• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:03pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm

مرد کی غیرت اور کلہاڑی

شائع August 6, 2024

بالائی سندھ کے ہسپتال سے سامنے آنے والی تصویر نے مجھے خوفزدہ کیا کہ جس میں ایک باپ نے اپنی بیٹی پر کلہاڑی سے حملہ کیا وہ بھی اس وجہ سے کہ بیٹی نے بدسلوکی کرنے والے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا تھا۔ میں نے گوگل پر خاتون، کلہاڑی اور حملہ لکھا تو میرے سامنے بہت سے حقائق آئے۔

جہاں بات مرد کی غیرت کی ہوتی ہے وہاں کلہاڑی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ ’غیرت‘ کے نام پر چھڑیاں، بندوقوں، پسٹل، پتھروں، چاقو اور حتیٰ کہ مٹی کے تیل اور پیٹرول کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے کو سلام ہے کہ جہاں غیرت کے نام پر قتل کے مجرمان کو سزا دیے جانے کی شرح تقریباً صفر ہے جبکہ ایسے واقعات میں اکثر مقتولین کے اہلِ خانہ ہی ملوث ہوتے ہیں۔

ہم میں سے زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چاہے کیسے بھی حالات ہوں، ہمارے اہلِ خانہ ہمارا ساتھ دیں گے۔ اس مایوسی اور تنہائی کا تصور کریں جو ایسی خاتون کو محسوس ہوتی ہوگی کہ جب اس کا سگا باپ ہی وحشیانہ حملہ کرکے ان کی ٹانگیں کاٹ ڈالے حالانکہ اس خاتون کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ایک ایسے ہتک آمیز رشتے کو برقرار نہیں رکھنا چاہتی تھی کہ جہاں اس کا خاوند اسے ظلم کا نشانہ بنائے۔

اسی طرح چند روز قبل ایک اور واقعہ سامنے آیا تھا کہ جہاں کراچی کے علاقے کورنگی میں ایک شخص نے کلہاڑی کے وار کرکے اپنی پوتی کو قتل کردیا تھا۔ لڑکی نے پسند کی شادی کی تھی جس نے اس کے خاندان کو مشتعل کیا اور وہ اپنے شوہر کے ہمراہ جامشورو منتقل ہوگئی۔ اس کے دادا صلح رحمی کے بہانے پوتی کو گھر واپس لائے اور پھر اسے قتل کردیا۔

اس سے قبل کہ آپ مجھ سے کہیں کہ میں ایسے واقعات پر حیرانی کا اظہار کیوں کررہا ہوں جوکہ ہمارے معاشرے میں عام ہوچکے ہیں اور دہائیوں سے رونما ہورہے ہیں، آپ کو بتاتا چلوں کہ جب بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں میں شدید اشتعال محسوس کرتا ہوں کیونکہ میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ اگلے روز یہ بات آئی گئی ہوجائے گی۔

مرد کی غیرت کی بات ہے تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے خاتون کے قتل پر غم بھی خاتون ہی کرتی ہے جو یا تو اس کی ماں ہوگی یا بہن۔ یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ کہیں مذہب کو استعمال کیا جاتا ہے یا دیگر مثالوں میں قبائلی قوانین اور ’ہماری روایات‘ کا حوالہ دے کر ایسی انسانیت سوز واقعات کو درست اقدام قرار دینے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔

وجوہات چاہیں جو بھی ہوں، اس نوعیت کے واقعات میں قتل کیے جانے والوں کی اکثریت صنفِ نازک ہے۔ اس کی تصدیق کے لیے آپ گوگل پر سرچ کرسکتے ہیں اور 2000ء کی دہائی کے اوائل سے (میرے خیال سے اخبارات کو ڈیجیٹائز کرنے کا سلسلہ تب شروع ہوا تھا) آج کی تاریخ تک رونما ہونے والے بے شمار واقعات آپ کے سامنے آجائیں گے۔

ہماری عظیم اور قابلِ رشک روایات کی بنیاد پر ہم خواتین کو برابری کی نظر سے نہیں دیکھتے اور انہیں مردوں کے برابر حقوق نہیں دیتے۔ وہ جب بھی خودمختار فیصلے کرنا چاہتی ہیں، ہماری انا کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ہمارا غصہ بھڑک اٹھتا ہے۔

اعدادوشمار واضح کرتے ہیں کہ مسئلہ پاکستان کے محض ایک حصے تک محدود نہیں ہے۔ 2019ء میں صرف سندھ میں 108 خواتین غیرت کے نام پر موت کے گھاٹ اتار دی گئیں۔ لیکن اس وقت ہماری غیرت سو گئی تھی کہ جب سال 2023ء میں صرف کراچی میں تقریباً 500 خواتین اور لڑکیوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 4 ہزار پر جسمانی حملے کیے گئے۔

خیبرپختونخوا کی وادیوں سے لے کر بلوچستان کے پسماندہ علاقوں تک، خواتین کے خلاف جرائم آئے دن رونما ہوتے ہیں جن میں سے اکثریت غیرت سے منسلک ہوتے ہیں۔ مجرم مرد ہی ہوتا ہے جس کی غیرت کو اس وقت کوئی ٹھیس نہیں پہنچتی کہ جب وہ کسی خاتون کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے، حملہ کرتا ہے یا وہ ایسے کسی واقعے کا گواہ ہوتا ہے لیکن پھر بھی اپنے لب سی لیتا ہے۔

اس سے پہلے کوئی یہ سمجھے کہ پنجاب میں اس طرح کے واقعات کی شرح کم ہے، صوبے کے مسئلہ کی ایک جھلک پیش کرنا چاہوں گا۔ 2022ء میں صرف ضلع گجرات میں 39 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا جبکہ 2023ء میں یہ تعداد 35 تھی۔ یاد رہے کہ پورے پنجاب میں تین درجن سے زائد اضلاع ہیں۔

اب اگر رپورٹ نہ ہونے والے واقعات کو دیکھا جائے تو اضلاع کے قطع نظر ان کی تعداد میں اضافہ ہوجائے گا۔

تحقیق کے سلسلے میں مجھے حالیہ ہفتوں میں اسی نوعیت کے واقعات کے حوالے سے معلوم ہوا جو ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور میں رونما ہوئے۔

پہلے واقعے میں تو خاتون کو گولی مار دی گئی جبکہ دوسرے واقعے میں شوہر نے پیٹرول چھڑک کر بیوی کو زندہ جلا دیا۔ آخری لمحات میں مقتول پر کیا گزری ہوگی، اس کا تصور بھی اندوہناک ہے۔

جب بھی صحافی یا کالم نگار معاشرے کی ایسی خرابیوں کی جانب توجہ مبذول کروانے کی کوشش کرتے ہیں جو طویل عرصے سے نظرانداز کی جارہی ہوں، تو چند قارئین کہتے ہیں کہ ’آپ منفی کہانیاں‘ رپورٹ کرتے ہیں اور کوئی حل بھی پیش نہیں کرتے۔

تو میں کچھ تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میری نظر میں ایک باہمت ترین خاتون نے کی تھی۔ پی پی پی کی قیادت کو معاشرے کے اس ناسور کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ آج بھی صوبے میں بھٹو کے نام کی تعظیم کی جاتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور ان کی بہن آصفہ بھٹو زرداری کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اعلیٰ مہم کی قیادت کریں اور ایسے علاقوں پر توجہ دیں کہ جہاں خواتین کے خلاف جرائم رونما ہوتے ہیں۔

ایسی کسی مہم کے لازمی حصے کے طور پر انہیں چاہیے کہ وہ ذاتی طور پر اس بات کو یقینی بنائیں کہ زندہ بچ جانے والی متاثرہ خواتین کو ریاست تحفظ فراہم کرے، ان کی رہائش تبدیل کی جائے اور شاید گواہان کے تحفظ پروگرام کے تحت ان کی شناخت تبدیل کی جائے۔ اس سلسلے میں خصوصی عدالتیں بھی قائم کی جا سکتی ہیں جہاں غیرت کے معتلق جرائم کے مقدمات کو تیزی سے نمٹایا جاسکے۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بھی اپنے صوبے میں اسی طرح کی کوششیں کرسکتی ہیں۔ اس معاملے میں دلچسپی لے کر وہ صوبے میں اپنی اور اپنی سیاسی جماعت کی ساکھ کو بہتر بنا سکتی ہیں۔ ہمیں اس یاددہانی کی ضرورت نہیں کہ خواتین ہماری آبادی کا نصف حصہ ہیں پھر چاہے ہم ان کے ساتھ کتنا ہی ناروا سلوک کیوں نہ برتیں۔

ایک اور اہم تجویز یہ ہے کہ اس وحشیانہ جرم کی روک تھام کے لیے نیشنل ٹاسک فورس بھی قائم کیا جاسکتی ہے۔ اگرچہ انہوں نے مجھے اجازت نہیں دی کہ میں ان کا ذکر کروں لیکن خیرپور سے پی پی پی کی رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ اس نوعیت کے مقدمات میں اپنی اہلیت ثابت کرچکی ہیں۔ ہم نے اس کی مثالیں میگزین اور اخبار میں شائع مضامین کی صورت میں دیکھی ہیں، اگر میں غلط نہ ہوں تو ان کا ڈاکٹریٹ مقالہ بھی اسی متعلق تھا۔

اختتام میں سابق وزیراعظم عمران خان جو بیانیہ تشکیل دینے کے معاملے میں بااثر ہیں، عوام میں پیغام رسانی کے لیے ان کی ساکھ اور شخصیت کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔

اگر ہم یہ تمام تجاویز پر عمل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ معاشرے میں بڑی تبدیلی لانے کے لیے کوششوں کا آغاز ثابت ہوسکتی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024