جنرل باجوہ نے واضح کہا تھا میں ایکسٹینشن نہیں لوں گا، ملک احمد خان
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے کہا ہے جنرل باجوہ نے واضح کہا تھا میں ایکسٹینشن نہیں لوں گا۔
لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف نے ٹی وی انٹرویو دیا ایکسٹینشن کے حوالے سے لیکن مناسب ہوتا کہ خواجہ صاحب ان باتوں پر بھی روشنی ڈالتے کہ جن دنوں جنرل باجوہ نے امریکا میں ایک تقریب میں واضح کہا تھا کہ میں ایکسٹینشن نہیں لے رہا، اس کے بعد میری سیاسی بات چیت ان سے کم ہوئی لیکن جب میری جنرل باجوہ سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا کہ آپ کے بیان نے اچھی فضا قائم کر دی ہے، اس پر جنرل باجوہ نے کہا کہ میرا ٹائم مکمل ہوگیا ہے۔
ملک احمد خان نے کہا کہ اس کے بعد نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ایک تقریب ہوئی وہاں جنرل باجوہ نے کہا کہ کوئی ایکسٹینشن میں نہیں مانگ رہا، ان دنوں حالات ایسے تھے، عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تھی، 29 نومبر کو جنرل (ر) باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے دن پنڈی میں جی ایچ کیو کے باہر ایک دھرنا بھی بیٹھا تھا جاکے، تو جنرل باجوہ نے واضح کہا تھا کہ وہ ایکسٹینشن نہیں لیں گے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا فیصلہ حکومت کرتی ہے پھر عدالت میں جاتا ہے معاملہ ہے، عدالت اگر کہتی ہے کہ پارلیمان کا فیصلہ کریں تو معاملہ وہاں چلا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تعیناتیاں بہت ہی ضروری ہے، یہ پاکستان کا لینڈ سکیپ کا نقشہ بدل دیتی ہیں، تعیناتی کے حوالے سے نواز شریف کا مؤقف انتہائی کلیئر تھا، سینیارٹی کا پرنسپل ہر حال میں پورا ہونا چاہیے تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز نجی ٹی وی چینل سما کے پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ 2011 میں عمران خان کو لانے کا منصوبہ تیار کیا گیا اور 2013 میں دھرنے شروع ہو گئے، عمران کو لانا اور نواز کو نکالنا منصوبے کا حصہ تھا، نوازشریف کو پاناما سے شروع کر کے اقامہ پر نکالا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ جنرل باجوہ چاہتے تھے کہ ان کو مزید ایکسٹینشن ملے، جنرل باجوہ کے ساتھ بات چیت براہ راست ہو رہی تھی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ میں کہہ سکتا ہوں کہ 9 مئی کے سب ٹارگٹ جنرل فیض نے دیے تھے، تحریک انصاف کے لوگ 9 مئی والے دن ٹارگٹ پر پہنچے، مطالبہ کیا کہ 9 مئی ملک کے خلاف بغاوت تھی، عمران خان کا مقدمہ فوجی عدالت میں جانا چاہیے۔