• KHI: Maghrib 6:44pm Isha 8:01pm
  • LHR: Maghrib 6:19pm Isha 7:41pm
  • ISB: Maghrib 6:25pm Isha 7:50pm
  • KHI: Maghrib 6:44pm Isha 8:01pm
  • LHR: Maghrib 6:19pm Isha 7:41pm
  • ISB: Maghrib 6:25pm Isha 7:50pm

بنگلہ دیش: طلبہ کا پُرامن احتجاج، حکومت مخالف تحریک میں کیسے تبدیل ہوا؟

طلبہ کے پُرامن احتجاج کو حسینہ واجد کے طنزیہ بیان نے مشتعل کیا جس میں انہوں نے مظاہرین کو پاکستان کا ساتھ دینے والے 'رضاکار' قرار دیا۔
شائع July 25, 2024

بنگلہ دیش کی 17 کروڑ آبادی اس وقت مکمل طور پر دنیا سے کٹ چکی ہے۔ دنیا کے تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں شامل بنگلہ دیش کو اُس وقت شدید سیاسی عدم استحکام کا سامنا کرنا پڑا کہ جب 5 جون 2024ء کو بنگلہ ہائی کورٹ نے 2018ء میں ختم کیے گئے کوٹہ سسٹم کو بحال کردیا۔

اس وقت بنگلہ دیش میں انٹرنیٹ بند اور سڑکوں پر کرفیو نافذ ہے۔ عدالتی فیصلہ سامنے آنے کے اگلے دن سے شروع ہونے والے طلبہ کے احتجاج کو پوری دنیا نے پُرتشدد ہنگاموں میں تبدیل ہوتے دیکھا۔ شیخ حسینہ واجد نے طلبہ کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی اور عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم ’چھاترا لیگ‘ نے کوٹہ سسٹم کے خلاف سڑکوں پر آنے والے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا لیکن طلبہ کے جذبات کو اُس وقت ٹھیس پہنچی جب شیخ حسینہ واجد نے 16 جولائی کو ایک غیر ذمہ دارانہ بیان دیا جس نے منظم اور پُرامن طلبہ مظاہرین کے جذبات کو بھڑکایا۔

بنگلہ دیش سے تازہ ترین اطلاعات

تازہ ترین پیش رفت میں 21 جولائی کو سپریم کورٹ نے سراپا احتجاج طلبہ کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے 30 فیصد کوٹہ کم کرکے 5 فیصد کوٹہ ہنوز برقرار رکھا۔ ایک فیصد مخنث جبکہ ایک فیصد معذوروں کے لیے مختص ہے۔ عدالت نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ حکومت اس تناسب کو تبدیل کرسکتی ہے۔

23 جولائی کو کرفیو میں چند گھنٹوں کی نرمی کی گئی۔ تاہم تمام تعلیمی ادارے غیر معینہ مدت کے لیے بند ہیں، یہاں تک کہ کئی ہوسٹلز بھی خالی ہوچکے ہیں۔ طلبہ کا اب صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ شیخ حسینہ جاں بحق افراد کے لواحقین سے معافی مانگیں۔

  بنگلہ دیش میں مظاہرے پُرتشدد صورت اختیار کرچکے ہیں—تصویر: ایکس
بنگلہ دیش میں مظاہرے پُرتشدد صورت اختیار کرچکے ہیں—تصویر: ایکس

ڈھاکا میں مقیم ڈاکٹر سید نوید مشتاق نے ڈان نیوز ڈیجیٹل کے رابطے کرنے پر کئی دنوں بعد 24 جولائی کو ہمیں جواب دیا کہ ’ڈھاکا میں 5 دنوں سے انٹر نیٹ بند اور مکمل میڈیا بلیک آؤٹ ہے۔ اشیائے خور ونوش کی قلت ہوچکی ہے جبکہ دستیاب اشیا کئی گنا زائد قیمتوں پر فروخت ہورہی ہیں۔ ایک درجن انڈے 185 ٹکا کے حساب سے دستیاب ہیں‘۔

ڈھاکا میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر سید معروف کا کہنا ہے کہ ’حالات بہتری کی طرف جارہے ہیں۔ کرفیو میں زیادہ دیر کے لیے نرمی کی گئی ہے لیکن حالات ابھی بھی مکمل طور پر معمول پر نہیں۔ پاکستانی طلبہ محفوظ ہیں اور ہم سب سے رابطے میں ہیں، ساتھ ہی پاکستان میں موجود ان کے خاندانوں تک ان کی خیریت کی خبریں بھی پہنچا رہے ہیں کیونکہ مواصلاتی ذرائع ابھی بحال نہیں ہوئے ہیں۔ پاکستانی ہائی کمیشن کی ٹیم بھی پاکستانی طلبہ کے ساتھ موجود ہے‘۔

ان تمام پُرتشدد ہنگاموں کی خبروں میں کئی بار پاکستان کی بازگشت سنی گئی۔ لہذا ہم اس مسئلے کو ابتدا سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخریہ مسئلہ ہے کیا؟ ساتھ ہی یہ سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ جنوری 2024ء میں مسلسل چوتھی بار وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے والی شیخ حسینہ واجد کی 15 سالہ حکومت اس بار صرف سیاسی ہچکولے کھائے گی یا واقعی اس بار ان کی حکومت خطرے میں ہے؟

کوٹہ سسٹم کیا ہے؟

1971ء میں مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا اور اس دوران پاکستان سے آزادی کے لیے جنگ لڑنے والے بنگلہ دیش کے ہیرو کہلائے۔ ان جنگی ہیروز کے خاندانوں کو سرکاری نوکریوں بالخصوص سول سروسز میں مخصوص کوٹہ سے نوازا جاتا رہا اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک جاری رہا۔ لیکن 2018ء میں طلبہ کے پُرزور احتجاج پر اس کوٹے کو ختم کردیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ 2018ء میں بھی حکومت نے طلبہ کے احتجاج کے پیشِ نظر صرف فرسٹ اور سیکنڈ کلاس ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کو منسوخ کیا تھا یعنی مکمل طور پر اسے منسوخ نہیں کیا گیا تھا۔ حکومتی فیصلے کے خلاف 2018ء میں ہی عدالت میں ایک درخواست دائر کی گئی تھی۔ بنگلہ عدالت نے 5 جون 2024ء کو اس درخواست کا فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص کوٹہ بحال کردیا۔ فیصلے کے اگلے ہی دن یعنی 6 جون کو ہی طلبہ نے ڈھاکا یونیورسٹی میں احتجاجی ریلی نکالی۔

  —تصویر: الجزیرہ
—تصویر: الجزیرہ

ہنگامے آخر کیوں پھوٹ پڑے؟

پُرامن احتجاج جاری تھا۔ ابتدا میں چند عام بنگالی طلبہ اپنے سماجی حقوق کے لیے سامنے آئے اور یوں دیگر طلبہ بھی ہم آواز ہوتے چلے گئے۔ سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں مظاہرے ہونے لگے۔ احتجاج میں ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبہ زیادہ متحرک نظر آئے اور زیادہ ہنگامے بھی اسی کے کیمپس میں ہوئے۔ 15 جولائی تک طلبہ کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ حکومت آئینی اصلاح کرتے ہوئے اس قانون کو مکمل طور پر منسوخ کرے۔ کوٹہ نظام حق تلفی اور میرٹ کے خلاف ہے۔ تمام لوگوں کو ان کی محنت کے مطابق سرکاری نوکریاں ملنی چاہئیں۔

اس وقت تک مظاہرین سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے لیکن حالات بے قابو نہیں ہوئے تھے لیکن شیخ حسینہ کے سیاسی بیان نے اس منظر نامے میں ہلچل مچادی اور طلبہ کو سیخ پا کردیا۔ شیخ حسینہ نے 16 جولائی کو مظاہرین کے کوٹہ نظام کے مکمل خاتمے کے نعروں کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں 1971ء میں پاکستانی فوج کی مدد کرنے والے گروہ یعنی ’رضا کار‘ سے تشبیہ دی۔

طلبہ اور ان کے والدین نے اسے توہین کے زمرے میں لیا اور پورے بنگلہ دیش کے نوجوان شدید مشتعل ہوگئے کیونکہ پاک فوج کی مدد کرنے والوں کو اس وقت مکتی باہنی ’رضا کار‘ کے نام سے پکارتے تھے یعنی احتجاج کرنے والے طلبہ پاکستانی فوج کے ساتھی ہیں۔

شیخ حسینہ کے طنز کے جواب میں طلبہ نے بھی خوب نعرے بلند کیے کہ ’تم کون ہو؟ میں کون ہوں؟ رضا کار رضا کار‘، ’ہم نے مانگا تھا اپنا اودیکار (حق) مگر ہمیں بنا دیا گیا ہے رضاکار‘۔

چند ہی گھنٹوں میں طلبہ کا مظاہرہ حکومت مخالف مظاہرے میں تبدیل ہوگیا اور اس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ لے لیا۔ یہاں تک کہ حکومت کو ملک میں کرفیو لگا کر ’سرکاری چھٹی‘ کا اعلان کرنا پڑا۔

ان پُرتشدد حالات کو دوسرا ہفتہ ہوا چاہتا ہے لیکن حالات قابو میں نہیں آرہے۔ یہاں تک کہ مظاہرین نے سرکاری ٹی وی کی عمارت پر بھی حملہ کیا کیونکہ ان کے نزدیک چلائی جانے والی خبریں حکومتی مؤقف کی تائید کرتی ہیں۔

بعدازاں شیخ حسینہ نے اپنے بیان پر کہا کہ ان کے بیان کا غلط مطلب اخذ کیا گیا۔ ساتھ ہی عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم ’چھاترا لیگ‘ نے سراپا احتجاج طلبہ و طالبات کو تشدد کا نشانہ بنایا اور اس دوران پولیس بھی ان کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ پُرتشدد ہجوم کے ہاتھوں 15 جولائی کو ایک طالب علم ہلاک ہوا اور اگلے ہی دن یہ تعداد بڑھ کر 10 اور پھر تازہ ترین اطلاعات تک مرنے والوں کی تعداد 175 سے تجاوز کرچکی ہے۔ سرکاری ٹی وی بند اور انٹرنیٹ بندش کے باعث اموات کی حتمی تعداد واضح نہیں۔

  چھاترا لیگ کے کارکنان نے پولیس کے ساتھ مظاہرین پر پتھراؤ کیا—تصویر: رائٹرز
چھاترا لیگ کے کارکنان نے پولیس کے ساتھ مظاہرین پر پتھراؤ کیا—تصویر: رائٹرز

سرکاری نوکریاں اہم کیوں ہیں؟

بنگلہ دیش اس وقت 6 فیصد کی رفتار سے دنیا کی تیز ترین معیشتوں میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ ایک کروڑ 80 لاکھ نوجوان یہاں بستے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت میں ملک نے بہت ترقی کی ہے لیکن یہ کپڑے کی صنعت کی وجہ سے ہے کہ جہاں خواتین بطور اسکل ورکرز کام کررہی ہیں۔

کپڑے کی صنعت میں زیادہ تر بلیو کالر نوکریوں کی گنجائش ہے جبکہ پروفیشنل تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے یہاں نوکریاں کم ہیں۔ پھر جب سرکاری نوکریوں پر بھی کوٹہ سسٹم نافذ ہو تو نوجوانوں کا ذہنی انتشار کا شکار ہونا حق بجانب ہے کیونکہ انہیں اپنا مستقبل روشن اور بہتر نظر نہیں آرہا۔

معاشی ترقی سے عام بنگالیوں کی زندگیوں میں استحکام آیا ہے لیکن جامعات سے گریجویٹ نوجوان میرٹ پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ الجزیرہ نے 2018ء کے سرکاری دستاویزات کے مطابق بتایا ہے کہ 44 فیصد نوکریاں میرٹ پر تھیں۔ 30 فیصد نوکریوں پر مراعات یافتہ طبقے کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔ 10 فیصد نوکریوں پر خواتین اور دیہی علاقوں کے شہریوں کا حق جبکہ 5 فیصد کوٹہ اقلیتی گروہ کے لیے مختص کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک فیصد کوٹہ معذوروں کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ تمام تر صورت حال میں نوجوان کی ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ 30 فیصد کوٹے سے صرف عوامی لیگ کے ووٹرز ہی مستفید ہوتے ہیں۔

  جامعات سے گریجویٹ طلبہ میرٹ پر سرکاری نوکریاں کرنا چاہتے ہیں—تصویر: ایکس
جامعات سے گریجویٹ طلبہ میرٹ پر سرکاری نوکریاں کرنا چاہتے ہیں—تصویر: ایکس

ماہرین کی آرا

جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی ماہر، سماجی علوم اور قانون کی ڈین ڈاکٹر شائستہ تبسم کہتی ہیں، ’یہ ہنگامے ایک دم نہیں پھوٹ پڑے، یہ لاوا کئی سالوں سے پک رہا تھا۔ بالخصوص حالیہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر ہونے والی دھاندلی پر صرف حزب اختلاف نے ہی نہیں بلکہ دنیا نے بھی آواز اٹھائی تھی۔ یہ غیر مقبول حکومت ہے۔ مخالفین ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں بھی سمجھتی ہیں کہ عوامی لیگ کی بنیادی سوچ ہے کہ اٹھنے والی ہر مخالف آواز کو دبا دیا جائے۔ عرصے سے پلنے والی اس سوچ کی وجہ سے لوگوں نے کوٹہ سسٹم کے مکمل خاتمے کی تائید کی۔

’اس وقت بنگلہ دیش میں میڈیا پر پابندی ہے لیکن ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس تحریک کا کوئی واضح رہنما نہیں ہے۔ مذاکرات کے لیے واضح نکات ہونا ضروری ہیں اور یہ عام طلبہ کا گروپ ہے جنہیں سیاست نہیں آتی‘۔

  طلبہ کی اس تحریک کا کوئی واضح رہنما نہیں ہے—تصویر: ایکس
طلبہ کی اس تحریک کا کوئی واضح رہنما نہیں ہے—تصویر: ایکس

ڈاکٹر شائستہ نے بتایا کہ ’شیخ حسینہ کی بنگلہ دیش کی فوج کی حمایت کررہی ہے جس کی وجہ سے وہ مسلسل 4 بار وزیراعظم منتخب ہوچکی ہیں۔ چند سال پہلے بنگال رائفل شیخ حسینہ کی بڑی مخالف بن کر ابھری تھی لیکن اسے بری طرح کچل دیا گیا تھا‘۔

سینیئر صحافی منزہ صدیقی نے کہا کہ ’شیخ حسینہ کی حکومت میں بنگلہ دیش نے ترقی کی ہے اور آج ہم ڈھاکا کی سڑکوں پر میٹروبس چلتی دیکھتے ہیں۔ لیکن بہ ظاہر بنگلہ دیش کی فوج تشدد کی حمایت کرتی نظر نہیں آتی۔ وہ 18 جولائی سے پہلے بھی باہر نکلی تھی لیکن اس نے طلبہ کے خلاف جانا مناسب نہیں سمجھا اور بیرکوں میں واپس چلی گئی لیکن بدھ 17 جولائی کو 32 افراد کی ہلاکت کے بعد انہیں واپس آنا پڑا جبکہ دوسری جانب حکومت کرفیو نافذ کرکے ہنگاموں کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی ہے‘۔

انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’چند سال پہلے بھی طلبہ اسی طرح اپنے سماجی حق کے تحفظ کے لیے سڑکوں پر نکلے تھے۔ یہ مظاہرے حادثات میں کئی بچوں کی اموات کے بعد سڑکوں کی مرمت اور نئی سڑکوں کی تعمیر نہ ہونے کے خلاف تھا۔ یوں بنگلہ دیش میں سماج کی بہتری کے لیے طلبہ کے آگے آنے کی روایت پرانی ہے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ اس وقت بنگال میں 52 فیصد نوجوان ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا‘۔

جامعہ کراچی میں بین الاقوامی تعلقات کے استاد، بنگلہ دیش پر کئی ریسرچ پیپر لکھنے اور 2002ء میں ڈھاکا یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے وزیٹنگ ٹیچر رہنے والے ڈاکٹر مونس احمر کہتے ہیں کہ ’بنگلہ دیش میں ڈھاکا یونیورسٹی اور طلبہ یونین کا کردار ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے اور بعد میں بھی بنگالی طلبہ اپنے حقوق کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔ پہلے سنا تھا کہ کیسے مشرقی پاکستان میں طلبہ یونین انسانی اور سماجی حقوق کے لیے کھڑی رہی ہے۔ میں نے جب وہاں چند سال گزارے تو میں نے کئی مواقع پر طلبہ کو اپنے حق کے لیے لڑتے اور انہیں کامیاب ہوتے دیکھا۔ ڈھاکا یونیورسٹی میں ہڑتال کا انداز بھی منفرد ہے کہ جہاں آدھا دن ہڑتال رہتی اور باقی دن معمولات زندگی چلتے رہے‘۔

  بنگلہ دیش میں طلبہ یونین کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے—تصویر: ایکس
بنگلہ دیش میں طلبہ یونین کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے—تصویر: ایکس

موجودہ حالات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’حالیہ احتجاج میں اموات نے موجودہ حکومت کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے اور بہ ظاہر صورت حال بگڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ 15 سال سے چلنے والی شیخ حسینہ واجد کی حکومت معاشی اصلاحات لانے سے میں کامیاب رہی ہے لیکن حالیہ عالمی کساد بازاری سے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بنگلہ دیش میں بھی مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے جس سے عوام متاثر ہوئے ہیں‘۔

ڈاکٹر مونس احمر موجودہ حالات کو شیخ حسینہ واجد کی سیاسی غلطی قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا بنگالی عوام ہمیشہ سے ہی اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے آئے ہیں۔ اردو زبان کا مسئلہ ہو یا 1960ء یا 1970ء کی دہائی کے مسائل۔ لیکن تازہ ترین واقعات اس لیے شدت اختیار کرگئے کہ جہاں ڈھاکا یونیورسٹی اور میڈیکل کالج سے شروع ہونے والا طلبہ کا احتجاج پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ موجودہ حکومت پر پہلے ہی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات ہیں۔ یہاں تک کہ امریکا نے بھی ان کے حالیہ انتخابات کو تسلیم نہیں کیا تھا۔

ڈاکٹر مونس احمر پُرامید ہے کہ پہلے بھی طلبہ اپنے مطالبات منواتے رہیں۔ انہوں نے شیخ حسینہ واجد کو ایک ہی مشورہ دیا کہ وہ طلبہ کی بات سنیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے شیخ حسینہ اس دلدل سے نکل پائیں گی بصورت دیگر حکومت کو آگے چل کر مشکلات پیش آئیں گی۔

  حالیہ انتخابات پر امریکا نے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا—تصویر: اے ایف پی
حالیہ انتخابات پر امریکا نے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا—تصویر: اے ایف پی

کلکتہ سے تعلق رکھنے والے فری لانس صحافی جینتا باسو کہتے ہیں کہ ’بھارتی شہری کی حیثیت سے اس موضوع پر بات کرنا مشکل ہے کیونکہ کئی طرح کے قیاس کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے ملک کا شمار دنیا کی تیز ترین معیشتوں میں ہوتا ہے، ان ہنگاموں سے معاشی ترقی متاثر ہوگی۔ یہ سیاسی بے یقینی بنگلہ دیش کے عوام کے لیے بھی ٹھیک نہیں۔ شیخ حسینہ کو طلبہ کے مطالبات کو سننا چاہیے کیونکہ پُرامن حالات بنگلہ حکومت کے استحکام کے لیے ضروری ہے‘۔

جبکہ کلکتہ سے ٹائمز آف انڈیا کے شائع کیے جانے والے بنگالی اخبار کے بیورو ہیڈ امل سرکار کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں اس وقت ہنگامے ہیں لیکن حکومت اس مسئلے سے نکل آئے گی کیونکہ انہیں طاقت ور طبقہ کی مدد حاصل ہے۔

اختلافی آواز کو دبانے کی کوششیں

15 سال سے عوامی لیگ کی وزیراعظم 77 سالہ شیخ حسینہ کی حکومت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے مخالفین کے لیے ایک خوف کی فضا پیدا کی ہے اور اپنے خلاف اٹھنے والی تمام آوازوں کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ لوگوں کے اغوا اور ہلاکتوں کی خبریں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں۔ جبکہ ان کی حکومت پر کرپشن کے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔ وزیراعظم کے سابق اردلی کے اکاؤنٹ میں 400 کروڑ کی موجودگی بھی خوب خبروں میں رہی۔

حالیہ صورت حال یہ ہے کہ مقامی افراد ان ہنگاموں پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں، یہاں تک کہ بیرونِ ملک مقیم بنگلہ دیش کے شہری بھی کھل کر اظہارِ رائے نہیں کررہے کیونکہ وہ موجودہ حکومت سے خوف زدہ ہیں کہ کہیں وہ بھی حکومت کی نظروں میں نہ آجائیں اور ان پر زمین تنگ ہوجائے۔

ان فسادات میں انسانی جانوں کے نقصان پر حزب اختلاف بنگلہ نیشنل پارٹی (بی این پی) نے کھل حکومت پر تنقید کی۔ آخری مصدقہ اطلاعات کے مطابق 500 سے زائد افراد گرفتار ہوچکے ہیں۔ جن میں عام طلبہ، ان کے والدین کے ساتھ ساتھ بی این پی اور جماعت اسلامی کے رہنما بھی شامل ہیں۔

مقامی لوگ کیا کہتے ہیں؟

ناہید اسلام طلبہ تحریک کی رکن ہیں۔ انہوں نے فیس بک پر ایک پوسٹ شیئر کی کہ جس میں انہوں نے حکومت کو 48 گھنٹے دیے ہیں کہ وہ مذاکرات کی میز پر تب ہی آئیں گے جب طلبہ کی لاشوں کو انصاف مل جائے گا۔ مطالبہ رکھا کہ پولیس طلبہ کا ساتھ دے۔ تعلیمی ادارے کھولے جائیں اور انٹرنیٹ اور رابطہ سڑکیں بحال کی جائیں۔ حکومت نے عدالت اور پولیس کو طلبہ کے خلاف استعمال کیا ہے۔

ایک اور طلب علم عبداللہ قادر نے بھی کہا کہ مذاکرات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وزیراعظم شہید طلبہ کے اہل خانہ سے معذرت نہیں کرتیں۔

بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ سے تعلق رکھنے والے صحافی ایوب مہزی کا تعلق بنگلہ زبان کے اخبار جنوبانی سے ہے۔ ان سے ہمارا آخری رابطہ 18 جولائی کو ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ حکومت نے طلبہ کے ساتھ تعصبانہ رویہ اپنایا اور ان کی بات نہیں سنی گئی جس کی وجہ سے پورے ملک میں فسادات پھیلے اور بڑی تعداد میں اموات ہوئیں۔

  مظاہرین کہتے ہیں حکومت نے عدلیہ اور پولیس کو طلبہ کے خلاف استعمال کیا—تصویر: رائٹرز
مظاہرین کہتے ہیں حکومت نے عدلیہ اور پولیس کو طلبہ کے خلاف استعمال کیا—تصویر: رائٹرز

طلبہ کا مطالبہ تھا کہ کوٹہ مکمل طور پر ختم کیا جائے لیکن حکومت نے معاملہ خود حل کرنے کے بجائے عدلیہ کے ذمہ ڈال دیا۔ حکومت کو عدلیہ اور فوج کی حمایت حاصل رہی ہے۔ طلبہ موجودہ حکومت پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ وہ کوٹہ سسٹم سے مکمل چھٹکارا چاہتے ہیں جبکہ حکومت غیر سیاسی طلبہ مظاہروں کو پُرتشدد ہنگاموں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے، وہ طلبہ کو اپنے بنیادی مطالبے سے بھٹکانا چاہتی ہے’۔

پاکستانی طالب علم محمد طاہر کہتے ہیں کہ ’طلبہ تنظیم یہاں کبھی ناکام نہیں ہوئیں۔ اردو زبان کا مسئلہ ہو یا بنگلہ دیش کی آزادی، ہم دیکھتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبہ متحرک رہے ہیں۔ یہاں تک کہ مارشل لا اور 1980ء کی دہائی میں بھی طلبہ سماجی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ کئی سالوں بعد اتنے بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جارہے ہیں جس میں عام طلبہ ہی نہیں بلکہ ان کے والدین بھی شریک ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 15 جولائی کو مظاہرین اور عوامی لیگ کی چھاترا تنظیم کے درمیان کیمپس میں ہنگامے شروع ہوئے اور 18 جولائی تک پورا شہر بند ہوچکا تھا۔ اب تک کتنی اموات ہوچکی ہیں، حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

طلبہ تحریک کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ڈاکٹر شائستہ تبسم کے خیال میں شیخ حسینہ اس ہنگامی کیفیت سے بھی نکل آئیں گی کیونکہ وہ ہر مخالف آواز کو دبانے کے لیے تیار ہیں۔ ’میڈیا پر جو کچھ دکھایا جارہا ہے وہ بہت کم ہے۔ اموات اور زخمیوں کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے۔ بھارت اور فوج عوامی لیگ کے ساتھ ہیں لیکن اگر انسانی حقوق پر آواز بلند کرنے والے ممالک سامنے نہیں آئے تو حکومتی سطح پر پھیلائی جانے والی دہشت کو مزید ہوا ملے گی۔ عوامی لیگ پر دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ میڈیا پر پابندی اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر ہونے والی پامالی نظرانداز نہیں کی جاسکتی۔

’حکومت کو اگر وقتی کامیابی مل بھی جائے گی تو مخالفت اب اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عوام پھر سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ ڈھاکا یونیورسٹی سے شروع ہونے والے احتجاج نے اب پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مخالفت تیزی سے پھیل رہی ہے لیکن اس مخالفت کو آگے لے کر جانے کے لیے کوئی رہنما نہیں۔ ہلاکتیں بڑھنے سے احتجاج بڑھے گا کیونکہ عام آدمی مشتعل ہوکر باہر آئیں گے۔ سیاسی سوچ یہی نظر آرہی ہے اگر انہوں نے کھل کر عوام کا ساتھ دیا تو پھر انہیں شیخ حسینہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔

  طلبہ چاہتے ہیں کہ حسینہ واجد ہلاک افراد کے لواحقین سے معافی مانگیں—تصویر: فیس بُک
طلبہ چاہتے ہیں کہ حسینہ واجد ہلاک افراد کے لواحقین سے معافی مانگیں—تصویر: فیس بُک

طلبہ کی طرف سے 9 نکات سامنے آئے ہیں۔

  • وزیراعظم ان فسادات کی ذمہ داری قبول کریں اور عوامی سطح پر ہلاک طلبہ سے معافی مانگیں۔
  • وزیرداخلہ اور وزیر ٹرانسپورٹ وزارت اور عوامی لیگ سے مستعفی ہوں۔
  • اموات والے مقامات پر تعینات پولیس اہلکار بھی مستعفی ہوں۔
  • ڈھاکا، جہانگیر نگر اور راج شاہی یونیورسٹیز کے وائس چانسلر مستعفی ہوں۔
  • طلبہ پر حملہ کرنے والے تمام غنڈوں کو گرفتار کیا جائے۔
  • زخمی اور مرنے والوں کو معاوضہ ادا کیا جائے۔
  • عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم بنگلہ چھاترا لیگ پر پابندی لگائی جائے۔
  • تعلیمی ادارے، طلبہ ہوسٹل اور ہال دوبارہ کھولے جائیں۔
  • طلبہ کو ضمانت دی جائے کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں نہیں کی جائیں گی۔
  • تعلیم کی سرگرمیاں معمول کے مطابق بحال کی جائیں۔

بنگلہ دیش میں موجود پاکستانیوں کی صورتحال

بنگلہ دیش میں موجود پاکستانی سفارت خانے سے ہمارا رابطہ 18 جولائی کو ہوا تھا۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ وہ ہمارے سوالات کا جواب دیں گے لیکن انٹرنیٹ بند کردیا گیا اور مواصلاتی رابطے منقطع ہوگئے لیکن 24 جولائی کی رات کو پاکستان ہائی کمیشن سے دوبارہ رابطہ بحال ہوا اور ڈھاکا میں مقیم ڈپٹی ہائی کمیشن قمر عباس کھوکھر کا جواب ڈان نیوز ڈیجیٹل کو موصول ہوا۔

  دفترِ خارجہ پاکستانی طلبہ سے رابطے میں ہے—تصویر: فیس بُک
دفترِ خارجہ پاکستانی طلبہ سے رابطے میں ہے—تصویر: فیس بُک

انہوں نے بتایا کہ یہاں پچھلے 5 دنوں سے انٹرنیٹ بند تھا۔ پچھلے چند دن کافی پریشان کن تھے، ان ہنگاموں میں درجنوں افراد اپنی جانوں سے جا چکے ہیں جبکہ اس سے کئی گناہ زیادہ افراد زخمی ہیں۔ امید ہے کہ اب حالات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ تمام پاکستانی محفوظ ہیں۔ ڈھاکا میں مقیم پاکستانی طلبہ کو پاکستان ہائی کمیشن لایا گیا تھا جبکہ دیگر شہروں میں مقیم طلبہ کو اپنے ہوسٹلز میں رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ رابطے بحال ہونا شروع ہوچکے ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ڈان نیوز کو بتایا کہ ہم پاکستانی طلبہ اور بنگلہ دیش میں موجود پاکستانیوں سے رابطے میں ہیں۔ انہیں ہوسٹل میں رہنے، ہنگاموں سے دور رہنے کا مشورہ اور سفارت خانے سے رابطے میں رہنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ کسی ہنگامی صورت حال میں انہیں فوری مدد فراہم کی جاسکے۔ ہم نے خود بھی وہاں کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

دنیا کی تیز ترین ترقی کرنے والی معیشتوں میں شمار کیے جانے والے ملک کو اسی کی اپنی حکومت نے ہی پٹری سے اتارا تو اب کیا وہ ایک بار پھر اسے پٹری پر واپس لانے میں کامیاب ہوسکے گی؟ 5 بار بنگلہ دیش کی وزیراعظم بننے والی شیخ حسینہ کا یہ مسلسل چوتھا دورِ حکومت ہے۔ وہ ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں، اب وقت کا تقاضا ہے کہ وہ سیاسی شعور کا مظاہرہ کریں۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔