شاہراہوں کی بندش کے باعث بلوچستان میں پیٹرول کا بحران
بلوچستان کے متعدد شہروں بشمول دارالحکومت کوئٹہ میں گزشتہ 4 روز پیٹرول اور ڈیزل کی شدید قلت ہے، جس کی وجہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے کے سبب کوئٹہ-کراچی قومی شاہراہ کی بندش سے تیل کی ترسیل کرنے والی کمپنیز ایندھن کی فراہمی کرنے سے قاصر ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت بلوچستان نے 28 جولائی کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارواں کو گوادر میں بلوچ راجی موچی ( بلوچوں قومی اجتماع ) میں پہنچنے سے روکنے کے لیے کئی شاہراہوں کو بند کردیا تھا ۔
گایرانی پیٹرول اور ڈیزل جن کی قیمیتیں دیگر پیٹرولیم مصنوعات سے کم ہیں، سرحدی علاقوں سے ان کی ترسیل میں بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
کوئٹہ کے زیادہ تر پیٹرول پمپس پر ’ایندھن دستیاب نہیں ہے‘ کہ بورڈز لگے ہوئے ہیں، کچھ پیٹرول پمپس جنہوں نے ایرانی پیٹرول کی دستیابی کو ممکن بنایا ہے، اسے نمایاں طور پر مہنگے داموں فروخت کیا جارہا ہے اور ان پمپس پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق ژوب، بارکھان اور کوئٹہ کے دیگر علاقوں میں ایرانی پیٹرول 550 روپے فی لیٹر تک میں فروخت ہو رہا ہے۔
تاہم ، بلوچستان پیٹرولیم ایسوسی ایشن کے عہدیدار نے بتایا کہ ایندھن کی ترسیل دوبارہ شروع ہو گئی ہے اور اگلے 24 گھنٹوں میں صورتحال مزید بہتر ہوجائے گی۔
مظاہرے جاری
گوادر میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بحال کرنے اور حکومت کی جانب سے سڑکیں کھولنے کے باجود کوئٹہ ، نوشکی اور گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے جاری ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے نمائندگان سے مذاکرات کرنے والی کمیٹی کا حصہ رہنے والے سینئر وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی منصور احمد بلیدی کا کہنا ہے کہ حکومت نے طے پانے والے معاہدے پر عمل در آمد شروع کردیا ہے۔
ان کا یہ دعوی تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کو رہا کردیا گیا ہے، مزید کہنا تھا کہ ایف آئی آرز میں نامزد افراد کو پیر کے دن عدالتی عمل کے ذریعے مقدمات ختم کرکے رہا کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو ذمہ داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔
دوسری طرف، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین کا بلوچستان یونیورسٹی اور کوئٹہ تافتان شاہراہ کے سامنے احتجاج جاری ہے، اس کےعلاوہ مظاہرین نے سریاب روڈ اور ایران کے ساتھ تجارتی شاہراہ میں اہم کردار ادا کرنے والی شاہراہ کوئٹہ تافتان نیشنل ہائے وے کو بھی بند کر دیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات منظور نہیں ہوتے دھرنا جاری رہے گا، ان کے مطالبات میں ایک شخص کے قتل اور نوشکی میں 2 افراد کو زخمی کرنے والے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج بھی شامل ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ محکمہ داخلہ اس بات کو یقینی بنائے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے تمام حراست میں لیے گئے افراد اور مظاہرین کے خلاف مزید کوئی کاروائی نہیں کریں گے۔
مزید ازاں ، وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی اپنے کابینہ اراکین کے ساتھ گوادر آئیں اور ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں پولیس کی جانب سے کی گئی کارروائی کی ذمہ داری قبول کریں۔
تاہم ، صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو کا کہنا ہے کہ گوادر کی ترقی کو روکنے کے لیے منفی سیاست کو روکنا چاہیے ۔
انہوں نے بلوچستان اور گوادر کے لوگوں کو گوادر کی ترقی اور نوجوانوں کے مستقبل کو روکنے والی دھرنے کی سیاست ختم کرنے پر زور دیا۔
علاوہ ازیں، وزیراعلی بلوچستان بگٹی نے پولیس شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا اور قومیت پسندوں کو پرتشدد مظاہروں سے روکنے سے خبردار کیا۔
سینٹرل پولیس آفس میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں مذہب اور قومیت کے نام پر دہشت گردی پھیل گئی ہے، لیکن پولیس اور لیویز اہکلاروں میں اس کو ختم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کا مختصر حوالے دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا، کہ عورتوں کو اپنی ڈھال بنا کر بلوچستان کے روایات کو کمزور کیا جارہا ہے اور اس طرح کے لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شہداء کی قربانیوں کا بدلہ لیا جاچکا ہے ، انہوں نے مسلح لوگوں سے براہ راست مقابلہ کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
وزیر اعلی سرفراز بگٹی نے کہا کہ صوبے کے حقوق کا تحفظ ہمیں ہمیشہ پارلیمنٹ کے ذریعے حاصل ہوئے۔
انہوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ حکومت شہدا کے خاندانوں کی مدد اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔