• KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:48pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

’پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کیلئے آئین کے آرٹیکل 51، 63 اور 106 کو معطل کرنا ہوگا‘

شائع August 3, 2024
دونوں ججز نے اقلیتی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مختصر فیصلہ سنانے کے بعد 15 دنوں کا دورانیہ ختم ہونے کے باوجود اکثریتی فیصلہ جاری نہ ہوسکا — فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
دونوں ججز نے اقلیتی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مختصر فیصلہ سنانے کے بعد 15 دنوں کا دورانیہ ختم ہونے کے باوجود اکثریتی فیصلہ جاری نہ ہوسکا — فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

سپریم کورٹ کے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں ملنے کے فیصلے پر جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے تفصیلی اختلافی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی۔

ڈان نیوز کے مطابق جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے پی ٹی آئی مخصوص نشستوں پر 29 صفحات پر مشتمل اقلیتی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مختصر فیصلہ سنانے کے بعد 15 دنوں کا دورانیہ ختم ہونے کے باوجود اکثریتی فیصلہ جاری نہ ہو سکا اور تفصیلی فیصلے میں تاخیر کے باعث ہم مختصر حکمنامے پر ہی اپنی فائنڈنگ دے رہے ہیں۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، حتیٰ کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی، اسے ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہوگا۔

اختلافی نوٹ میں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے چار خطوط بھی شامل کیے گئے ہیں۔

نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آزاد امیدواروں کو الیکشن کمیشن، قومی اسمبلی اور تینوں صوبائی اسمبلیوں میں طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد تسلیم کیا گیا، 39 یا 41 اراکین اسمبلی جس کا مختصر اکثریتی فیصلے میں حوالہ دیا گیا ہے یہ معاملہ کبھی متنازع ہی نہیں تھا۔

دونوں ججز نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ کسی عدالتی کارروائی میں یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی، تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہائی کورٹ میں فریق تھی جبکہ سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک بھی پی ٹی آئی فریق نہیں تھی۔

13 رکنی فل کورٹ کی آٹھ سماعتوں میں سب سے زیادہ وقت کا استعمال ججز کے سوالات پر ہوا، سپریم کورٹ میں دوران سماعت کچھ ججز نے یہ سوال بھی پوچھا کہ کیا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جا سکتی ہیں؟ جس پر کوئی وکیل مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے پر متفق نہیں ہوا جبکہ کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجا نے بھی دلائل میں واضح کہا کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے سے اتفاق نہیں کرتا ہوں۔

واضح رہے کہ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024