• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:21pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:43pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:45pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:21pm
  • LHR: Zuhr 11:47am Asr 3:43pm
  • ISB: Zuhr 11:52am Asr 3:45pm

’حکام نے بلوچ احتجاج کو مس ہینڈل کیا‘، نیشنل پارٹی کے وفد کی وزیر اعظم سے ملاقات

شائع August 13, 2024
فوٹو: ڈان اخبار
فوٹو: ڈان اخبار

نیشنل پارٹی (این پی) کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے وزیر اعظم شہباز شریف سے حکومت اور احتجاج کرنے والی بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے درمیان ثالثی کی کوششوں کے تحت ملاقات کی، جس نے حال ہی میں گوادر اور بلوچستان کے دیگر حصوں میں بڑے مظاہرے کیے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈان سے بات کرتے ہوئے نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل سینیٹر جان محمد بلیدی نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے حکام کو گوادر میں ہونے والے احتجاج میں ’بدانتظامی‘ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا، جس سے صوبے میں امن و امان کی صورتحال پیدا ہوئی۔

وزیر اعظم شہباز شریف سے اپنی ملاقات میں، عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مسئلے کو سیاسی طور پر حل کرنے کے بجائے طاقت کا استعمال کیا۔

احتجاج کو روکنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں سے صوبے کو عملی طور پر مفلوج کر نے کے چند روز بعد یہ اجلاس اسلام آباد میں وزیر اعظم ہاؤس میں منعقد کیا گیا تھا۔

یہ مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اعلان کیا تھا کہ وہ 28 جولائی کو گوادر میں بلوچ راجی موچی (بلوچ نیشنل گیدرنگ) ایک تقریب منعقد کرے گی۔

جب صوبے بھر سے شرکا نے گوادر پہنچنے کی کوشش کی تو سیکیورٹی فورسز نے انہیں روک دیا، جس کے نتیجے میں صوبے کے مختلف حصوں میں جھڑپیں ہوئیں۔

27 جولائی کو، منصوبہ بند تقریب سے ایک دن پہلے، بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے اس کے حامیوں پر فائرنگ کی جو مستونگ میں گوادر جا رہے تھے۔

ایک سرکاری دعوے کے مطابق جھڑپوں میں کم از کم 14 افراد زخمی ہوئے، یہ جھڑپیں مستونگ کے قریب مظاہرین کے ایک لیویز چوکی پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھیں۔

28 جولائی کو گوادر میرین ڈرائیو پر جمع ہونے والے لوگوں کو منتشر کرنے کی کوشش میں حکام کی جانب سے آنسو گیس کے استعمال کے بعد ہونے والی جھڑپوں میں ایک شخص اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، اور 8 زخمی ہوئے۔

اس کے بعد سے سیکیورٹی حکام، صوبائی حکومت اور مظاہرین نے تشدد کے پھیلنے کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا کیونکہ احتجاج پورے صوبے میں پھیل گئے تھے، جس میں گوادر میں ہونے والا ایک احتجاج بھی شامل ہے، جس کی قیادت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کر رہی تھیں۔

گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں، آئی ایس پی آر کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ مافیاز کے پراکسیز ہیں۔

ان کی اسٹریٹیجی میں غیر ملکی فنڈنگ ​​کے ساتھ ہجوم کو اکٹھا کرنا، عوام میں بدامنی کو پھیلانا، پتھراؤ، توڑ پھوڑ، اور غیر معقول مطالبات کے ذریعے حکومتی اتھارٹی کو چیلنج کرنا شامل ہے، لیکن جب ریاست کارروائی کرتی ہے، تو وہ خود کو معصوم پیش کرتے ہیں۔

ان کے الزامات کے جواب میں رہنما ماہ رنگ بلوچ نے دعوؤں کے ثبوت مانگے اور آئی ایس پی آر کے ڈی جی کو معاملہ عدالت میں لے جانے کی دعوت دی۔

کشیدگی اب کم ہو گئی ہے کیونکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت نے گوادر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں اپنا دھرنا گزشتہ ہفتے حکومتی اہلکاروں کے ساتھ مذاکرات کے دور کے بعد ختم کر دیا تھا۔

’غیر جمہوری اور غلط‘

نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر جان محمد بلیدی کے مطابق، بلوچستان کے مسائل سیاسی تھے، لیکن کسی نے انہیں سیاسی طور پر حل کرنے کی کوشش نہیں کی اور اس کے بجائے طاقت کا استعمال کیا، جس نے مسائل کو پیچیدہ بنا دیا۔

نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل نے ڈان کو بتایا کہ عبدالمالک بلوچ نے شہباز شریف کو بتایا کہ گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی تقریب کو روکنے کے لیے سڑکیں بند کرنے اور طاقت کے استعمال کے صوبائی حکومت کے فیصلے غیر جمہوری اور غلط تھے۔

ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کے حوالے سے سینیٹر بلیدی نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل ریاست اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بامعنی مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیے جا سکتے ہیں۔

سیاسی معاملات کی مس ہینڈلنگ کی وجہ سے صورتحال بگڑتی جا رہی ہے، اس پر قابو پانے کے لیے کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حامیوں نے حکومت کے اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ہائی ویز اور لنک سڑکوں کو ایک ہفتے سے زیادہ عرصے تک بلاک رکھا تھا، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے میٹنگ کے دوران کہا کہ اس کی وجہ سے مکران اور دیگر علاقوں میں خوراک اور دیگر روزمرہ استعمال کی اشیا کی قلت پیدا ہوگئی۔

سینیٹر جان محمد بلیدی نے اپنی پارٹی کے رہنما کا حوالہ دیتے ہوئے ڈان کو بتایا کہ نیشنل پارٹی بلوچستان کے مسائل کو سیاسی طریقوں سے حل کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مشورہ دیا کہ ریاست کو ان سیاسی جماعتوں سے نمٹنے کے دوران طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے جو احتجاج کے لیے اپنے آئینی حقوق کا استعمال کرنا چاہتی ہیں۔

سیاسی جماعتوں اور عوام کو اپنے جمہوری حق کو استعمال کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

جان محمد بلیدی کے مطابق، وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت تمام سیاسی مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ جمہوریت اور آئین کی پاسداری پر یقین رکھتی ہے۔

وزیراعظم سے ملاقات کرنے والے نیشنل پارٹی کے وفد میں ایم این اے پھلان بلوچ بھی شامل تھے، اس موقع پر نائب وزیراعظم اسحق ڈار، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ بھی موجود تھے۔

کارٹون

کارٹون : 24 اکتوبر 2024
کارٹون : 23 اکتوبر 2024