جب ادویات کام کرنا چھوڑ دیں تو انسانی جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟
25 سالہ سرکاری ملازم نوید تعمیراتی سائٹ پر ایک حادثے کے بعد بڑی سرجری سے گزرے اور پاکستان کے ایک ہسپتال میں زیرِعلاج ہیں۔ اسی وارڈ میں 47 سالہ مالک بھی موجود ہیں جن کے پاؤں پر سڑک پار کرتے ہوئے کٹ لگا لیکن اب وہ اعضا کٹوانے کے لیے ہسپتال آتے ہیں۔ نائیجیریا میں 9 دن کی نومولود بچی احمبا جب سے پیدا ہوئی تب سے انفیکشن سے نبردآزما ہے۔ جبکہ امریکا میں 39 سالہ تمارا بار بار انفیکشن کا شکار ہونے کے خوف میں مبتلا رہتی ہیں جن سے وہ شدید پریشان ہیں۔
میلوں کی دوری ہونے کے باوجود یہ چاروں لوگ ایک دوسرے سے اتنے زیادہ جڑے ہیں کہ جس کا انہیں خود بھی اندازہ نہیں۔ یہ تمام لوگ ایک ایسے انفیکشن میں مبتلا ہیں جن پر ادویات کارگر ثابت نہیں ہورہیں۔ ایسا انفیکشن جو ’عام‘ علاج سے مزاحمت کرتا ہے۔ ایسا انفیکشن کہ جس سے صرف 2019ء میں دنیا بھر میں تقریباً 50 لاکھ افراد کی اموات ہوئیں۔
بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم (ٹی بی آئی جے)، جراثیم کش عالمی مزاحمتی بحران کی رپورٹنگ کرنے میں سب سے آگے ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں جو کچھ ملا وہ اس بات کا پریشان کن ثبوت تھا کہ جب ادویات کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں تو انسانی جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
ایک جانب دنیا بھر کے بیمار، بچے، بوڑھے اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے کمزور لوگوں کو اس طرح کے بحران سے سب سے زیادہ خطرہ ہے جبکہ دوسری جانب دیکھا جائے تو ایسے انفیکشنز کہ جن پر ادویات کا اثر نہیں ہوتا، ان سے تمام انسانوں کو حقیقی خطرات لاحق ہیں۔
ماہرین نے 2050ء تک اس نئے قسم کے انفیکشنز سے ہونے والی اموات کی سالانہ شرح ایک کروڑ سے زیادہ ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔ یہ ایک عالمی بحران ہے جس کے لیے عالمی سطح پر حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بیکٹیریا کی بہتر جانچ، صفائی ستھرائی، حفظان صحت میں بہتری اور antimicrobials تجویز کرنے کے طریقہ کار کو بہتر بنانے سے ادویات مزاحم انفیکشن سے اموات کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین نے تنبیہ کی ہے کہ یہی وقت ہے کہ ہم اس حوالے سے اقدامات کریں۔ رواں ماہ اقوام متحدہ ادویات مزاحم انفیکشن سے نمٹنے کے لیے عالمی رہنماؤں کو جمع کرے گی۔ اس اجلاس کا مقصد رکن ممالک کے لیے ایک سیاسی اعلامیہ پر بات چیت کرنا ہے تاکہ اس مسئلے کے صحت، ماحولیات اور ترقی پر پڑنے والے اثرات کو روکا جا سکے۔
نوید کی کہانی: سرجری کا سنگین سائڈ ایفیکٹ
انتہائی نگہداشت یونٹ میں ٹی بی آئی جے سے بات کرتے ہوئے نوید بہ مشکل کوئی جملہ مکمل کر پارہے تھے۔ شمالی پاکستان میں اپنے گھر کی تعمیر کے دوران زخمی ہونے کے بعد ڈاکٹرز کو ان کی سانس کی نالی کو ہٹانا پڑا۔ لیکن ان کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوئیں۔ سرجری کے بعد ان کے جسم میں ادویات مزاحم انفیکشن پیدا ہوا جو درست اینٹی بائیوٹک کے استعمال کے بغیر مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔
نوید کے ڈاکٹرز کے مطابق ان کی جان بچانے کے لیے جس اینٹی بائیوٹک کی ضرورت تھی وہ کولسٹن ہے لیکن کولسٹن کا استعمال عمومی طور پر سب سے آخر میں کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ نوید کے معاملے میں تو کوئی اور اینٹی بائیوٹک ان کے انفیکشن کا باعث بننے والے طاقتور بیکٹیریا کو ختم نہیں کرسکی اس لیے انہیں کولسٹن دیا گیا۔
آپریشنز کے ذریعے زخموں کو کھولا جاتا ہے تو اس سے خطرہ ہے کہ زخموں کے بیکٹیریا خون میں شامل ہوسکتے ہیں اس لیے سرجری سے پہلے اور بعد میں مریضوں کو اینٹی بائیوٹکس دی جاتی ہیں۔ لیکن اگر وہ اینٹی بائیوٹکس کام نہ کریں تب بھی بیکٹیریا ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ نوید کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ان کے انفیکشن کی وجہ سے وہ کئی دنوں تک انتہائی نگہداشت وارڈ میں رہے جبکہ کولسٹن کے ذریعے ان کے انفیکشن کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
مریضوں کی زیادہ تعداد اور اینٹی بائیوٹکس کے کثرت سے استعمال کی وجہ سے ہسپتالوں میں ادویات مزاحم انفیکشن میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوسکتے ہیں۔ ہسپتال میں ہونے والے بہت سے انفیکشنز ایسے ہوتے ہیں جن پر ان کے علاج کے لیے عمومی طور پر استعمال کی جانے والی ادویات اثر نہیں کرتیں۔
یہ خطرہ اس وقت مزید بڑھ جاتا ہے کہ جب صحت عامہ کے کارکنان، ہسپتالوں کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ جبکہ دوسری جانب دیکھا جائے تو دنیا بھر میں تقریباً دو ارب افراد کو صحت کی سہولیات میں ضروری صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں۔
لیورپول اسکول آف ٹراپیکل میڈیسن میں انفیکشن میڈیسن کے پروفیسر نکولس فیزی کہتے ہیں کہ ’گلوبل ساؤتھ میں اب بھی پانی، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کی صلاحیت کا فقدان ہے اور یہ نہ صرف ادویات مزاحم انفیکشنز کا سبب بنتا ہے بلکہ اس کا تعلق انسانی وقار سے بھی ہے‘۔
احمبا کی کہانی: پیدائش سے ہی مشکل حالات سے نبردآزما
نائیجیریا کے بہت سے دیگر بچوں کی طرح احمبا کی پیدائش بھی ہسپتال میں نہیں بلکہ دائی کے ہاتھوں ہوئی۔ اس کی پیدائش تین ماہ قبل از وقت ہوئی تھی اور احمبا کا مدافعتی نظام ابھی اس بڑی لڑائی کے لیے تیار نہیں تھا جو اس کے ننھے وجود کو ابھی لڑنا تھی۔
پیدائش کے صرف 5 گھنٹے بعد احمبا کو بخار ہوگیا اور امبلائکل کورڈ جو اب بھی ناف سے جڑی تھی، اس سے خون بہنے لگا۔ احمبا کو فوری طور پر لاگوس ریاست کے ایک ہسپتال لے جایا گیا جہاں انہیں اینٹی بائیوٹکس دی گئیں۔
دنیا کے کسی بھی حصے میں کوئی بھی اس انفیکشن کا شکار ہوسکتا ہے لیکن ہر متاثرہ شخص اس انفیکشن پر ایک طرح کا ردعمل نہیں دیتا۔ نومولود بچے جن کا مدافعتی نظام انتہائی کمزور ہوتا ہے، انہیں اس انفیکشن سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔
احمبا کی ماں کی طرح دائی کی مدد سے پیدائش کبھی کبھی ثقافتی بنیاد پر بھی ترجیح ہوسکتی ہے لیکن یہ اس بات کا اشارہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اور ان کا خاندان ہسپتال کے اخراجات نہیں اٹھا سکتے تھے۔
نائیجیریا کے ہسپتالوں میں صحت عامہ کے لیے مریضوں سے رقم وصول کی جاتی ہے۔ احمبا کے یونٹ میں موجود زیادہ تر بچے ہسپتال میں پیدا بھی نہیں ہوئے تھے لیکن پھر بھی زیادہ تر کو ہسپتال لائے جانے پر ان میں انفیکشن کی تشخیص ہوئی۔
دن گزرتے گئے اور احمبا کو دی جانے والی اینٹی بائیوٹکس نے اثر نہیں کیا۔ اب یہ واضح ہوچکا تھا کہ نومولود بچی ادویات مزاحم انفیکشن میں مبتلا ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ احمبا کا ننھا سا وجود اتنی زیادہ اینٹی بائیوٹکس کا بوجھ اٹھا نہیں پارہا تھا۔ دو اقسام کی اینٹی بائیوٹکس کے استعمال کے بعد ڈاکٹرز نے مزید اقسام کے استعمال کے بجائے سیدھا میروپینیم کا استعمال کیا جوکہ وسیع پیمانے پر بیکٹیریا کو مارنے والی اسپیکٹرم دوا ہے۔ جیسا کہ نوید کے لیے کولسٹن کو آخری آپشن رکھا گیا تھا بالکل ویسے ہی میروپینیم بھی انتہائی شدید انفیکشن کے لیے محفوظ رکھی جاتی ہے۔
پروفیسر نکولس فیزی کہتے ہیں کہ ویکسین کی بہتر حکمت عملی کے ذریعے بھی ادویات مزاحم انفیکشنز کو روکا جاسکتا ہے۔ اس لیے ایسی ادویات بنانے کی تحقیق ابھی جاری ہے جن کے استعمال سے مائیں اور ان کے بچے ادویات مزاحم انفیکشنز سے محفوظ رہیں۔ لیکن یہ تحقیق ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔
انفیکشن ہونے سے روکنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم دفاع کی آخری حربہ سمجھی جانے والی ادویات جیسے کولسٹن اور میروپینیم کو محفوظ کرسکتے ہیں کیونکہ جب یہ ادویات بھی کام نہیں کرتیں تو متاثرہ شخص کی موت واقع ہوسکتی ہے۔ ایسے میں احتیاط علاج سے بہتر ہے۔
مالک کی کہانی: ایک کٹ سنگینی اختیار کرگیا
راولپنڈی میں مالک کا پاؤں اس وقت کٹا جب سڑک پار کرتے ہوئے ان کی چپل ٹوٹ گئی۔ یہ بہ ظاہر بے ضرر لگ رہا تھا اور اس سے قبل آنے والے پاؤں کے زخم کے مقابلے میں انہیں تکلیف بھی محسوس نہیں ہوئی۔ چند دن گزر جانے کے بعد زخم پر پس پڑ گیا۔ انفیکشن ہوگیا اور زخم ٹھیک نہیں ہورہا تھا۔
47 سالہ درزی کو ذیابیطس ہے اور ان کا بلڈ شوگر لیول متوازی نہیں جس کی وجہ سے انہیں پہلے ہی یہ خطرہ تھا کہ ان کے پاؤں کا زخم بگڑ سکتا ہے اور زخم بھرنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جب اپنے آبائی علاقے میں ان کے انفیکشن پر قابو نہیں پایا جاسکا تو مالک کو دو گھنٹے کی دوری پر واقع ہسپتال لے جایا گیا۔ وہاں تشخیص ہوئی کہ انہیں تو ادویات مزاحم انفیکشن ہے۔
یہ طاقتور بیکٹیریا اپنے خلاف استعمال کی جانے والی ادویات سے اپنا دفاع کرتے ہیں۔ بیکٹیریا کے خلاف جتنی زیادہ اینٹی بائیوٹکس استعمال کی جاتی ہیں، بیکٹیریا کی مزاحمت کی طاقت اتنا ہی زیادہ مضبوط ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ کچھ بیکٹیریا تو متعدد ادویات کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
مالک کے پاؤں میں انفیکشن کرنے والے بیکٹیریا بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ جب تک انہیں ہسپتال لایا گیا تب تک انفیکشن ان کے پاؤں کی انگلیوں کے ٹشوز کو متاثر کرچکا تھا۔ اسی اثنا میں ان کی دو انگلیوں کو کاٹنا پڑا۔ انفیکشن کا پھیلاؤ روکنے کے لیے مالک کو 4 اینٹی بائیوٹکس تجویز کی گئیں۔
2000ء سے 2018ء کے درمیان عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں نصف فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا میں اضافے کی شرح سب سے تیز ہے کہ جہاں پچھلے 25 برسوں میں روزانہ اینٹی بائیوٹکس لینے والے افراد کے تناسب میں دوگنا سے زائد اضافہ ہوا ہے۔
یہ اضافہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کا استعمال ہمیشہ درست انداز میں نہیں کیا جاتا۔ کبھی کبھی تو انہیں غیرضروری طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر نزلہ، بخار یا فلو جیسے وائرل انفیکشنز جن پر اینٹی بائیوٹکس اثر نہیں کرتیں۔ کبھی کبھی ان کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے جیسے اگر کسی نے غلط دوا کھا لی یا ڈوز زیادہ لے لی۔ اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں لاپروائی، ادویات مزاحم بیکٹیریا افزائش کی بڑی وجہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت میں صحت کی نگرانی، روک تھام اور کنٹرول کے ڈائریکٹر ڈاکٹر یوان ہوٹن کہتے ہیں کہ ’ادویات مزاحم انفیکشنز عالمی صحت کے لیے خطرہ ہیں لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ وسائل کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے جس پر قابو پایا جاسکتا ہے‘۔
کبھی کبھی تو حالات ایسے ہوتے ہیں کہ لوگ بیمار ہونے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ بیماری لاحق ہونا جیب پر بھاری پڑ سکتا ہے اور ایسے ممالک جہاں صحت کے قوانین کی اتنی پابندی نہیں وہاں اینٹی بائیوٹکس کا ایک چھوٹا سا کورس آسان حل سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان، نائیجیریا اور کینیا جیسے ممالک میں تو غیرتربیت یافتہ عملہ اینٹی بائیوٹکس فروخت کررہا ہوتا ہے۔
ڈاکٹرز بھی فوری علاج کے لیے اسی کی تجویز دیتے ہیں۔ صحت عامہ کے کارکنان پر کام کا اتنا بوجھ ہوتا ہے کہ وہ تشخیص ٹیسٹ میں ہر ممکنہ طور پر وقت بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے حالات میں وہ انفیکشنز کی قسم کا ادراک کیے بغیر ہی اینٹی بائیوٹکس تجویز کردیتے ہیں۔ جب ڈاکٹر اینٹی بائیوٹکس کے غلط نسخے لکھتے ہیں اور مریضوں کو وسیع اسپیکٹرم دوائیں دی جائیں تو ایسے میں امکان ہے کہ بیکٹیریا ان ادویات کے خلاف مزاحمت کریں اور یہ ادویات مؤثر ثابت نہ ہوں۔
ڈاکٹر یوان ہوٹن کہتے ہیں، ’ہم نامناسب، غلط استعمال کرتے ہیں جبکہ ہمارے ڈاکٹرز بھی غلط نسخے لکھتے ہیں۔ ہمیں لوگوں کو ان کی صحت کی مناسبت سے درست صحت کی سہولیات دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ صورت حال سمجھنے کے لیے اعداد و شمار کی ضرورت ہے۔ اگر ہم درست معلومات کے بغیر ہی کوششیں کریں تو ایسے یہ نظام ٹھیک نہیں ہوسکتا۔
’ہمیں ادویات مزاحم انفیکشن کے بڑھتے کیسز کی وجہ سے بحران کا سامنا ہے جو ادویات کے غلط استعمال اور ناقص صحت کے نظام کی وجہ سے ہوتا ہے‘۔
تمارا کی کہانی: دائمی انفیکشنز کا مقابلہ کرتی ہیں
اگرچہ اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں سب سے زیادہ ہے لیکن ترقی یافتہ ممالک میں اس کا استعمال ہمیشہ سے اپنی بلند ترین سطح پر ہے (اور رہے گا)۔ اس کی وجہ زیادہ تر اوقات ان مریضوں کو غیرضروری طور پر ادویات دینا ہے۔ مثال کے طور پر امریکا میں تجویز کردہ اینٹی بائیوٹکس کا ایک تہائی حصہ، غیر ضروری طور پر تجویز کیا جاتا ہے۔
کورونا وبا کے ساتھ ہی تمارا کی زندگی کو مسائل نے آ گھیرا۔ مارچ 2020ء میں پہلے ان کے شوہر کو ملازمت سے نکالا گیا اور پھر ان کی نوکری ختم ہوگئی۔ ان کا خیال ہے کہ اسٹریس کی وجہ سے پیشاب کی نالی کے انفیکشن (یو ٹی آئیز) کا دائمی سلسلہ شروع ہوا جس کی وجہ سے وہ چار سال سے زائد عرصے سے شدید بیمار ہیں۔
جسمانی ساکھ کی بنا پر خواتین میں یو ٹی آئیز ہونے کا امکان مردوں کے مقابلے میں 30 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ حمل، حیض اور جنسی تعلقات اس خطرے کو بڑھاتے ہیں۔ جتنا زیادہ انفیکشنز ہوں گے، ادویات مزاحم انفیکشن ہونے کا امکان بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔
تمارا کو پہلے بھی پیشاب کی نالی میں انفیکشن ہوچکا ہے لیکن وہ کبھی بھی اتنا سنگین اور اتنے لمبے عرصے تک نہیں چلا۔ اب وہ شدید تکلیف کی شکایت کرتی ہیں جبکہ انہیں بار بار ٹوائلٹ جانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس سب کی وجہ سے وہ کمزور ہوچکی ہیں۔ وہ متعدد اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کرچکی ہیں۔ کچھ کے استعمال سے ان کی علامات عارضی طور پر کم ہوئیں لیکن انفیکشن مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
پیشاب کا انفیکشن سب سے زیادہ عام بیکٹیرئل انفیکشن ہے لیکن جب اس کے علاج کی بات آتی ہے تو دنیا میں طبی سمجھ کا فقدان ہے۔ اپنے ملک میں متعدد ڈاکٹرز سے معائنے کے بعد بھی کوئی ڈاکٹر ان کے انفیکشن کو ٹھیک نہیں کر پایا۔ مایوسی کے عالم میں تمارا نے کئی دیگر طریقہ علاج بھی آزمائے جن میں جراحی، جڑی بوٹیوں کے سپلیمنٹس اور خود کیتھیٹر کے ذریعے دی گئیں ادویات شامل ہیں۔
’اس ممکنہ تباہی سے بچا جاسکتا ہے‘
ادویات مزاحم انفیکشن ایک ایسا عالمی خطرہ ہے جو دنیا بھر میں براعظموں تک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن رواں ماہ اقوام متحدہ کا متوقع اجلاس ایک اہم موقع ہے کہ اس مسئلے پر عالمی سطح پر انتہائی ضروری ردعمل کا اظہار کیا جائے گا۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر یوآن ہوٹن نے اس حوالے سے فوری کارروائی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
ڈاکٹر ہوٹن کہتے ہیں ،’اس سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، صرف اس لیے نہیں کیونکہ یہ مستقبل میں بڑا خطرہ بن سکتا ہے بلکہ اس لیے بھی کیونکہ فی الوقت اس پر قابو پایا جاسکتا ہے‘۔
نوید، مالک، احمبا اور تمارا تو پہلے ہی اس تیزی سے بڑھتے عالمی بحران کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہمیں ملنے والی آخری معلومات کے مطابق مالک اور نوید ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر اپنے گھر جاچکے ہیں، احمبا کے ڈاکٹرز کے مطابق اس کا وزن بڑھ چکا تھا اور اس کی طبیعت میں بہتری آرہی تھی لیکن معدے کے مسائل اب بھی اس کی مکمل صحت یابی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ تمارا جہاں بھی جاتی ہیں اپنے ساتھ اینٹی بائیوٹکس لے کر جاتی ہیں۔ وہ خوفزدہ ہیں کہ انہیں اگلا انفیکشن کبھی بھی ہوسکتا ہے۔
احمبا اور تمارا کا مستقبل اب بھی بے یقینی کا شکار ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
لکھاری بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم سے وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔