جرمنی نے افغان شہریوں کو ملک بدر کردیا
ہجرت کو روکنے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنے والے ملک جرمنی نے افغان شہریوں کو ملک بدر کر دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کی جانب سے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار یہ پیش رفت سامنے آئی ہے۔
حکومتی ترجمان اسٹیفن ہیبسٹریٹ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ تمام افغان شہری سزا یافتہ مجرم ہیں، انہیں جرمنی میں رہنے کا کوئی حق نہیں اور ان کے خلاف ملک بدری کے احکامات جاری کیے گئے۔
ڈیر اسپیگل میگزین نے سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ قطر ایئرویز کی ایک چارٹرڈ پرواز نے کابل کے لیے لیپزگ ایئرپورٹ سے اڑان بھری جس میں 28 افغان سوار ہیں۔
اسپیگل نے رپورٹ کیا کہ یہ آپریشن 2 ماہ کے ’خفیہ مذاکرات‘ کا نتیجہ تھا جس میں قطر نے برلن اور طالبان حکام کے درمیان رابطے کا کام کیا۔
ہیبسٹریٹ نے کہا کہ جرمنی نے ملک بدری کی سہولت کے لیے اہم علاقائی شراکت داروں سے مدد کی درخواست کی، تاہم انہوں نے تفصیلات نہیں بتائیں۔
2021 میں طالبان انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی نے افغانستان میں ملک بدری کو مکمل طور پر روک دیا اور کابل میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا۔
افغان شہریوں کو ایسے وقت میں ملک بدر کیا گیا ہے، جب جرمن حکومت کو غیر قانونی ہجرت روکنے، خطرناک اور سزا یافتہ پناہ گزینوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے مطالبات کا سامنا ہے، جو متعدد ہائی پروفائل جرائم میں مبینہ طور پر تارکین وطن کے ملوث ہونے کے بعد کیے گئے۔
واضح رہے کہ 24 اگست کو جرمنی کے شہر سولنگن میں ایک تہوار کے دوران چاقو کے حملے میں 3 افراد ہلاک اور 4 دیگر زخمی ہوگئے تھے، اس کا ارتکاب مبینہ طور پر اسلامک اسٹیٹ گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک 26 سالہ شامی شہری نے کیا تھا۔
اس سے قبل 4 جون کو جرمنی میں مبینہ طور پر ایک افغانی پناہ گزین کی جانب سے چاقو کے حملے میں پولیس اہلکار کی ہلاکت اور 5 افراد کے زخمی ہو گئے تھے، جس کے بعد جرمنی نے افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کی اجازت دینے سے متعلق غور شروع کر دیا تھا۔
جرمنی کے وزیر داخلہ نینسی فیسر نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ سنگین جرائم میں ملوث افراد کو واپس افغانستان بھیجنے کی اجازت دینے کے لیے گزشتہ کئی ماہ سے جائزہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ میرے لیے یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو لوگ جرمنی کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، انہیں فوری طور پر ملک بدر کیا جانا چاہیے۔
جرمن وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ ہم جرائم میں ملوث عناصر اور خطرناک لوگوں کو شام اور افغانستان ڈی پورٹ کرنے کے طریقے تلاش کرنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہیں۔