کیا شیخ حسینہ واجد کے 15 سالہ دورِ حکمرانی کا زوال قریب ہے؟
ڈھاکا کی سڑکوں پر بکتر بند گاڑیوں، ٹینکوں سے لیس سیکیورٹی اہلکاروں کو دیکھ کر ستم ظریفی کا احساس ہوا کہ جو ایسی حکومت کا تحفظ کررہے ہیں جس کا ظہور انہیں افواج کی مرہونِ منت ہوا جنہوں نے 1971ء میں بنگلہ دیش کے قیام کو روکنے والی پاکستانی افواج کے خلاف مزاحمت کی تھی۔
پہلے مشرقی پاکستان کہلائے جانے والے ملک میں افراتفری کی کیفیت اس وقت پیدا ہوئی کہ جب وہاں ایسے قوانین کا دوبارہ نفاذ ہوا کہ جن کے تحت بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی میں لڑنے والوں کے خاندان کو سرکاری نوکریوں میں تقریباً 30 فیصد کوٹہ دیا گیا۔ 1972ء میں جب اس وقت کے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمٰن نے پہلی بار کوٹہ مختص کیا تو یہ بالکل بھی متنازع نہیں تھا۔ اس وقت شاید ہی ایسا کوئی حلقہ ہوتا جو اسلام آباد کے تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے والوں یا ان کے خاندانوں کو خصوصی اہمیت دیے جانے پر اعتراض کرتا۔
نصف صدی گزر جانے کے بعد ایسے قوانین کا دفاع انتہائی مشکل ہے بالخصوص ایسے دور میں کہ جب ملک میں گریجویٹ نوجوانوں کے درمیان بےروزگاری، قومی اوسط کی حد سے تجاوز کرچکی ہے۔ 2018ء میں اس کوٹے کو منسوخ کردیا گیا اور اس پر عمل درآمد بھی ہوا لیکن گزشتہ ماہ ہائی کورٹ کی جانب سے اسے بحال کردیا گیا۔
درجنوں اموات اور سیکڑوں افراد کی گرفتاریوں کے بعد عوام کے غصے اور حالات کو مزید کشیدہ ہونے سے روکنے کے لیے محض سپریم کورٹ کا کوٹہ کم کرنے کا حکم نامہ کافی نہیں ہوگا۔ تاہم کرفیو اور اس کی خلاف ورزی پر گولی ماردینے کے احکامات کے باعث عارضی طور پر کچھ حد تک حالات قابو میں آچکے ہیں۔
خالدہ ضیا کے بعد بنگلہ دیش کی دوسری خاتون وزیراعظم شیخ حسینہ واجد 2009ء کے بعد سے مسلسل 4 ادوار کے لیے وزیراعظم منتخب ہوچکی ہیں اور اپنی حکومت میں بنگلہ دیش کو یک جماعتی ملک بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ وہ اسی راہ پر چل رہی ہیں جو ان کے والد شیخ مجیب الرحمٰن نے 1975ء میں بنگلہ دیش کے فوجی افسران کے ہاتھوں قتل کیے جانے سے چند ماہ پہلے منتخب کیا تھا۔
پاکستان میں جنرل ضیاالحق کے آنے سے دو سال قبل بنگلہ دیش میں بھی ایک جنرل ضیا تھے (جنرل ضیاالرحمٰن) لیکن 1981ء میں وہ ملٹری کے ہاتھوں مارے گئے۔ اس کے بعد ایسے جنرل (حسین محمد ارشاد) کی راہ ہموار ہوئی جن کے مذہبی خیالات کافی حد تک پاکستان کے ضیاالحق سے مماثل تھے۔ بعدازاں حسینہ واجد اور خالدہ ضیا متحد ہوئیں اور جنرل ارشاد کو صدارت سے ہٹانے میں کامیاب ہوگئیں اور یوں خالدہ ضیا اور حسینہ واجد یکے بعد دیگرے بنگلہ دیش کی وزیراعظم بنیں۔
اس دور کے جمہوری نتائج پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک سے زیادہ مثبت تھے لیکن آمریت کا ایک اور دور آیا اور دونوں ’بیگمات‘ کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ تاہم 2009ء تک حسینہ واجد سیاسی منظرنامے میں وزیراعظم کے روپ میں اُبھرنے میں کامیاب رہیں۔
2009ء کے بعد سے ہر طرح کے حالات میں شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش پر حکمرانی کرتی رہیں جبکہ اپنے دور میں انہوں نے اپوزیشن کی مذمت اور انہیں جیل میں ڈالنے سے دریغ نہیں کیا۔ ان کی حکومت میں مخالفین کی جیل میں ہلاکتیں اور گمشدگیاں ہوئیں مگر اپنے والد کی طرح ان کا بھی مقصد بنگلہ دیش کو یک جماعتی ریاست بنانا بن گیا۔ تمام تر غلط اقدامات کے باوجود یک جماعتی ریاست کبھی بھی شیخ مجیب الرحمٰن کے پاکستانی ہم منصب ذوالفقار علی بھٹو کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔
وزیرِ خارجہ ڈاکٹر کمال حسین کی بدولت بنگلہ دیش 1972ء کا آئین بنانے میں کامیاب رہا جبکہ پاکستان اپنا آئین بنانے میں ایک سال پیچھے رہ گیا۔ پاکستان کے آئین کے برعکس بنگلہ دیش کا آئین سیکیولر اور ممکنہ طور پر سوشلسٹ بھی تھا۔ ڈاکٹر کمال حسین جو پہلے وزیرقانون اور پھر شیخ مجیب کے دور میں وزیرِ خارجہ مامور رہے، اس وقت اچنبھے کی کیفیت میں مبتلا ہوئے کہ جب مجیب (1971ء میں جن کے ساتھ کمال حسین ہری پور جیل میں قید تھے) نے فروری 1975ء میں بنگلہ دیش کو یک جماعتی ریاست قرار دیا۔
بعدازاں اسی سال اگست میں شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے خاندان کے چند ممبران فوجی بغاوت میں قتل کردیے گئے لیکن اس بغاوت کے نتیجے میں مختصر مدت کے لیے ضیا الرحمٰن صدر بنے اور پھر حسین محمد ارشاد کا دور آیا جس کے کئی پہلوؤں میں جنرل ضیاالحق کی بنیاد پرست پالیسیز کی شبیہ نظر آئی۔
بار بار فوجی آمروں کی مداخلت کے تناظر میں بنگلہ دیش میں جمہوریت کی واپسی آسان نہیں رہی۔ فوجی ادوار کہ جن میں سیاسی سطح پر اختلافات عروج پر رہے، وہ زیادہ تر نظریاتی اختلاف بھی نہیں تھے بلکہ ذاتی انا کا شاخسانہ تھے۔
2009ء کے بعد سے بنگلہ دیش کی اقتصادی ترقی کافی متاثر رہی کہ جس میں گارمنٹس سیکٹر کی برآمدات نمایاں ہے حالانکہ یہ سیکٹر پُرخطر حالات اور انتہائی ناقص ماحول میں فعال ہے۔ اس سیکٹر کی زیادہ تر افرادی قوت پسماندہ طبقے کی خواتین ہیں کہ جن کے کام کرنے کے محفوظ ماحول اور زیادہ اجرت کے مطالبات کو حکومت دبا دیتی ہے۔
اقتصادیات کے شعبے میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کو تو خوب سراہا گیا لیکن انہیں ملٹری اور عدلیہ پر ریاستی اثرورسوخ پر تنقید کا سامنا بھی رہا۔ پاکستان کی کوئی بھی سویلین حکومت اس طرح کی کامیابی کا دعویٰ نہیں کرسکتی باوجود اس کے کہ وہ مخالفین کو سزا دینے کے معاملے میں کافی حد تک ایک جیسے ہیں۔
حسینہ واجد کی حکومت کے لیے اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا وہ مختص کوٹوں سے دستبردار ہوگی کہ جس سے واضح طور پر حکمران جماعت کو فائدہ پہنچ رہا ہے؟ جبکہ یہ عوام کو اشتعال دلانے کے لیے کافی ہے۔ نوجوانوں صرف کوٹہ کی بحالی پر مشتعل نہیں بلکہ وہ غیرمساوی معاشی حالات، کرپشن پر بھی ناراض ہیں جس کے ذمہ داران یک جماعتی حکمرانی میں زیادہ واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔
بنگلہ دیش کی ترقی کے باوجود ان پہلوؤں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ جس میں وہ ناکام ہے۔ ترقی اور کامیابی کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ تسلط کم سے کم ہو جبکہ جمہوریت بھی آزاد ہو جس کی پاکستان کو بھی ضرورت ہے۔ تاہم شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ کی قیادت میں بنگلہ دیش کے لیے ایسے کسی خواب کو سچ کر دکھانا ناممکن لگ رہا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔