• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 4:59pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm

معلوم ہی نہیں حکومت کس کی ہے، فرنٹ پر کوئی ہے اور ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے، فضل الرحمٰن

شائع August 11, 2024
سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) — فوٹو: جے یو آئی سوشل میڈیا
سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) — فوٹو: جے یو آئی سوشل میڈیا

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ جب معلوم ہی نہ ہو کہ حکومت کس کی ہے تو لوگوں کو کیا ملے گا، فرنٹ پر کوئی اور لوگ ہیں، ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہے، جب کہ ان کے پیچھے کوئی اور لوگ ہوتے ہیں، اس طرح ملک نہیں چلا کرتے، ملک کو سیاستدان چلاتے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پشاور میں تاجر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت زندگی کے ہر شعبے کے لوگوں سے متعلق بات کرتی ہے، ملک کی معیشت بہتر کرنے کے لیے جمیعت آواز اٹھاتی ہے.

انہوں نے کہا کہ ملک انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے، سب کو یکجا کرنا انتہائی ضروری ہے، امن اور بہتر معیشت ہماری ترجیحات ہونی چاہیے، انسان کی جان مال اور عزت و آبرو کا حق قانون سازی کے گرد گھومتا ہے۔

’امن اور بہتر معیشت ہماری ترجیحات ہونی چاہیے‘

ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں جب قانون سازی ہوتی ہے تو وہ تین چیزوں کے گرد گھومتی ہے، کسی کی جان، مال اور عزت کا تحفظ کیسے کرنا ہے اور اگر کوئی کسی کے حق کو مارے تو اس کی حق کی تلافی کیسے کی جائے، اسی پر ساری قانون سازی کی جاتی ہے۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ اپنے وطن پر نظر ڈال دیجئے، کیا یہاں امن ہے، یہاں بہتر معیشت ہے، کیا جس کے لئے ملک بنا اس پر ہم کھڑے ہیں، جو رب سے بغاوت کرتا ہے اسے اللہ بھوک اور بدن کی سزا دیتا ہے، آج ملک میں کیا ہورہا ہے خود دیکھ لیں۔

’پاکستان واحد ملک ہے جو معاشی لحاظ سے ڈوب رہا ہے‘

انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری دنیا اور خطے میں اگر کوئی ملک معاشی لحاظ سے ڈوب رہا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے، ہمارے نظام میں خامی ہے، ہماری پارلیمنٹ میں عوام کی نمائندگی کے نام پر لوگ ضرور بیٹھے ہوئے ہیں لیکن وہ عوام کے جعلی حقیقی نمائندے نہیں بلکہ جعلی نمائندے ہیں، اور جس پارلیمنٹ میں عوام کے حقیقی نمائندے نہیں ہوں گے وہ عوام کے مسائل کبھی حل نہیں کرسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے پارلیمنٹ میں بھی ٹیکس کی بات کی تھی کہ یہ تو ہمیں ورثے میں ملا ہے، کیا پاکستان میں 77 سالوں میں ہمارے طور طریقے بدلے ہیں، ٹیکس پر ٹیکس لگ رہے ہیں ہم کیوں ادا کریں، لوگوں کو پتہ ہے کہ ہمارا ٹیکس باہر قرضوں کی ادائیگی میں جائے گا، یہ آئی ایم ایف کے پاس جائے گا ہماری فلاح وبہبود پر خرچ نہیں ہوگا، پہلے قوم کو اعتماد تو دلائیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جب حکومت ہی معلوم نہ ہو کہ کس کی ہے، تو لوگوں کو کیا ملے گا، فرنٹ پر کوئی اور ہے اور ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے، اور ان کا ڈور پیچھے کسی اور کے ہاتھ میں ہیں، اور یہ صرف گالیوں کے لیے رہ جاتے ہیں، یہ نظام ہی غلط ہے۔

’معیشت کو دوبارہ اٹھانا کسی کے بس کی بات نہیں‘

انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ ان لوگوں پر اعتماد کیا ہے جو خوبصورت نعرے تو دیتے ہیں لیکن ان کے لیے کارکردگی کے لیے کچھ نہیں ہوتا، ملک کی معیشت زمین بوس ہوچکی ہے، اور یہ میاں صاحب کو بتایا تھا، معیشت اس قدر گرچکی ہے کہ اس کو دوبارہ اٹھانا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی، لیکن میاں صاحب نے کہا کہ میں نے چیلنج سمجھ کر قبول کیا ہے، لیکن اب چیلنج کا یہ حال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف سانس لینے کا ٹیکس نہیں لگایا، یا پھر موت پر ٹیکس نہیں لگا، اس کے علاوہ تو ہر چیز پر ٹیکس ہے، اس طرح ملک نہیں چلا کرتے، ملک کو سیاستدان چلاتے ہیں، جنہیں عوام کی مشکلات کا ادراک ہوتا ہے، وہ ملک کی ضرورت کو بھی سمجھتے ہیں اور لوگوں کے مسائل کے لیے بھی بیچ کا راستہ بھی نکالتے ہیں، ہمارے خزانے کا قلم دان ایسے لوگوں کو دیا جاتا ہے جس کو کچھ پتہ ہی نہیں ہوتا اور نہ وہ عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں۔

سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ کبھی معین قریشی آجاتا ہے تو کبھی ایسا وزیر اعظم اتا ہے کہ کچھ نہیں پتہ چلتا کہا سے آیا اور کہا گیا، پھر ہمارے ملک میں ایک وزیر خزانہ آیا بعد میں ملک کا وزیراعظم بن گیا لیکن ہمیں آج بھی پتہ نہیں کہاں سے آیا تھا اور کہاں گیا، جو عوام کے سامنے جوابدہ ہی نہ ہو تو اسے کیا پڑی ہے، وہ صرف اس کے لیے کام کرے گا جس کے بل بوتے پر یہاں تک آیا ہے۔

’سیاستدانوں نے پہلے ہی اپنے لیے باہر انتظامات کیے ہوئے ہوتے ہیں‘

انہوں نے کہا کہ ہمارے سیاستدانوں نے بھی پہلے سے ہی باہر اپنے لیے انتظامات کیے ہوئے ہوتے ہیں کہ مشکل آگئی تو وہاں چلے جائیں گے، اپنے قوم اور عوام میں رہا کرو، ہمیں عوام کے مسائل کی طرف بھی دیکھنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ کسانوں پر بھی ٹیکس لگایا گیا، ان سے مراعات بھی چھین لی ہیں اور ان پر بوجھ بھی بڑھا دیا ہے، گندم کے اسٹاک پڑے تھے، نئے اسٹاک آنے والی تھی لیکن ایسے میں باہر سے گندم اور غیر معیاری گندم کیوں منگوایا گیا، یہاں کسانوں کے پاس سٹاک پڑا ہے لیکن خریدنے والے نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024