پائیدار ترقی کیلئے ایف بی آر کی مکمل ڈیجیٹلائزیشن ناگزیر ہے، وزیر مملکت خزانہ
وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہا ہے کہ اگر ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو اس کے لیے وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کی مکمل ڈیجیٹلائزیشن ناگزیر ہے۔
وفاقی ریونیو بورڈ کی ڈیجیٹلائزیشن کی ٹاسک فورس کا پہلا اجلاس وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات علی پرویز ملک کی زیر صدارت ایف بی آر ہیڈکوارٹرز میں منعقد ہوا، جس میں ڈی جی سی 41 میجر جنرل سید علی رضا نے شریک چیئرمین کی حیثیت سے شرکت کی۔
اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال، بورڈ کے اراکین اور دیگر سینئر افسران کے علاوہ ٹاسک فورس کے اراکین شریک ہوئے جن میں لوٹے اختر بیوریجز کے غازی اختر، سسٹمز لمیٹڈ کے آصف پیر، پرال کے چیف ایگزیکٹو افسر عامر ملک، تانیہ ایدرس اور نادرا کے پروجیکٹ افسر گوہر مروت، جبکہ وقاص الحسن اور فرید ظفر نے آن لائن شرکت کی۔
وزیر مملکت برائے خزانہ نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ وزیر اعظم نے ایف بی آر کے تمام سسٹمز کی ڈیجیٹلائزیشن کے لیے سفارشات پیش کرنے کی غرض سے یہ ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو اس کے لیے ایف بی آر کی مکمل ڈیجیٹلائزیشن ناگزیر ہے، ٹاسک فورس کا مقصد ایسی پالیسیاں تشکیل دینا ہے جن سے ایف بی آر کی کارکردگی کو مزید بہتر بنا کر ملک کے لیے زیادہ محصولات اکٹھے کیے جا سکیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈی جی سی 41 نے کہا کہ حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے کا حتمی مقصد جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس کو بڑھا کر محصولات میں اضافہ کرنا ہے، مؤثر نتائج حاصل کرنے کے لیے مختلف اقدامات پر عملدرآمد کرنا ضروری ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ریونیو ڈویژن ڈیٹا آٹو میشن اور سافٹ ویئر سالوشنز کے نفاذ کے ذریعے محصولات کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیے پر عزم ہے۔
انہوں نے کمیٹی کے اراکین سے کہا کہ وہ ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کے لیے عملی تجاویز پیش کریں۔ انہوں نے سسٹمز کے انضمام اور نئے سسٹمز کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ٹیکس جمع کرنے والے ادارے کو جدید بنا کر مستقبل کے اہداف حاصل کیے جا سکیں۔
اس موقع پر کنسلٹنگ فرم میکنزی کے علی ملک نے ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کے لیے ہونے والی پیشرفت پر ایک جامع بریفنگ دی۔
انہوں نے بتایا کہ فرم دو اہم شعبوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ پہلا ایف بی آر کی مجموعی ڈیجیٹلائزیشن کا حصول اور دوسرا جلد حاصل ہو سکنے والی کامیابیوں کی نشاندہی اور ان پر عملدرآمد ہے۔
اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ اہم سٹیک ہولڈرزکے درمیان ڈیٹا شیئرنگ جاری ہے تاکہ بالآخر ایک اعلیٰ معیار کا ڈیٹا مرتب کیا جا سکے جو نان فائلرز اور سسٹم کو دھوکا دے کر اپنے ٹیکسوں سے بچنے والوں کی شناخت میں معاون ثابت ہوسکے۔
یہ بھی بتایا گیا کہ عالمی تجربے اور ایف بی آر میں دستیاب ڈیٹا کی بنیاد پر انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹی اور وصولیوں کے چار شعبوں میں فوری کامیابیوں کی نشاندہی کرلی گئی ہے۔
بعد ازاں ٹاسک فورس کے ضوابط کار (ٹی او آرز) پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا جس میں صوبوں کے ساتھ عمودی اور وزارتوں کے درمیان افقی طور پر ڈیٹا شیئرنگ، سپلائی چین آٹومیشن، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کا مربوط نظام، پرال کی تنظیم نو اور تجارتی شراکت داروں کے ساتھ تجارتی ڈیٹا شیئرنگ انٹر فیس شامل تھے۔
اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ بڑے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان فوری ڈیٹا شیئرنگ کے لیے ایک مضبوط خود کار نظام تیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے کے لیے ممکنہ ٹیکس دہندگان کی شناخت کی جا سکے۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ایف بی آر کے سسٹمز کی آٹومیشن اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ملک کی پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے ایک منظم اور دستاویزی معیشت کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔
ٹاسک فورس نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، وزارت خارجہ اور وزارت تجارت کی معاونت حاصل کرنے کے لیے ان کے اراکین کو آئندہ اجلاسوں میں مدعو کرنے کا فیصلہ کیا۔
اجلاس نے ٹی او آرز پر مزید غور کرنے کے لیے چار ورکنگ گروپس تشکیل دیے۔
گوہر احمد خان، غازی اختر (جن کی معاونت زیاد بشیر کریں گے)، آصف پیر اور تانیہ ایدرس (جن کی معاونت غازی اختر کریں گے) کو ان ورکنگ گروپس کا کنوینر مقرر کیا گیا۔
یہ ورکنگ گروپس اپنے متعلقہ دائرہ کار کے حوالے سے سفارشات تیار کرکے ٹاسک فورس کے آئندہ ہفتے منعقد ہونے والے اجلاس میں پیش کریں گے۔