڈاکٹرز کو نامناسب نظروں سے دیکھتے ہیں۔
مشکل اوقات میں مریضوں کے ورثا اپنے غصے کا غبار ان لوگوں پر نکال دیتے ہیں جو ان کی پیاروں کے علاج کے لیے تھکن کے باوجود انتھک محنت کرتے ہیں۔ جب ان ورثا کو کوئی مثبت خبر نہیں ملتی تو وہ خواتین طبی عملے کی تضحیک کرتے ہیں۔ یاد رہے ہسپتال میں کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ مریضوں کے پیاروں کو کوئی بری خبر سنائی جائے۔
چلیں اگر خاتون ان سب سے محفوظ رہتی ہے تو وہ اپنے مرد ساتھیوں، جونیئرز، سینئرز، ڈپارٹمنٹ کے سربراہوں، پروفیسرز حتیٰ کہ کم رینک والے عملے کے اراکین کی جانب سے ہراسانی کا سامنا کرسکتی ہیں۔ خواتین کو ہراساں کرنے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں جن میں جنسی تبصرے سے لے کر ایسی ایسی چھوٹی حرکات شامل ہوسکتی ہیں کہ شاید جن کا ذکر کرنا بھی ہمیں مناسب نہ لگے جیسے ہاتھوں کا ٹکرا جانا، نامناسب نظر یا ذومعنی مسکراہٹ وغیرہ۔
یہ پاکستان میں خواتین ڈاکٹرز کے لیے معمول بن چکا ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور ایسے خواب دیکھتے ہوئے انہیں یہ یقین ہوتا ہے کہ ان کے سفید کوٹ انہیں معاشرے کے ناگوار پہلوؤں سے محفوظ رکھیں گے۔
بدقسمتی سے کبھی کبھی حقیقت بہت مختلف ہوتی ہے۔
’ضرورت یا آسائش؟‘
ڈان کے انسٹاگرام اکاؤنٹس کی جانب سے کیے جانے والے آن لائن سروے میں سامنے آیا کہ 988 جواب دہندگان میں سے 47 فیصد نے اپنا تعلق میڈیکل عملے کے طور پر بتایا، وہ سرکاری اور نجی دونوں ہسپتالوں میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔ 932 جواب دہندگان میں سے 47.2 فیصد نے بتایا کہ انہیں ڈیوٹی پر رہتے ہوئے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 637 جواب دہندگان میں سے 67 فیصد نے بتایا کہ ان کے متعلقہ ہسپتالوں میں خواتین عملے کے آرام کے لیے مناسب اور محفوظ جگہ میسر نہیں۔
اگرچہ یہ سروے اتنا بڑا نہیں ہے کہ اس سے کوئی بڑا نتیجہ اخذ کیا جاسکے لیکن یہ اس مؤقف کی تائید ضرور کرتا ہے جو بہت سی خواتین نے ڈان سے بات کرتے ہوئے اپنایا کہ پاکستان کے ہسپتالوں میں کام کرنا ان کے لیے کیسا ہے۔
’میں وارڈ میں کام کررہی تھی جبکہ میری ایک سینئر 36 گھنٹے کی شفٹ مکمل کرنے کے بعد کمرے میں آرام کررہی تھی‘، کراچی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکولر ڈیزیز (این آئی سی وی ڈی) کی ریزیڈنٹ ڈاکٹر، ڈاکٹر سارہ* نے بتایا۔
خواتین ڈاکٹرز کے آرام کے لیے کوئی علحیدہ کمرہ میسر نہیں یعنی مردوں اور خواتین دونوں کو ایک ہی کمرہ شیئر کرنا پڑتا ہے۔ مرد ڈاکٹرز اور نرسرز اکثر اوقات اچانک غیراعلانیہ طور پر کمرے میں داخل ہوجاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی خاتون اندر آرام کررہی ہے تو یہ اس کے لیے اچھی صورت حال نہیں۔
ڈاکٹر سارہ بتاتی ہیں، ’اس دن بھی ایسا ہی کچھ ہونے والا تھا لیکن میں نے ایک شخص کو روکا اور کہا کہ اسے دروازہ کھولنے سے قبل دستک دینی چاہیے۔ وہ ناراض ہوگیا اور اس نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں اس کے ’ارادوں پر شک کررہی ہوں‘۔
یہ ایک درخواست تھی جو ڈاکٹر سارہ کے نزدیک معقول تھی لیکن یہ بحث کا باعث بنی اور اس نے ایک ہجوم کو اپنی جانب متوجہ کیا جو انتظامیہ اور طبی عملے کی مداخلت سے منتشر ہوا۔
28 سالہ ڈاکٹر کہتی ہیں کہ ’مجھے اب تک سمجھ نہیں آیا کہ صرف دستک دینے کی درخواست، انہیں اتنی بری کیوں لگی‘۔
انتظامیہ کو بار بار ایک علیحدہ کمرے کا انتظام کرنے کی درخواست کرنے سے تھک کر این آئی سی وی ڈی کے ڈاکٹرز نے ایک سمجھوتہ کرلیا ہے۔ وہ ایک وارڈ خواتین جبکہ دوسرا مردوں کے لیے تفویض کریں گے۔ تاہم اس انتظام کا مطلب یہ تھا کہ خواتین ڈاکٹرز کو آرام کے لیے اپنا وارڈ چھوڑنا پڑا جس سے وہ حتیٰ الامکان گریز کرنا چاہتی تھیں۔ ڈاکٹر سارہ وضاحت دیتی ہیں کہ ’کسی بھی وقت ہنگامی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے، ایسے میں ہم مریض سے 15 منٹ کی دوری کے متحمل نہیں ہوسکتے‘۔
اگرچہ بہت سے ڈاکٹرز آرام کی علحیدہ جگہ نہ ہونے کی شکایات کرتے ہیں لیکن 12 گھنٹے کام کرنے والی نرسز کو کوئی خصوصی جگہ میسر نہیں۔
بلوچستان حب کے ایک سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والی نرس سبرینا* نے ڈان کو بتایا، ’ہمیں آرام کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملتی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے جنہیں اپنے پیر سیدھے کرنے کی ضرورت ہی نہیں‘۔
25 سال سے نرسنگ کے شعبے سے وابستہ 45 سالہ نرس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’نرسز کو اکثر سب سے کم اہم سمجھا جاتا ہے لیکن لوگ بھول جاتے ہیں کہ وہ ہم ہی ہیں جو مریضوں کی گھنٹوں تک دیکھ بھال کرتی ہیں جبکہ ڈاکٹر تو صرف ان کا مختصر معائنہ کرتے ہیں۔ دوپہر کا کھانا کھانے یا وقفہ لینے کے لیے جگہ ملنی چاہیے لیکن یہ مطالبہ انتظامیہ کو بہت زیادہ لگتا ہے‘۔ کراچی اور خیبر پختونخوا کی نرسوں نے بھی ان کی تائید کی جن کا کہنا تھا کہ ان کے اسپتالوں میں بھی آرام کرنے کی جگہ موجود نہیں۔
شاید کچھ لوگوں کو آرام کی جگہ ملنا آسائش لگے لیکن 12 گھنٹوں کی شفٹ کے بعد، خدمت کے جذبے سے سرشار نرسز کو بھی سانس لینے اور چند لمحوں کے لیے اپنی آنکھیں بند کرنے کا موقع درکار ہوتا ہے۔
ڈاکٹرز کے لیے علیحدہ باتھ روم کی عدم موجودگی ایک اور بنیادی تشویش ہے جس پر بہت سے سرکاری اسپتالوں میں توجہ نہیں دی جاتی۔
خیبرپختونخوا میں کام کرنے والی جنرل سرجن ڈاکٹر ماریہ* نے کہا کہ انہیں علحیدہ باتھ روم میسر ہے لیکن خواتین کے ساتھ ساتھ مریضوں کے ساتھ آنے والے مرد بھی ان باتھ رومز کو استعمال کرتے ہیں۔ اس باتھ روم میں باقاعدہ لاک کے بجائے صرف ایک کنڈی لگی ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’مریض بلاجواز اس پر دستک دیتے ہیں اور اس کی کنڈی اتنی کمزور ہے کہ یہ تو دوسری دستک کی بھی متحمل نہیں اور ڈر رہتا ہے کہ کہیں دروازہ ہی نہ کھل جائے‘۔
کراچی کے عباسی شہید ہسپتال میں حال ہی میں اپنی ہاؤس جاب مکمل کرنے والی ڈاکٹر مریم* نے نشاندہی کی کہ ایمرجنسی روم میں کام کرنے والی خواتین ڈاکٹرز کو اپنا علحیدہ باتھ روم میسر نہیں۔
24 سالہ ڈاکٹر کہتی ہیں، ’ہمارا بیچ، پہلا بیچ نہیں جس نے اس مسئلے پر آواز اٹھائی ہے۔ یہ مسئلہ تو برسوں سے موجود ہے۔ میرے سینئرز، ساتھی ہاؤس آفیسرز اور یہاں تک کہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن سب ہی نے انتظامیہ کے سامنے یہ مسئلہ اٹھایا ہے لیکن کچھ نہیں بدلا‘۔
وہ بتاتی ہیں، ’میں نے باتھ روم کے وقفے کے بغیر 12 گھنٹے کی شفٹ کیں۔ ایمرجنسی روم تقریباً ہمیشہ بھرا رہتا ہے اور میرے پاس دوسرے وارڈ میں جانے کا وقت نہیں ہوتا جوکہ 20 منٹ کی مسافت پر ہے۔ اس موقع پر میں سوچتی ہوں کہ کیا علحیدہ باتھ روم کا تقاضا، بنیادی ضرورت ہے یا آسائش؟‘
یہ سوال خیبرپختونخوا، پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے سرکاری اور نیم نجی اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز نے مختلف انداز میں اٹھایا۔ لیکن طب کے شعبے میں خواتین کو درپیش چیلنجز محض باتھ رومز نہ ہونے یا آرام کے لیے محفوظ کمرے کی کمی پر ختم نہیں ہوتے بلکہ وہ تو مزید بدتر ہوجاتے ہیں۔
ورثا کے ساتھ تناؤ کی صورتحال
جب لوگ اپنے خاندان کے افراد کو اسپتال لاتے ہیں تو اکثر ایسی صورت حال میں تناؤ زیادہ ہوتا ہے اور جب ان کا غصہ پھوٹتا ہے تو ڈاکٹرز اکثر ان کا پہلا ہدف بنتے ہیں۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کی جانب سے 2015ء میں کراچی کے ہسپتالوں کا سروے کرنے والے ایک مطالعہ کے مطابق، اس طرح کی ہراسانی کا سامنا تو صنف سے بالاتر تمام ڈاکٹرز کو کرنا پڑتا ہے۔ مطالعے میں سامنے آیا کہ صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں میں سے تقریباً دو تہائی نے رپورٹ کیا کہ وہ تشدد کی کسی نہ کسی قسم کا تجربہ ضرور کرتے ہیں۔
مطالعہ میں مزید سامنے آیا کہ ان واقعات میں سے نصف سے زیادہ ایمرجنسی وارڈز میں پیش آتے ہیں جہاں مریضوں کے ورثا اشتعال کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ایسے معاملے میں دونوں صنفوں کو ہی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مرد ڈاکٹرز کو اکثر جسمانی تشدد کا شکار ہوتے ہیں جبکہ خواتین ڈاکٹرز کو ریپ یا جنسی تشدد کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
کراچی پولیس کی سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے بتاتی ہیں، ’مجھے اسپتال میں بھرتی ہوئے چند ماہ ہی ہوئے تھے جب مجھے ایک سڑک حادثے میں جاں بحق تین خواتین کی لاشوں کا معائنہ کرنے کا کام سونپا گیا‘۔
اس سے قبل کہ ڈاکٹر سید اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے متعلقہ کمرے میں جاتیں جیسے لاشوں کو دفنانے کے لیے سلائی کا کام وغیرہ، 25 مردوں کے ہجوم نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور مطالبہ کیا کہ وہ لاشوں کو ہاتھ نہیں لگائیں گی۔
’میری پیٹھ دیوار سے لگی تھی اور وہ مجھے جانے نہیں دے رہے تھے حتیٰ کہ میں نے یہ بھی کہا کہ میں لاشوں کو ہاتھ نہیں لگاؤں گی‘، یہ واقعہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر سمعیہ کی آواز کپکپا رہی تھی۔
ہجوم تیزی سے بڑھ کر 25 سے 50 آدمیوں تک پہنچ گیا جن میں سے کسی نے انہیں ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھنے دیا۔ اس وقت تک وہ محصور رہیں کہ جب تک اس کے مرد ساتھیوں نے مداخلت نہ کی اور ڈاکٹر سمعیہ کے کام کی وضاحت کی کہ یہ ان کے لیے ضروری ہے جس کے بعد مردوں نے ڈاکٹر سمعیہ سید کو جانے کی اجازت دی۔
انہوں نے بتایا، ’آخر میں انہوں نے اصرار کیا کہ صرف مجھے ان کی خواتین کے لاشوں کا معائنہ کرنا چاہیے، جو میں نے کیا‘۔
آج تک ڈاکٹر سمعیہ سید حیران ہیں کہ انہیں اس فیلڈ میں کام جاری رکھنے کا حوصلہ کیسے ملا حالانکہ دو دہائیوں بعد بھی ہجوم والے مقامات انہیں پریشان کرتے ہیں۔
خواتین ڈاکٹروں میں یہ خوف غیر معمولی نہیں ہے اور یہ تب شدت اختیار کرتا ہے جب انہیں ان لوگوں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے جنہیں ان کی حفاظت کرنی چاہیے۔
پشاور کے ایک سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر سمیرا* نے اسپتال کے سیکیورٹی گارڈ کی چھ سالہ بیٹی کا علاج کیا۔ ’بچی کو ہلکا درد تھا اس لیے میں نے کچھ ادویات تجویز کیں‘، انہوں نے وضاحت کی۔
تاہم وہ شخص علاج سے مطمئن نہیں ہوا اور اپنی بیٹی کو نجی ہسپتال لے گیا جہاں افسوس ناک طور پر 12 گھنٹے بعد بچی کا انتقال ہوگیا۔
ڈاکٹر سمیرا بتاتی ہیں، ’نجی ہسپتال کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے اس نے تھانے میں میرے خلاف مقدمہ درج کروایا اور مجھے دھمکی دی، ساتھ ہی مطالبہ کیا کہ میں اس کی ذمہ داری لوں‘۔
یہ صورتحال ایک ماہ تک چلی۔ اس دوران گارڈ جو اسی اسپتال میں کام کرتا تھا، اپنی بیلٹ پر بندوق لگائے ڈاکٹر سمیرا کا پیچھا کرتا تھا۔ ایک جانب پولیس ان سے ان کے پیشہ ورانہ طرز عمل کے بارے میں پوچھ گچھ کرتی تو دوسری جانب گارڈ انہیں دھمکیاں دیتا۔
وہ کہتی ہیں، ’اس ایک ماہ کا ہر دن اذیت ناک تھا جسے میں کبھی نہیں بھلا سکتی‘۔
کراچی کے نجی ہسپتالوں میں بھی حالات کچھ مختلف نہیں۔
ڈاکئر اسما* بتاتی ہیں، ’آدھی رات کو ایک سات سالہ بچی کو ایمرجنسی روم میں لایا گیا جسے سانس کی تکلیف کی شکایت تھی‘۔
بچی کے ہمراہ اچھی جسامت والے 15 افراد بھی آئے تھے جن کی آوازوں میں غصہ نمایاں تھا۔ چند منٹوں بعد مریض کا انتقال ہوگیا۔
ایمرجنسی روم میں صرف دو خواتین نرسوں کی موجودگی کی بنا پر ڈاکٹر اسما نے فوری طور پر ورثا کو یہ بری خبر نہیں سنائی۔ یہ المناک خبر سنانے سے قبل ڈاکٹر نے یہ یقینی بنایا کہ تمام نرسز محفوظ ہوں۔ خبر سننے کے بعد مردوں نے ایمرجنسی روم میں موجود ہر چیز کو تباہ کرنا شروع کردیا۔ پھر وہ ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوئے۔
’انہوں نے مجھ سے معافی کا مطالبہ کیا، مجھے زبانی استحصال کا نشانہ بنایا اور مجھے دھمکیاں دیں۔ مجھ سے کہا کہ ’تم گھر کیسے جاؤ گی؟‘ اور ’میں تمہیں جانے نہیں دوں گا‘۔ وہ مشتعل ورثا کے الفاظ یاد کرتی ہیں۔ اس واقعے کو سالوں گزر چکے ہیں لیکن آج بھی ڈاکٹر اسما ایمرجنسی میں رات کی شفٹ کرنے سے حتیٰ الامکان گریز کرتی ہیں۔
اسلام آباد، سندھ اور پنجاب کے بہت سے دیگر ڈاکٹرز نے بھی ایسی ہی کہانیاں شیئر کیں۔ خیبرپختونخوا میں مریضوں کے لواحقین بعض اوقات محسوس کرتے ہیں کہ خواتین ڈاکٹرز ان کے رشتہ داروں کا علاج کرنے کے لیے ’اچھی‘ نہیں۔
ڈاکٹر ماریہ* نے کہا کہ اگر وہ مریض کا معائنہ کرکے تشخیص بھی کردیتی ہیں تب بھی مریضوں کے اہل خانہ اسے اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک کہ کوئی مرد ڈاکٹر اس کی تصدیق نہ کرے۔ وہ کہتی ہیں، ’بطور ڈاکٹر میری جنس میری صلاحیتوں پر فوقیت رکھتی ہے۔ یہی ہمارا کلچر ہے‘۔
یہ صرف ورثا نہیں ہوتے جو خواتین ڈاکٹرز کو غیر محفوظ محسوس کرواتے ہیں۔ بعض اوقات ہسپتال کے اندر سے ہی انہیں دھمکیاں موصول ہوتی ہیں۔
راہداریوں میں غیرمناسب نظریں
صنفی مساوات کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والی اس لڑائی میں جنسی ہراسانی سے محفوظ کام کرنے کے مقامات کا طویل عرصے سے مطالبہ کیا جارہا ہے۔ ہمارے جیسے پدرشاہی معاشرے میں الزام تراشی اور کردار کشی کا خوف ہراساں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے سے بہت سی خواتین کو روکتا ہے۔
کراچی میں آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی جانب سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق میں سامنے آیا کہ پاکستان میں تقریباً 70 فیصد خواتین سرجنز کو کام کی جگہ پر کسی نہ کسی طرح کی ہراسانی یا امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔
ممکن ہے کہ کچھ خواتین نے ہراسانی یا امتیازی سلوک کی بنا پر اپنی فیلڈ ہی تبدیل کرلی ہو لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنی خواتین نے ایسا کیا ہوگا۔ ڈاکٹر سمعیہ سید کہتی ہیں، ’وہ کبھی بھی اعلان نہیں کریں گی کہ وہ ہراسانی کی وجہ سے نوکری چھوڑ رہی ہیں بلکہ وہ تو خاموشی سے غائب ہوجاتی ہیں‘۔
گیلپ پاکستان اور پرائیڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ 4 ہزار 974 خواتین میڈیکل گریجویٹس مقیم ہیں۔ مجموعی تعداد میں سے 21 ہزار 146 یا 20.1 فیصد اپنے شعبے میں فعال نہیں۔
گزشتہ سال ڈان نے ایک خصوصی رپورٹ جاری کی تھی جس میں انکشاف کیا گیا کہ کس طرح ایک امریکی این جی او نے اپنے پاکستانی دفاتر میں خواتین ہیلتھ ورکرز کی شکایات کو نظر انداز کیا۔ برسوں تک معاملات یہی رہے یہاں تک کہ تین ڈاکٹرز نے بولنے کی ہمت کی۔
ڈان نے پاکستان کے چاروں صوبوں، دیہی علاقوں اور شہری مراکز دونوں میں خواتین ڈاکٹرز اور نرسز سے ان کی ہراسانی کی واقعات سے متعلق بات کی۔ انہیں جس طرح کی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا اس میں ان کے جسموں کے حوالے سے تبصرے، ذومعنی مذاق اور ایک دوسرے کو چھونا شامل تھا۔
ہم نے اس مضمون میں صرف چند کہانیوں کا ذکر کیا۔ ہم نے جن ڈاکٹرز سے رجوع کیا، ان میں سے زیادہ تر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہم سے بات کی کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ ان واقعات کے سامنے آنے سے طبی شعبے میں ان کے مستقبل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اکثر اوقات تو ہراسانی اتنی ’مہارت‘ سے کی جاتی ہے کہ اسے ثابت کرنا یا اس حوالے سے بات کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ متاثرین اس کے بارے میں بھول بھی سکتے ہیں جیسے کہ خیبرپختونخوا کی ڈاکٹر ماریہ۔
32 سالہ ڈاکٹر کہتی ہیں، ’اس فیلڈ میں وقت گزارنے کے بعد، میں اشاروں، لمس اور ذومعنی لطیفوں سے پریشان نہیں ہوتی۔ میں نے قبول کرلیا کہ یہ میرے کام کا حصہ ہے۔ جب میری بہن نے ڈاکٹر بننے کی بات کی تو مجھے احساس ہوا کہ درحقیقت یہ کتنی خراب صورت حال ہے‘۔
’جب مریض کے خاندان کی جانب سے ہراساں کیا جائے تو چند دنوں میں ہم اسے بھول جاتے ہیں لیکن جب کوئی ایسا شخص جو آپ کے ساتھ کام کرتا ہو، اس کی جانب سے ہراساں کیے جانے کا احساس تو بہت عرصے تک محسوس ہوتا ہے‘، ڈاکٹر طاہرہ* نے کہا۔ ایک دہائی گزرنے کے بعد بھی اپنے ساتھ ہراسانی کے واقعے کو ایسے یاد کرتی ہیں کہ جیسے یہ کل ہی کی بات ہو۔
اپنی پوری زندگی ایک چھوٹے سے گاؤں میں گزارنے کے بعد اپنی ہاؤس جاب کے لیے حیدرآباد منتقل ہونا ڈاکٹر طاہرہ کے لیے اعصاب شکن ضرور تھا لیکن وہ اس حوالے سے پُرجوش تھیں۔ انہوں نے پہلے چند مہینے سرکاری ہسپتال میں حرکیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے گزارے اور غیر ضروری سماجی میل جول سے گریز کیا۔
ڈاکٹر طاہرہ نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک روز آدھی رات کو مجھے ایک نامعلوم نمبر سے ایک پیغام موصول ہوا جس میں میری تعریف کی گئی تھی۔ اس پیغام نے انہیں خوفزدہ کیا۔
اس کے بعد مزید پیغامات بھی آئے جن میں ان کی لوکیشن اور یہ بیان کیا گیا کہ انہوں نے کیا پہن رکھا ہے۔ ان پیغامات نے انہیں چوکنا رہنے پر مجبور کیا اور وہ پریشان رہنے لگیں کہ انہیں مسلسل کوئی دیکھ رہا ہے۔
پیغامات زیادہ کثرت سے آنے لگے اور انہیں جلد ہی پتا چل گیا کہ ہسپتال کی ہیڈ نرس نے انہیں یہ پیغامات بھیجے۔ ڈاکٹر طاہرہ نے اس کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کروائی۔
وہ بتاتی ہیں، ’میں نے سینئر کے سامنے اس معاملے کو اٹھایا لیکن انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ آٹھ سال سے ہسپتال کا ملازم ہے اور اسے انتظامیہ کی حمایت حاصل ہے۔ میں شہر میں اکیلی تھی۔ اگر میں اپنے گھر والوں کو اطلاع دیتی تو انہیں صرف پریشانی ہوتی‘۔
لہٰذا اس نے وہی کیا جو پاکستان میں اکثر خواتین کرتی ہیں، اپنے لب سی لیے۔ ایک بار جب ان کی ہاؤس جاب ختم ہوگئی تو وہ اس ہسپتال میں دوبارہ نہیں گئیں۔
ڈاکٹر ردا* نے پوچھا، ’کیا آپ واقعی سوچتے ہیں کہ جونیئر ڈاکٹر کے لگائے گئے الزام پر ہسپتال کے مستقل ملازم سے پوچھ گچھ کی جائے گی؟‘ ڈاکٹر ردا لاہور کے ایک سیمی پرائیویٹ ہسپتال میں ہاؤس جاب مکمل کر رہی تھیں اور اس دوران وہ اسی طرح کے تجربے سے گزریں۔
ایک ریزیڈنٹ ڈاکٹر اس پر نامناسب تبصرے کرتا۔ ابتدائی طور پر انہوں نے اسے نظر انداز کیا لیکن جلد ہی یہ جان بوجھ کر ٹکرانے اور چھونے کی حد تک بڑھ گیا اور ایسے حالات بھی پیدا ہوئے جہاں وہ دونوں اکیلے تھے۔ وہ جانتی تھیں کہ ڈاکٹر کا رویہ غلط تھا لیکن انہوں نے چپ سادھ لی۔
ڈاکٹر ردا نے یاد کرتے ہوئے کہا، ’کنسلٹنٹس کا خیال تھا کہ خواتین ہاؤس آفیسرز دیر سے کام کرنے سے بچنے کے لیے ایسی شکایات کرتی ہیں‘۔
لیکن انہیں صرف اسی چیلنج کا سامنا نہیں تھا۔ ڈاکٹر ردا بتاتی ہیں، ’ہمیں اکثر آدھی رات کو وارڈز کے گشت کرنے کی ہدایت دی جاتی تھی اور ایسا کرتے ہوئے بعض اوقات خراب روشنی والے راہداریوں پر بھی ہمیں گزرنا پڑتا ہے۔ مرد عملہ ان دالانوں میں گھومتا ہے اور ہمیں گھورتا ہے۔ جب بھی مجھے وارڈز سے کچھ لانا ہوتا ہے میری پریشانی بڑھ جاتی ہے‘۔
نرسز کے لیے تو صورت حال اس بھی خراب ہے۔
25 سالہ نرس جیسمین* نے کہا، ’مریضوں نے مجھے نامناسب طور پر چھوا اور مرد و خواتین دونوں ڈاکٹرز نے میری تذلیل کی‘۔
کریئر کے ابتدا میں جسمین کا خیال تھا کہ مریض غیردانستہ طور پر چھوتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’مجھے لگا یہ غیرارادی ہے لیکن پھر ایک سینئر نے مجھے کچھ اور بتایا‘۔
’سب سے زیادہ چونکا دینے والا لمحہ وہ تھا جب میں نے ایک 14 سالہ لڑکے کے فون پر اپنی نامناسب ویڈیوز دیکھیں۔
یہ کوئی واحد واقعہ نہیں ہے۔ راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر (ڈی ایچ کیو) ہسپتال کی چار خواتین ڈاکٹرز نے گزشتہ مئی میں شکایت کی تھی کہ ان کی ’انتہائی قابل اعتراض‘ ویڈیوز اس وقت فلمائی گئیں جب وہ اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔ ایک ڈاکٹر کے مطابق خواتین ڈاکٹرز اور نرسز کو ہراساں کیا جاتا تھا اور ہر روز ان کی قابل اعتراض ویڈیوز بنائی جاتی تھیں۔ ان ویڈیوز کے ذریعے ڈاکٹرز کو اکثر بلیک میل اور ہراساں کیا جاتا تھا۔
پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے اس بات پر زور دیا کہ خواتین ڈاکٹرز کے لیے اپنے مرد ساتھیوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کی شکایت کرنا کتنا مشکل ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’کوئی بھی آپ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا۔ ہر کوئی آپ پر شک کرتا ہے اور آپ ہی سے سوال کرتا ہے پھر چاہے وہ آپ کے دوست ہوں یا آپ کا اپنا خاندان‘۔
وہ کہتی ہیں کہ ڈاکٹرز کو آواز اٹھانے کے لیے انتہائی ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن ایکٹ 2013ء کے باوجود کہ جس میں ہراساں کرنے کے لیے زیرو ٹالرینس کی پالیسی ہے، ’ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ ہراسانی کی کوئی شکایت موصول ہو‘۔
ڈاکٹر سمعیہ سید نے خود ہراساں کیے جانے کی شکایت درج کروائی تھی لیکن ان کا کیس حل نہیں ہوا۔ تاہم ایسے شخص کی حیثیت سے جو اکثر ایسے معاملات کی تحقیقات کرنے والی کمیٹیوں کی رکن ہوتی ہیں، وہ ہمیشہ یقینی بناتی ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچیں۔
’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ڈاکٹر ہیں، آپ برقع، لیب کوٹ، موزوں کے ساتھ جوتے اور چہرے پر ماسک پہنتے ہیں، اگر آپ عورت ہیں تو آپ کو نامناسب نظروں کا سامنا کرنا پڑے گا، آپ کو چھوا جائے گا اور آپ کو غیرآرام دہ محسوس کروایا جائے گا‘۔ یہ کہنا تھا ڈاکٹر فروا خالد کا جو کراچی کے عباسی شہید ہسپتال میں ہاؤس جاب کرتی ہیں۔ ’یہاں سب بس ایسا ہی چلتا ہے‘۔
*رازداری کی غرض سے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
مصنفہ KAS-Dawn.com کی میڈیا فیلو ہیں۔ گورننس اور سماجی مسائل میں دلچسپی رکھتی ہیں، @Hawwa_Fazal سے ٹوئٹ کرتی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔