• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی صنعت، توانائی کی وزارتیں ختم کرنے پر متفق

شائع August 20, 2024
— فائل فوٹو: اے پی پی
— فائل فوٹو: اے پی پی

سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے منتقلی اختیارات نے متفقہ طور پر صنعت و پیداوار اور توانائی (پیٹرولیم ڈویژن) کی وزارتوں کو متفقہ طور پر ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے اس ذمہ داری صوبوں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر زرقا سہروردی نے کہا کہ ذمہ داریوں کی صوبوں کو یا مشترکہ مفادات کونسل کو منتقلی کے حوالے سے مزید سفارشات بعد میں پیش کی جائیں گی۔

گزشتہ دو مالی سالوں کے دوران وزارت صنعت اور پیداوار کی کارکردگی پر بریفنگ کے دوران کمیٹی نے غور کیا کہ یہ وزارت اب صوبائی معاملہ بن چکی ہے، تاہم وزارت صنعت اور پیداوار کے ایڈیشنل سیکریٹری نے تجویز دی کہ اس معاملے پر وزارت قانون اور انصاف بہتر رائے دے سکتے ہیں۔

چیئرپرسن نے پاکستان اسٹیل ملز میں سرمایہ کاری کرنے کی وجوہات پر سوال اٹھایا کہ پاکستان اسٹیل مل کیوں بند کی گئی؟ جبکہ نجی اسٹیل ملیں چل رہی ہیں اور کامیابی سے اپنی مصنوعات بیچ رہی ہیں اور ان سے منافع کما رہی ہیں؟

انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ اگر پاکستان اسٹیل مل بند ہے تو 2200 ملازمین کو کیوں ملازمت دی گئی ؟ اس کے جواب میں وزیر نے کہا کہ 50 فیصد ملازمین کو نکالنے کے لیے لیبر کورٹ کی منظوری درکار ہے۔

اس اجلاس میں پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی اور یہ بات بھی زیر غور آئی کہ چین کی ایک کمپنی نے پاکستان اسٹیل ملز میں عدم دلچسپی ظاہر کی ہے۔

چیئرپرسن نے 44 کروڑ کے گیس بل پر بھی تشویش کا اظہار کیا، انہوں نے گھروں میں عام افراد کو فراہم کی جانے والے گیس کی کمی اور پاکستان اسٹیل مل کو فراہم کی جانے والی گیس کی فراہمی کے نمایاں فرق کو ظاہرکیا، اس حوالے سے متعلقہ حکام نے جواب دیا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو فراہم کی جانے والی گیس کی فراہمی معطل کردی گئی ہے۔

اس کے علاوہ کمیٹی نے فرٹیلائزر کی صنعتوں کی سیلز اور برآمدات،خاص طور پر 10 بڑی فرٹیلائزر کمپنیوں کی جانب سے فروخت کیے جانے والے اور برآمد کیے جانے والے یوریا کی تعداد کے حوالے سے رپورٹ طلب کی ۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت صنعت اور توانائی کے لیے مختص بجٹ 62 ارب روپے ہے، سینیٹر زرقا تیمور نے سوال کیا کہ یوریا سبسڈی میں 25 ارب روپے کے بجٹ سے پاکستان کو کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟

اس پر سیکریٹری نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ سبسڈی گیس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہے باوجود اس کے کہ گھریلو صارفین کو گیس کی فراہمی میں کمی کا سامنا ہے، مزید برآں کمیٹی نے سبسڈی حاصل کرنے والی کمپنیوں اور افراد کی تفصیلی معلومات طلب کی۔

کمیٹی نے گزشتہ دو مالی سالوں میں پیٹرولیم ڈویژن کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا، سینیٹر ضمیر حسین گھمرو نے 70 نئی کمپنیوں کے بنائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ حکومت کے اختیارات سے تجاوز کیا گیا ہے،کمیٹی نے ان کمپنیوں کے بورڈز کی بھی تفصیلات طلب کر لیں۔

سینیٹر ضمیر حسین گھمرو نے کہا کہ اگر یہ مسئلہ برقرار رہا تو ان مسائل کے حل کے لیے وزیراعظم کو بلانا پڑ سکتا ہے، انہوں نے اس بات پر غور کیا کہ پیٹرولیم ڈویژن مشترکہ مفادات کونسل کے تحت چلایا جارہا ہے اور وفاقی قانون ساز فہرست 2 میں شامل تمام ادارے پیٹرولیم ڈویژن کے زیر انتظام آتے ہیں۔

چیئرپرسن نے ارشد ندیم کی فتح کے بعد کھیلوں کی حمایت اور فروغ کی کمی پر تنقید کی اور کہا یہ صرف سیلفیوں اور مالی فائدوں کی حد تک محدود ہے، کمیٹی نے ملک میں کھیلوں کی بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات کے حوالے بھی رپورٹ طلب کی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024