• KHI: Maghrib 6:30pm Isha 7:46pm
  • LHR: Maghrib 6:02pm Isha 7:23pm
  • ISB: Maghrib 6:07pm Isha 7:30pm
  • KHI: Maghrib 6:30pm Isha 7:46pm
  • LHR: Maghrib 6:02pm Isha 7:23pm
  • ISB: Maghrib 6:07pm Isha 7:30pm

بلوچستان: دہشت گردوں کے حملے میں مردہ سمجھے جانے والے ٹرک ڈرائیور کی حالت میں بہتری

شائع August 28, 2024
ایک نرس نے بتایا اس کے بازو اور کمر میں 5 گولیاں لگییں لیکن اس کی حالت مستحکم ہے—فوٹو:رائٹرز
ایک نرس نے بتایا اس کے بازو اور کمر میں 5 گولیاں لگییں لیکن اس کی حالت مستحکم ہے—فوٹو:رائٹرز

گزشتہ ہفتے کے آخر میں بلوچستان کی تاریخ کے مہلک ترین دہشت گردانہ حملوں میں سے ایک کے دوران زخمی ہونے والا ٹرک ڈرائیور جسے ریسکیو حکام نے ابتدائی طور پر مردہ سمجھا تھا، ہسپتال میں روبصحت ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی خبر کے مطابق ریسکیو حکام سے لاشیں وصول کرنے کے دوران ہسپتال کے عملے کو احساس ہوا کہ 5 گولی مارے جانے کے باوجود وہ ابھی زندہ ہے۔

پیر کو منیر احمد اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ 4 ٹرکوں کے قافلے میں جنوبی صوبہ بلوچستان سے گزر رہا تھا۔

ڈرائیوروں کو حالات میں کسی بھی قسم کی خرابی محسوس ہوئی اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت طے ہونے تک انہوں نے کسی قسم کے پرتشدد واقعہ کے بارے میں نہیں سنا تھا۔

پھر اچانک مسلح افراد ہائی وے پر آ گئے، انہوں نے ہاتھ ہلا کر رکنے کا حکم دیا، ڈرائیوروں کو ان کے ٹرکس سے باہر نکال کر سڑک کے کنارے کھڑا کر دیا۔

50 سالہ احمد خوف کی حالت میں قرآنی آیات کی تلاوت کرنے لگا، اس نے بتایا کہ ہم سب خوفزدہ تھے۔

اس کے بعد مسلح دہشت گردوں نے فائرنگ کی اور انہیں مرنے کے لیے ایک ندی میں پھینک دیا۔

اس حوالے سے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ صوبے کی دیگر سڑکوں پر حملہ آوروں نے بسوں کو روکا، مسافروں کو اتارا اور مردوں کو ان کے اہل خانہ کے سامنے قتل کردیا۔

بعد ازاں امدادی کارکنوں نے احمد اور اس کے تین ساتھیوں کی لاشوں کو ہسپتال لے جانے کے لیے گاڑی میں رکھا جہاں پہنچ کر طبی عملے کو محسوس ہوا کہ وہ زندہ ہے۔

ایک نرس نے بتایا کہ اس کے بازو اور کمر میں پانچ گولیاں لگیں لیکن اس کی حالت مستحکم ہے۔

پنجاب میں موجود اپنے گھر سے بہت دور ہسپتال کے بستر پر پڑے احمد کے بازوؤں پر بہت زیادہ پٹیاں بندھی ہوئی ہیں، اس کا کہنا تھا کہ حملے کی یادداشت دھندلی ہےاور وہ اپنے ساتھیوں کی موت کے باعث پریشان ہے، وہ اتنے ہولناک واقعہ کے بعد مستقبل میں اپنے روزگار کے حوالے سے بھی بے یقینی کا شکار ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں بلوچستان میں عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ایک ہی دن میں موسیٰ خیل، مستونگ، بولان اور قلات میں مختلف واقعات میں 40 سے زائد افراد کو قتل کردیا تھا۔

ہفتے اور اتوار (24 اور 25 اگست)کی درمیانی رات میں نامعلوم مسلح افراد نے مستونگ، قلات، پسنی اور سنتسر میں لیویز اور پولیس تھانوں پر حملے کیے تھے، جس کے نتیجے میں متعدد اموات ہوئیں۔

سبی، پنجگور، مستونگ، تربت، بیلہ اور کوئٹہ میں دھماکوں اور دستی بم حملوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئیں، حکام نے تصدیق کی تھی کہ حملہ آوروں نے مستونگ کے بائی پاس علاقے کے قریب پاکستان اور ایران کو ملانے والے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا دیا۔

قلات کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) دوستین دشتی کے مطابق ضلع قلات میں رات بھر ہونے والے واقعات میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 11 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہوئے۔

رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ مسلح افراد نے پسنی تھانے پر حملہ کیا اور اہلکاروں کو زدوکوب کرنے کے بعد وہاں کھڑی تین گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو جلا دیا۔

حملہ آور گوادر کے ساحلی قصبے سنتسر میں ایک اور تھانے میں توڑ پھوڑ کرنے کے بعد سرکاری اسلحہ بھی ساتھ لے گئے۔

حکام کے مطابق مسلح افراد نے لیویز تھانہ کھڈکوچہ پر حملہ کیا اور وہاں موجود اہلکاروں کو یرغمال بنایا جب کہ قلات میں مسلح افراد کا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

ایس پی دشتی کا کہنا تھا کہ جھڑپوں میں شہید ہونے والوں میں لیویز کے 4 سپاہی احسن اللہ، علی اکبر، رحمت اللہ اور نصیب اللہ شامل ہیں جب کہ پولیس سب انسپکٹر حضور بخش، ایک قبائلی رہنما اور دو شہری بھی ان حملوں میں جاں بحق ہوئے۔

ڈسٹرکٹ کمشنر نعیم بازئی نے ڈان کو بتایا تھا کہ قلات کے اسسٹنٹ کمشنر آفتاب لاسی فائرنگ کے تبادلے میں زخمی ہوگئے۔

ایس پی دشتی نے بتایا تھا کہ قلات کے علاقے مہلبی میں مسلح افراد نے قبائلی شخص کے ہوٹل اور گھر پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں ملک زبیر محمد حسنی جاں بحق ہوگئے۔

ایس پی نے مزید کہا تھا کہ یہ جھڑپیں کوئٹہ کراچی ہائی وے کے مختلف مقامات پر ہوئیں، راستے کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے اور ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

’ضلع بولان میں 6 افراد کو گولیاں مارکر قتل کیا گیا‘

دریں اثنا، کچھی کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) دوست محمد بگٹی نے کہا کہ ضلع بولان سے 6 افراد کی لاشیں ملی ہیں، جنہیں گولیاں مارکر قتل کیا گیا ہے۔

اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) ڈھاڈر پیر بخش بگٹی نے بتایا کہ 2 لاشیں تباہ شدہ پل کے نیچے دبی ہوئی تھیں اور 4 لاشیں قومی شاہراہ میں کولپور کےمقام پر ملی ہیں، اندازہ ہے مقتولین کو شناختی کارڈ چیک کرکے قتل کیا گیا ہے جب کہ ان کی شناخت کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔

’موسیٰ خیل میں 23 افراد کو گاڑیوں سے اتار کر قتل کیا گیا‘

بلوچستان کے ضلع موسٰی خیل کے علاقے راڑہ شم کے مقام پر ٹرکوں اور مسافر بسوں سے اتارکر شناخت کے بعد 23 افراد کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا۔

اسسٹنٹ کمشنر نجیب کاکڑ نے بتایا تھا کہ مسلح افراد نے بین الصوبائی شاہراہ پر ناکہ لگاکر مسافروں کو بسوں سے اتارا اور شناخت کے بعد 23 افراد کو فائرنگ کرکے قتل کردیا ۔

اسسٹنٹ کمشنر نجیب کاکڑ نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ جاں بحق ہونے والوں کا تعلق پنجاب سے تھا، مسلح افراد نے 23 گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی جن میں 17 ٹرک، 2 مسافر وین اور 4 پک اپ گاڑیاں شامل تھیں۔

بی ایل اے نے ذمہ داری قبول کرلی

صوبے میں سب سے زیادہ سرگرم عسکریت پسند گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اسے حالیہ برسوں میں خطے میں ہونے والی فائرنگ کے بدترین واقعات میں سے ایک قرار دیا ہے۔

بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند نے اے ایف پی کو بتایا تھا ’ہم نے بی ایل اے کے دہشت گردوں کی جانب سے کیے گئے متعدد حملوں میں کم از کم 39 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی۔

کارٹون

کارٹون : 20 ستمبر 2024
کارٹون : 19 ستمبر 2024