• KHI: Asr 4:55pm Maghrib 6:39pm
  • LHR: Asr 4:27pm Maghrib 6:12pm
  • ISB: Asr 4:32pm Maghrib 6:18pm
  • KHI: Asr 4:55pm Maghrib 6:39pm
  • LHR: Asr 4:27pm Maghrib 6:12pm
  • ISB: Asr 4:32pm Maghrib 6:18pm

سست رفتار انٹرنیٹ: ’ہمیں اپنی تباہی پر خود کو سراہنا چاہیے‘

شائع August 20, 2024

اردو کہاوت ہے کہ عقل مند اپنی غلطی سے سیکھتا ہے جبکہ بے وقوف شخص بار بار اپنی غلطی دہراتا ہے۔

لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو کبھی سبق نہیں سیکھتے بالکل پاکستان میں برسراقتدار لوگوں کی طرح جو نتائج کی پروا کیے بغیر ایسے اقدامات دہراتے ہیں جو تباہی کا سامان ثابت ہوتے ہیں۔

آپ کا تجسس دور کرنے کے لیے بتاتے چلیں کہ ہم یہاں پاکستانی حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ کے ساتھ بار بار کیے جانے والے تجربات کی بات کررہے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے ان کے جنون کا آغاز ایک دہائی قبل ہوا تھا، لیکن اب اقتدار میں بیٹھے لوگ وہی غلطیاں دہرانے کے لیے پُرزور انداز میں مُصر ہیں جبکہ اب کی بار یہ کوتاہیاں زیادہ بڑی اور سنگین ہیں۔ اب یہ جان بوجھ کر آنکھیں بند کرلینا ہے، لاعلمی ہے یا وہی پرانی نااہلیت، وہی بہتر جانتے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ حکام (یا جن کے احکامات پر عمل ہوتا ہے) ایک سال سے زائد عرصے سے انٹرنیٹ پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں کہ جب تک وہ بدترین دن نہیں آگیا۔ حال ہی میں سب نے اپنے گھروں، دفاتر یا دورانِ سفر اس کا سامنا کیا۔ اس اقدام نے وائے فائی اور موبائل دونوں انٹرنیٹ کو متاثر کیا۔

اس سے قبل ایک دہائی سے زائد عرصے سے بگ برادر (آمرانہ طرزِ حکمرانی) ویب سائٹس کی طویل فہرست تک رسائی ممنوع قرار دے چکے ہیں۔ لیکن اب انہوں نے اس فہرست میں سوشل میڈیا کو بھی شامل کرنا شروع کردیا ہے۔

اس سلسلے کا پہلا شکار ایکس بنا جوکہ ظاہر ہے آسان ہدف تھا کیونکہ وہاں لوگ نہ صرف اظہارِ رائے کی جرات کرتے ہیں بلکہ اپنی آواز بھی بلند کرتے ہیں۔ تصور کریں کہ یہ حکومت کے لیے کس قدر خوفناک ہے۔

اس کے بعد واٹس ایپ زد میں آیا جس کے استعمال کے دوران صارفین کو مختلف رکاوٹوں کا سامنا ہے جیسے فائلز بھیجنے اور وصول کرنے میں تاخیر ہورہی ہے جبکہ صارفین موبائل ڈیٹا کے ذریعے وائس نوٹس یا تصاویر بھی نہیں بھیج پارہے۔

کچھ دیر کے لیے ’ڈیجیٹل حقوق‘ جیسی پیچیدہ اصلاحات کا ذکر نہیں کرتے کیونکہ ہمارے ملک میں پہلے ہی نظرانداز کیا جاتا ہے اس لیے اعداد پر توجہ دیتے ہیں۔

گزشتہ سالوں میں پاکستان نے انٹرنیٹ تک رسائی کو تیز کرنے میں بڑی پیش رفت کی۔ براڈ بینڈ کی رسائی مالی سال 2024ء میں 57.05 فیصد سے تجاوز کرگئی جبکہ مالی سال 2019ء میں یہ شرح 32.55 فیصد تھی۔ تاہم 13 کروڑ 83 لاکھ کنکشنز میں سے 97 فیصد سے زائد صارفین موبائل کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔

کنکشن مسائل کا سب سے پہلے یہی موبائل فون صارفین شکار بنتے ہیں اور اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جبکہ حکومت کے زیادہ تر اقدامات میں بھی موبائل فون صارفین کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اب بائیکیا رائڈر یا کسی بھی مزدور کی ہی مثال لے لیں جو لکھنے اور پڑھنے سے محروم ہے، وہ وائس نوٹس کے ذریعے ہی اپنا کام کرتا ہے اور اس کے لیے واٹس ایپ سب سے بہترین پلیٹ فارم ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ حکام کو ادراک ہوگیا کہ یہ صورت حال اچھی نہیں۔ گزشتہ ہفتے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں معاملے کی شنوائی ہوئی اور دو ریگولیٹری حکام ٹیلی کام اتھارٹی اور ٹیکنالوجی کی وزارت سے جوابات طلب کیے گئے۔ مبینہ طور پر یہ سست روی شاید اس لیے ہے کیونکہ حکومت نے فائروال کی آزمائش کی ہے یا ’ویب منیجمنٹ نظام‘ کو اپ گریڈ کیا ہے۔

بہ ظاہر یہ معمول کے اقدامات ہیں جو ملک کی سائبر سیکیورٹی کی غرض سے لیے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر ہم انتطامیہ کی اس وضاحت کو تسلیم بھی کرلیں تب بھی ان مسائل کو ایک سال ہونے کو آرہا ہے یعنی اب وقت ہے کہ کسی نہ کسی کو تو ٹیکنالوجی کے شراکت داروں سے بات کرنا ہوگی اور انہیں خود اپنے آپ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے پر سراہنا بھی چاہیے۔

یقینی طور پر اس طرح کے اقدامات کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارا ٹیلی کام سیکٹر پہلے ہی مسائل سے دوچار ہے جہاں ایک ملٹی نیشنل پہلے ہی مارکیٹ سے دستبردار ہوچکی ہے جبکہ دیگر، فی صارف اوسط منافع پر بہتر بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ ڈیٹا اور اس طرح کی سروسز کو بیرون ملک اپنے اسپانسرز کو ڈالرز میں کما کر دینا ہوگا۔

حیرت کی بات نہیں کہ موبائل ڈیٹا کو محدود یا بلاک کرنے سے ٹیلی کام کمپنیز پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مالی سال 2023ء میں موبائل ڈیٹا سے روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 1.51 ارب روپے حاصل ہورہے تھے۔ اس نقصان کا تخمینہ ہی لگایا جاسکتا ہے جو ٹیلی کام کمپنیز کو اٹھانا پڑتا ہے جب جب حکام انٹرنیٹ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں۔

کلاؤڈ فیئر کے مطابق پاکستان میں ڈاؤن لوڈنگ کی رفتار محض 22.3 ایم بی پیز ہے جوکہ نائجیریا (26 ایم بی پیز)، انڈونیشیا (31.5 ایم بی پیز) اور فلپائن (97.4 ایم بی پیز) سے بھی کم ہے۔ ایسے ماحول میں ٹیلی کام حکام کو اپنی ٹیکنالوجی اور انفرااسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے لیے مزید سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ظاہر ہے حکومت کی جانب سے 35 فیصد ٹیکس وصولی کے بعد ان کے پاس بھی اتنے وسائل نہیں بچتے جبکہ حکومت انٹرنیٹ سست اور بند کرکے ان کا مزید نقصان کرتی ہے۔

’پاکستان برانڈ‘ کے حوالے سے جوش پیدا کرنا پہلے ہی مشکل ہے۔ پریمیئر اوورسیز انویسٹرز چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے لے کر سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن تک، متعدد صنعتی ادارے سنگین نتائج کے حوالے سے خبردار کررہے ہیں۔ یقینی طور پر ان میں سے کچھ انتباہ کو حد سے زیادہ بڑھاوا بھی دیا گیا ہے لیکن صنعتوں میں اعتماد کی کمی کافی حد تک واضح ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

ہم دہائیوں سے اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اپنی ضرورتوں کے لیے حکومتوں پر انحصار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بجلی؟ جنریٹر یا یو پی ایس لے لیں۔ پانی؟ ٹینکر مافیا سے رابطہ کریں۔ تعلیم؟ اپنی جیبیں خالی کریں اور اپنے بچوں کو نجی اسکولز بھیجیں۔ صحت؟ موت کو گلے لگا لیں۔ لیکن مجموعی طور پر عوام کی بڑی تعداد یہ تسلیم کرتی ہے کہ نجی جمہوریہ پاکستان میں وہ رقم ادا کرکے مطلوبہ چیزیں حاصل کرسکتے ہیں۔

تاہم آپ کتنی ہی رقم کیوں نہ ادا کردیں، وہ رقم قابلِ اعتماد اچھے انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے ناکافی ہوگی۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

مطاہر خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 12 ستمبر 2024
کارٹون : 11 ستمبر 2024