• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:00pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:33pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 4:39pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 5:00pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 4:33pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 4:39pm

’آگاہی اور بروقت تشخیص سے دماغی عوارض کا علاج ممکن ہے‘

دماغی عوارض کی جلد تشخیص اور مؤثر انتظامات کے ذریعے ان کے تناسب میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔

یہ تحریر عالمی یومِ دماغ کی مناسبت سے شائع کی جارہی ہے۔


دنیا بھر میں دماغی امراض کی نمائندہ تنظیم عالمی فیڈریشن برائے نیورولوجی (ڈبیلو ایف این) اور چھ دیگر عالمی دماغی انجمنان نے مشترکہ طور پر سال 2024ء میں منائے جانے والے عالمی یومِ دماغ کا مرکزی خیال ’دماغی امراض سے بچاؤ؛ آگاہی، مؤثر و بروقت تشخیص سے ہی ممکن ہے اور یہی ہمارے مستقبل کی حفاظت ہے‘ قرار دیا ہے۔

ہر سال 22 جولائی کو عالمی یومِ دماغ منایا جاتا ہے۔ آج 11واں عالمی یومِ دماغ منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز سال 2014ء میں ہوا تھا۔

اس سال کے مرکزی خیال کا مقصد عالمی سطح پر مشترکہ طور پر اس پیغام کو عام کرنا ہے کہ دماغی صحت کے لیے قبل از مرض اقدامات کیے جائیں تاکہ حتیٰ الامکان ان دماغی امراض میں کمی لائی جاسکے۔

عالمی فیڈریشن برائے نیورولوجی (ڈبلیو ایف این) کے چھ ذیلی انجمنان کے تعاون سے، دماغی صحت اور اس کے لیے احتیاطی تدابیر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے بین الاقوامی آگاہی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی فعال شرکت اس سال کی مہم کو مزید متحرک کرتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے مرگی اور دیگر اعصابی عوارض پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک مربوط پلان تشکیل دیا ہے جسے انٹرسیکٹرل گلوبل ایکشن پلان (IGAP) کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے تحت ڈبلیو ایچ او عالمی سطح پر ذہنی عوارض کے حوالے سے ہر سطح پر آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

تمام قابلِ ذکر اعصابی عوارض دراصل انسانی زندگی پر عملی طور پر اثرانداز ہوتے ہیں جس کے باعث معمولاتِ زندگی متاثر ہوتے ہیں جیسے معاشی، اقتصادی و سماجی مسائل رونما ہو جایا کرتے ہیں جو فالج، درد شقیقہ، الزائمر (یادداشت کی بیماری)، گردن توڑ بخار اور مرگی جیسے عوارض کے ذریعے عالمی سطح پر انسانی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔

حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ان عوامل کو آگاہی، رسائی و تعلیم کی مربوط کاوشوں کے ذریعے کافی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ ان میں خاص طور پر 90 فیصد فالج، 40 فیصد ڈیمینشیا اور 30 فیصد مرگی جیسے امراض روکے جا سکتے ہیں جبکہ درد شقیقہ (آدھے سر کا درد)، سر درد کی دیگر اقسام اور دماغی متعدی (انفیکشن) امراض کے لیے مؤثر حفاظتی اقدامات کرنے سے ان کے تناسب میں مناسب کمی لائی جاسکتی ہے۔

  دماغی عوارض پر بروقت توجہ دے کر فالج کی شرح کو 90 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے
دماغی عوارض پر بروقت توجہ دے کر فالج کی شرح کو 90 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے

آج کے دن کا تقاضا ہے کہ ہم سب دماغی صحت اور بیماریوں کی روک تھام کے لیے متحد ہوں۔ اپنے مستقبل کو محفوظ اور آنے والی نسلوں کے رہنے کے لیے ایک صحت مند دنیا بنانے کے لیے افراد، برادریوں اور قوموں کو با اختیار بنائیں۔ ڈبلیو ایچ او کی طرف سے بچاؤ یعنی تدابیر سے مراد صحت مند سرگرمیوں و طرز زندگی کا فروغ تاکہ انسانی عوارض کے تناسب میں کمی لائی جاسکے شامل ہیں۔

اس سلسلے میں بیماریوں کی روک تھام کے لیے معاشرے سے لے کر انفرادی سطح تک بیماریوں کے متعلق اور ان سے بچنے کے لیے مربوط و مسلسل شعور کی کاوشیں شامل ہیں۔ بیماریوں کے اثرات اور اس سے منسلک خطرے کے عوامل کو کم کرنے کے لیے بنیادی اور ثانوی احتیاطی تدابیر کے تناظر میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

بنیادی بچاؤ

بنیادی تدابیر سے مراد یہ ہے کہ بیماریوں کے شروع ہونے سے قبل ہی انہیں روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر توجہ مرکوز کی جائے۔ بنیادی بچاؤ کی کوششوں سے معاشرے میں بیماریوں کے بجائے صحت مند عوامل کی آگاہی پر زور دینا ہوگا۔ اس کے لیے سماجی و اقتصادی عوامل کو ملحوظ رکھتے ہوئے صحت مند سرگرمیوں کو فروغ دینے کے اقدامات کو ہر سطح پر سر انجام دینے کی ضرورت ہوگی۔ اس میں سب سے اہم اقدام تو معاشرے کی اصلاح و صحت مند رہنے کے لیے رویوں کی عملی تبدیلی ہے۔

بچاؤ کے اقدامات کے ساتھ، بیماریوں کے نتیجے میں ہونے والے طبی خطرات کے بارے میں معلومات فراہم کرنا، کمیونٹی کی سطح پر بہتری کے اقدامات کو نافذ کرنا، غذائیت اور خوراک کی اضافی پیشکش کرنا، منہ اور دانتوں کی صفائی کو فروغ دینا، نیز بچوں، بڑوں اور بزرگوں کے لیے حفاظتی ٹیکوں جیسی طبی حفاظتی خدمات فراہم کرنا شامل ہیں۔

  اچھی غذائیت سے بھی ذہنی امراض سے بچا جاسکتا ہے
اچھی غذائیت سے بھی ذہنی امراض سے بچا جاسکتا ہے

ثانوی بچاؤ

ثانوی بچاؤ زور دیتا ہے کہ صحت کے مثبت نتائج کو بڑھانے کے لیے مرض کی جلد تشخیص ہو۔ اس میں بیماری کی تشخیص اور پیدائشی خرابی کی روک تھام کے لیے شواہد پر مبنی اسکریننگ پروگرام شامل ہیں جس کے ساتھ ساتھ بیماری کے ابتدائی مراحل میں ثابت شدہ مؤثر ادویات کے ذریعے علاج بھی شامل ہیں۔

عالمی یومِ دماغ، دماغی صحت کو ترجیح دینے اور اس کے تحفظ کے لیے عالمی کوششوں کے لیے ایک اہم نقطہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ شعور، تعاون کو فروغ اور احتیاطی تدابیر کی وکالت کرکے، ہم اجتماعی طور پر سب کے لیے ایک صحت مند مستقبل کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔

بچاؤ کے ضمن میں پانچ اہم نکات

  جلد تشخیص و علاج سے ذہنی امراض میں کمی لائی جاسکتے ہیں
جلد تشخیص و علاج سے ذہنی امراض میں کمی لائی جاسکتے ہیں

دماغی صحت سے بچاؤ: دماغی عوارض کی جلد تشخیص اور مؤثر انتظامات کے ذریعے ان کے تناسب میں نمایاں کمی لائی جا سکتی ہے۔ امراض کے حوالے سے ابتدائی تشخیص کے اقدامات معاشرے سے ان بیماریوں کا بوجھ کم کرنے کا باعث اور ان بیماریوں کی خرابیوں کے بوجھ کو نمایاں طور پر کمی لانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

آگاہی: دماغی صحت کے بارے میں معاشرے کے تمام طبقات کے لیے بڑے پیمانے پر آسان زبان کے ذریعے آگاہی نہ صرف قومی بلکہ ایک عالمی ضرورت ہے۔

رسائی: سماجی و اقتصادی حیثیت یا جغرافیائی محل وقوع دماغی عوارض کی روک تھام میں رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں۔

تعاون: ماہرینِ صحت، محققین، اور پالیسی ساز عالمی دماغی و اعصابی بحران سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

تعلیم اور وکالت: دماغی صحت کو ایک بنیادی انسانی حق کے طور پر تسلیم کرنا ہمارے مشن کا مرکز ہے۔

دماغی صحت کا حصول مگر کیسے؟

  صحت مند دماغ کے لیے احتیاطی تدابیر انتہائی ضروری ہیں
صحت مند دماغ کے لیے احتیاطی تدابیر انتہائی ضروری ہیں

وہ کون سے اہم، آسان اور بنیادی نکات ہیں کہ جنہیں اختیار کرنے سے نہ صرف ہم اپنے معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں بلکہ دماغی و دیگر جسمانی عوارض کے تناسب میں بھی نمایاں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ درج ذیل عوامل نہایت آسان ہیں جنہیں عوام الناس ہر سطح پر اختیار کرکے بیماریوں کے تناسب میں کمی لاسکتے ہیں۔

احتیاطی تدابیر ہی اچھی دماغی صحت کی کنجی ہے۔ یادداشت کی خرابی کو روکنے اور دماغ کی بہتر صحت کو ترجیح دینے کے لیے ضروری اقدامات لازمی ہیں۔

باقاعدگی سے ورزش: جسمانی ورزش دماغ کی طرف خون کے بہتر بہاؤ کا باعث ہے جس کے نتیجے میں دماغی خلیے نشوونما پاتے ہیں اور دماغ کی صلاحیت میں بہتری آتی ہے۔

سماجی طور جڑے رہیں: سماجی طور پر انسان جتنا ایکٹو ہوگا، دماغ اتنا ہی بہتر کام کرے گا۔ دوست، احباب، اور رشتہ داروں سے جڑے رہنا اور سماجی تعلق قائم رکھنا، یہ جذباتی بہبود اور محت مند دماغ کے لیے ضروری ہیں۔

نشہ آور اشیا سے پرہیز: تمباکو نوشی، ماوا، گٹکا وغیرہ کا استعمال، دماغ کے خلیوں کے لیے نقصان دہ ہیں نیز شراب نوشی بھی انسانی دماغ کے مسائل کا سبب بنتی ہے، لہٰذا ان اشیا کا استعمال دماغی صحت کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔

تناؤ میں کمی: جسم اور دماغ کے آرام کے لیے مختلف جہتوں پر عمل کرنے سے دماغ کو ایک تازگی ملتی ہے۔ ان میں روزمرہ کی بنیاد پر کچھ وقت کے لیے گہرے سانس لینا، مراقبہ یا یوگا کرنا شامل ہے۔ اس سے تناؤ میں کمی آئے گی کیونکہ تناؤ دماغی صحت کے لیے منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور بہت سے عوارض کا باعث بنتا ہے۔

سر کی حفاظت: کسی بھی قسم کی سواری یا کھیل کے دوران اپنے سر کی مؤثر حفاظت ضروری ہے۔ لہٰذا موٹرسائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ اور گاڑی چلاتے ہوئے سیٹ بیلٹ لازمی باندھیں تاکہ خدانا خواستہ حادثے کی صورت میں دماغی یا سر کی چوٹ سے بچاؤ ممکن ہوسکے۔

پانی سے دماغی تندرستی: دن بھر میں (تجویز کے طور پر صبح سے شام 7 بجے تک) پانی یا پانی والی اشیا کا مناسب مقدار میں استعمال ضروری ہے نیز ایسی دماغی سرگرمیوں کا حصہ بنیں جو خوشی و تازگی کا باعث بنے۔

نیند کو ترجیح دیں: رات کو کم و بیش 7 سے 9 گھنٹے کی پُرسکون نیند لینا صحت مند دماغ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ روزانہ رات کی معیاری نیند نہ صرف دماغ کے فاسد مواد کو ختم کرنے کا سبب ہے بلکہ یہ انسانی یادداشت کو بہتری بنانے میں معاون بھی ثابت ہوتی ہے۔

متوازن غذا: دماغی عوارض سے بچنے کے لیے متوازن، معیاری و سادہ غذائی عادات انتہائی ضروری ہیں۔ بے وقت کھانا پینا، مرغن و غیر متوازن اشیا کا استعمال انسانی جسم بشمول دماغی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ لہٰذا سادہ و متوازی اشیا جن میں موسمی سبزیاں و پھل شامل ہیں، وہ استعمال کریں۔ اس کے علاوہ اناج، گوشت، مرغی، مچھلی و ضروری چکناہٹ کا استعمال ایک محدود حد تک کیا جانا چاہیے۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک

لکھاری پاکستان میں ہیڈیک ڈس آرڈرز (امور سردرد) میں ماسٹرز ڈگری رکھنے والے پہلے کنسلٹنٹ نیورولوجسٹ ہیں۔ آپ لیاقت کالج آف میڈیسن اینڈ ڈینٹسٹری، کراچی کے شعبہ نیورولوجی میں پروفیسر اور ایک طبی تحقیقی مجلے سہ ماہی پی جے این ایس کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بھی ہیں۔ معروف ملکی و غیر ملکی مجلات میں آپ کے تحقیقی مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ سے اس ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔