جسٹس طارق محمود جہانگیری کیخلاف سوشل میڈیا مہم پر توہین عدالت کا کیس سماعت کیلئے مقرر
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم پر توہینِ عدالت کیس سماعت کے لیے مقرر کردیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق کی سربراہی میں 7 رکنی فُل کورٹ بینچ 19 ستمبر کو کیس پر سماعت کرے گا، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس بابر ستار، جسٹس ارباب محمد طاہر، جسٹس سردار اعجاز اسحق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بینچ کا حصہ ہیں۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فُل کورٹ بنچ نے موسمِ گرما کی چھٹیوں سے قبل پہلی سماعت کی تھی۔
8 جولائی کو جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، صحافیوں غریدہ فاروقی، عمار سولنگی اور حسن ایوب کو نوٹس جاری کردیے تھے۔
واضح رہے کہ 6 جولائی کو ڈان اخبار میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری سے متعلق کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی جانب سے مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے خط اور سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت دائر کرنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جج کے خلاف مہم پر بیان جاری کیا جاسکتا ہے۔
اس سے ایک روز قبل سوشل میڈیا صارفین اور متعدد صحافیوں نے جسٹس جہانگیری کے خلاف خط اور مبینہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گئے ریفرنس کو شیئر کیا تھا۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ ججز اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر حکام کو خط کے بارے میں مطلع کیا گیا اور عدالتی انتظامیہ نے اس کی تردید جاری کرنے کی پیشکش کی، تاہم جسٹس جہانگیری نے ابھی تک اس کارروائی کی منظوری نہیں دی۔
ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ نے معاملے کے حوالے سے کراچی یونیورسٹی سے رابطہ کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر شیئر کیا جانے والا خط، مبینہ طور پر سندھ ٹرانسپیرنسی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ، 2016 کے تحت معلومات طلب کرنے والی درخواست کے جواب میں جاری کیا گیا، درخواست میں کہا گیا کہ امیدوار طارق محمود نے 1991 میں انرولمنٹ نمبر 5968 کے تحت ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔
تاہم، امتیاز احمد نے اسی انرولمنٹ نمبر کے تحت 1987 میں داخلہ لیا تھا، جب کہ ایل ایل بی پارٹ ون کا ٹرانسکرپٹ طارق جہانگیری کے نام سے جاری کیا گیا۔
مزید برآں، طارق محمود نے انرولمنٹ نمبر 7124 کے تحت ایل ایل بی پارٹ ون کے لیے داخلہ لیا، خط میں ڈگری کو بوگس قرار نہیں دیا گیا بلکہ اسے غلط قرار دیا گیا، اور وضاحت کی گئی کہ یونیورسٹی پورے ڈگری پروگرام کے لیے ایک انرولمنٹ نمبر جاری کرتی ہے، یعنی ایک پروگرام کے لیے کسی طالب علم کا دو انرولمنٹ رکھنا ناممکن ہے۔
یاد رہے کہ جسٹس جہانگیری ان 6 ججز میں شامل ہیں جنہوں نے پہلے سپریم جوڈیشل کونسل سے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف شکایت کی تھی اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام لگایا تھا، شکایت میں ججز کے داخلی دروازے اور بیڈ روم پر جاسوس کیمرے لگانے کے الزامات بھی شامل تھے، یہ معاملہ مبینہ طور پر چیف جسٹس تک پہنچایا گیا تھا۔
جسٹس طارق جہانگیری اس وقت سرخیوں میں آئے تھے جب انہوں نے فوجداری مقدمات میں سابق وزیراعظم عمران خان کو تحفظ فراہم کیا تھا اور پولیس کو آئندہ مقدمات میں انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔
یکم ستمبر کو جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ نے اپنی ان فیئر مینز (یو ایف ایم) کمیٹی کی سفارش پر ایک ہائی کورٹ کے جج کی ڈگری اور انرولمنٹ منسوخ کر دی تھی۔
یہ فیصلہ اکیڈمک اور سنڈیکیٹ کے رکن ڈاکٹر ریاض احمد کی حراست کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا جنہیں پولیس نے اہم اجلاس میں شرکت سے روکنے کی کوشش کے طور پر اٹھالیا تھا۔
یونیورسٹی کے شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ریاض کو تب ہی رہا کیا گیا جب سنڈیکیٹ نے ڈگری منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔
رہائی کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا کے کچھ ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ریاض نے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا کہ ڈگری کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری سے متعلق ہے۔