سپریم کورٹ: بجلی کی فراہمی کم لاگت کی بنیاد پر یقینی بنانے کیلئے درخواست دائر
اضافی بلوں کا معاملہ 2 درخواستوں کے ساتھ سپریم کورٹ جا پہنچا ہے جس میں یہ حکم دینے کی درخواست کی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت شہریوں کو کم سے کم قیمت پر بجلی کی فراہمی وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواستگزاروں نے وفاقی حکومت سے بجلی کی خریداری کے تمام معاہدوں، عملدرآمد کے معاہدوں اور متعلقہ معاہدوں کی تفصیلات سپریم کورٹ کے ساتھ شیئر کرنے کی بھی استدعا کی ہے۔
ایک درخواست فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے اپنے نائب صدر ذکی اعجاز کے ذریعے اور دوسری لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد اسد منظور بٹ نے دائر کی۔
ایف پی سی سی آئی کی جانب سے ایڈووکیٹ فیصل حسین نقوی کے توسط سے دائر کی گئی درخواست میں عدالت سے 1994، 2002 اور 2015 کی پالیسیوں کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے کیونکہ انہوں نے بغیر مسابقتی بڈنگ اور ریشنیلٹی کے ریاستی وسائل کو ضائع کرنے کی اجازت دی اور اسے جاری رکھا۔
عدالت سے کہا گیا کہ وہ یہ اعلان کرے کہ حکومت اور اس کے آلات عام لوگوں کو بجلی جیسی ضروری سہولیات کی فراہمی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ حکومت کو تمام آزاد پاور پروڈیوسرز کا مکمل فرانزک آڈٹ کرنے کا حکم دے۔
حکومت کو آئی پی پیز کے ذریعہ کمائے گئے زائد منافع کی وصولی کے ذریعے، تمام معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کرکے اور انہیں ٹیک یا پے سے ٹیک اینڈ پے میں تبدیل کرکے 2020 کی رپورٹ پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ، عدالت کو ان ہدایات کو واپس لینے کا حکم دینا چاہیے جو ان رقوم کی ڈالرائزیشن کی اجازت دیتی ہیں جو درحقیقت غیر ملکی کرنسیوں میں سرمایہ کاری یا ادھار نہیں لی گئی تھیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک طے شدہ قانون ہے کہ آئین کے آرٹیکل 9 کے تحت زندگی کے حق کی ضمانت میں بجلی کا حق بھی شامل ہے، نتیجتاً، ریاست کی جانب سے معقول حد تک سستی بجلی فراہم کرنے میں ناکامی شہریوں کے زندگی کے حق کی آئینی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
مسابقتی بڈنگ کے بغیر بجلی کی خریداری آئین کی اس بنیادی خلاف ورزی کو بڑھا دیتی ہے، پٹیشن میں کہا گیا کہ گزشتہ 30 سالوں سے بجلی کے شعبے کو پالیسی سازی کو لاپرواہ تجربات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جن میں ملکی اور بین الاقوامی اشرافیہ نے پاکستان کے شہریوں کی قیمت پر ترقی حاصل کی۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ پہلا مجرم ورلڈ بینک ہے، جس نے 1994 کی پالیسی سے براہ راست فائدہ اٹھایا، ستم ظریفی یہ ہے کہ اگرچہ ماہرین اور ورلڈ بینک نے تسلیم کیا کہ 1994 کی پالیسی میں خامی تھی لیکن پھر وہی پالیسی 2015 کی پالیسی کی شکل میں برقرار ہے۔
حکومت کو کیپیسٹی پیمنٹس کی مد میں 21 کھرب روپے ادا کرنے کے تھے جبکہ 2024 میں توانائی کے شعبے کے لیے گردشی قرضہ 54.22 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے، اسی وقت میں متعدد آئی پی پیز کو اربوں کی ادائیگی کی جا رہی ہے باوجود اس کے کہ وہ کوئی بجلی پیدا نہیں کر رہے ہیں۔
دریں اثنا، حکومت صارفین کے چھوٹے پول سے زیادہ سے زیادہ ٹیرف وصول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس کی کوئی عوامی وضاحت نہیں ہے کہ کیوں 2020 کی رپورٹ پر عمل درآمد نہیں ہوا، درخواست میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاور سیکٹر اس طرح ریگولیٹری کیپچر کی ایک مثال ہے جہاں لوگ شکاری اشرافیہ کے ہاتھوں نقصان اٹھاتے رہتے ہیں۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے آئی پی پی کے راستے پر تیس سال گزارے ہیں اور اس راستے میں سوائے مصائب اور آنے والے دیوالیہ کے دکھانے کو کچھ نہیں، ہم مزید اس طرح کے پاگل پن کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
’حلال کاروبار کا حق‘
دوسری درخواست ایڈووکیٹ حسن عرفان خان کی جانب سے دائر کی گئی جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ مہنگی بجلی آئین کے آرٹیکل 18 کے خلاف ہے جو بغیر کسی امتیاز کے حلال کاروبار کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔
مہنگی بجلی نے صارفین کو شدید معاشی نقصان پہنچا کر ملک کے لوگوں کے لیے کاروبار کرنا ناممکن بنا دیا ہے، انہوں نے دلیل دی کہ ریاست اور اس کے ذمہ داران معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے کے پابند ہیں اور جہاں ممکن ہو، اسے ختم کر دیں۔
پٹیشن میں استدلال کیا گیا ہے کہ ہموار کاروبار کی راہ میں حائل رکاوٹیں نہ صرف فرد یا متاثرہ افراد کو مایوس کرتی ہیں بلکہ قانونی سرگرمیوں کو انجام دینے میں اس طرح کی رکاوٹیں ریاست میں افراتفری، انارکی اور غیر قانونی پن پیدا کرنے کا رجحان رکھتی ہیں۔