• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ: ’بن مانگے سب مل گیا!‘

اس فیصلے کو لے کر کچھ حلقے تنقید کررہے ہیں کہ اکثریتی ججز نے وہی کام کیا جو کام افتخار چوہدری نے پیپلز پارٹی کی دشمنی میں این آر او کے مقدمہ کا فیصلہ دے کر کیا تھا۔
شائع July 13, 2024

جمعہ 12 جولائی 2024ء کو، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو خود پر چھائی سیاہ رات میں اس وقت روشنی کی کرن نظر آئی کہ جب ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 13 ججز پر مشتمل فل کورٹ بینچ نے پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں پر سنی اتحاد کونسل کی اپیل پر پی ٹی آئی کے حق میں بڑا فیصلہ دے دیا۔

یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس کے خلاف پی ٹی آئی مسلسل پروپیگنڈا کرتی نظر آئی ہے اور چیف جسٹس پر جماعت کے کئی وکلا مختلف مواقع پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں لیکن جب پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ آیا تو قیادت اور کارکنان عدالت پر صدقے واری جا رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے 13 رکنی بینچ نے کل سنی اتحاد کونسل کی پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص 77 نشستیں پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دیں جو اب قانونی جنگ جیتنے پر جشن منا رہی ہے۔

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کا یہ مقدمہ الیکشن کمیشن، پھر پشاور ہائی کورٹ سے گزرتے ہوئے آخر میں سپریم کورٹ کی دہلیز پر پہنچا اور سپریم کورٹ میں 6 مئی 2024ء کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل بینچ نے پہلی ہی سماعت پر الیکشن کمیشن اور پھر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کردیا جس فیصلے کے تحت سنی اتحاد کونسل کی درخواست مسترد کرکے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور جمعیت علمائے اسلام کو اضافی 77 نشستیں دی گئی تھیں۔

Title of the document

سپریم کورٹ کا عبوری فیصلہ آتے ہی الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں پر کامیاب 77 اراکین اسمبلی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا لیکن اس سے پہلے ان تمام ارکان اسمبلی نے سینیٹ اور صدارتی انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرلیا تھا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے آصف علی زرداری صدر مملکت بنے اور ساتھ ہی پی پی پی نے سینیٹ میں بھی اکثریت حاصل کرلی۔

مخصوص نشستوں کا پس منظر

سیاسی منظرنامے اور اس انتخابی تنازعہ کی مزید تفصیلات آگے بیان کریں گے لیکن سب سے پہلے جمعہ کی عدالتی کارروائی کا ذکر انتہائی ضروری ہے جسے سن کر پی ٹی آئی عدالت عظمیٰ کے حق میں نعرے لگاتی نہیں تھک رہی۔ جہاں اس فیصلے نے پی ٹی آئی کی جان میں جان ڈال دی ہے وہیں اس کے برعکس حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں کافی اضطراب پایا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ نے 9 جولائی 2024ء کو ایک بجے اس مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ فیصلہ محفوظ کرتے وقت بینچ کے سربراہ یہ نہیں بتا سکے کہ یہ فیصلہ کب سنایا جائے گا۔ چیف جسٹس صاحب یہ کہہ کر اٹھ گئے کہ ’ابھی ہم نے طے نہیں کیا کہ فیصلہ مختصر سنایا جائے گا یا تفصیلی، ہم فی الحال فیصلہ محفوظ کررہے ہیں۔ ہم آپس میں مشاورت کرکے تاریخ دیں گے‘۔

  مخصوص نشستوں پر ججز نے مشاورت سے فیصلہ محفوظ کیا—تصویر: ایکس
مخصوص نشستوں پر ججز نے مشاورت سے فیصلہ محفوظ کیا—تصویر: ایکس

صحافی حضرات پھر بھی فیصلہ سنائے جانے کا تب تک انتظار کرتے رہے کہ جب تک عدالتی عملے سے یہ معلوم نہیں ہوا کہ فیصلہ کل یعنی اگلے دن 10جولائی کو آئے گا۔ 10 جولائی کا دن بھی گزر گیا لیکن فیصلہ نہیں آ سکا پھر سپریم کورٹ کی طرف سے 11 جولائی کو اعلان کیا گیا کہ فیصلہ جمعہ کے دن آئے گا۔ یہ اتفاق ہے یا روایت کہ 2010ء کے بعد جمعہ وہ واحد دن ہوتا ہے کہ جس میں بالخصوص سیاسی نوعیت کے بڑے مقدمات کے فیصلے سنائے جاتے ہیں اور اس کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔

فیصلے کی گھڑی

مخصوص نشستوں کے حوالے سے ’میک یا بریک‘ کہلائے جانے والی فیصلے کی یہ گھڑی آن پہنچی لیکن یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس محفوظ فیصلے پر مشاورت کے لیے چیف جسٹس صاحب نے اپنے چیمبر میں فل کورٹ کے تمام ججز سے دو دن تک مشاورت کی تھی۔ بند کمرے کے اس مشاورتی اجلاس کی کوئی خبر باہر تو آ نہیں سکی لیکن اجلاس کی خبر ملنے پر کچھ ولاگر حضرات کو اپنے اپنے تجزیائی دکانوں پر مفروضات کا کچھ سامان مہیا کردیا تھا۔

جس دن فیصلہ سنایا جانا تھا، اس دن کورٹ کے اندر اور باہر غیرمعمولی نقل حمل دیکھنے میں آئی، سیکیورٹی سخت اور ریڈ زون کی ایریا کو عام شہریوں اور ٹریفک کے لیے بند کیا گیا تھا۔ عدالتی کمرہ کھچا کچھ بھرا ہوا تھا۔ اتنی دیر میں چیف جسٹس اپنے تمام ساتھی ججز کے ساتھ نمودار ہوئے اور اپنی مخصوص نشستوں پر براجمان ہوئے۔

جج صاحبان جیسے ہی اپنی نشستوں پر بیٹھے تو چیف جسٹس صاحب نے اعلان کیا کہ اس فیصلے کے کئی آرڈرز ہیں۔ میں سینیئر ساتھی جج یعنی جسٹس منصور علی شاہ کو کہوں گا کہ وہ اکثریتی فیصلہ سنائیں’، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کچھ دستاویز طلب کیں جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ میرے پاس تو نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ جواباً کہا کہ میں نے آپ کو کل فراہم کی تھی جس پر چیف جسٹس نے ایک کاپی جسٹس منصور علی شاہ کو دی اور انہوں نے دس نکات پر مشتمل فیصلہ پڑھنا شروع کردیا۔

  جسٹس منصور علی شاہ نے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا
جسٹس منصور علی شاہ نے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا

فیصلے کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے 25 مارچ 2024ء کو جو فیصلہ دیا تھا اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ دوسرا نکتہ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ 2024ء والے فیصلے کو غیر قانونی، بلاجواز اور غیرآئینی قرار دینے کا تھا۔ اسی طرح تیسرے نکتے کے مطابق خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے بارے میں الیکشن کمیشن کے 6 مئی 2024ء تک جاری تمام نوٹیفکیشن کو کالعدم کردیا گیا۔

جسٹس منصور نے کہا کہ کسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنے سے اس جماعت کے اراکین سے پارٹی سے وابستگی کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔ ان کا اگلہ نکتہ یہ تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کل بھی سیاسی جماعت تھی آج بھی ہے اس لیے انہیں پارٹی کے تناسب کے مطابق قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں۔

اس کے بعد عام انتخابات، الیکشن کمیشن کے وکلا کی طرف سے دی جانے والی فہرست کی تمام تفصیلات بھی جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں بیان کیں۔ اسی فیصلے میں تحریک انصاف کے وہ تمام اراکینِ پارلیمان جو سنی اتحاد کونسل کا حصہ بن گئے تھے یا جو آزاد ہیں ان سب کو تحریک انصاف کی چھتری تلے آنے کا فرمان بھی اکثریتی فیصلے کا حصہ بنایا گیا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا گیا کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کا فوری اعلان کیا جائے جبکہ پی ٹی آئی کو یہ سہولت بھی میسر کی گئی ہے کہ فیصلے کی تشریح کے لیے عدالت کا دروازہ ہمیشہ کی طرح کھلا رہے گا۔

اگلی باری جسٹس یحیٰی آفریدی کی اپنا الگ نوٹ پڑھنے کی تھی جس میں انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے آئینی اعتبار سے سیاسی جماعت اور قانونی اعتبار سے مخصوص نشستوں کے حقدار ٹھہرائے جانے کے تقاضے پورے نہیں کیے لیکن پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے وہ تمام تقاضے پورے کر چکی ہے اور جو امیدوار جماعت کا سرٹیفکیٹ یا وابستگی کا حلف لے چکے ہیں انہیں آزاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وہ پی ٹی آئی کا حصہ تصور کیے جائیں گے۔ لہٰذا مخصوص نشستیں ان کی ہی بنتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو سات دنوں میں ان کے نام بطور پارٹی ممبران شامل کرنے چاہئیں۔

'فیصلے کی غلط تشریح کی گئی'

13 ارکان پر مشتمل فل کورٹ میں صرف دو ججز ہی ایسے تھے جنہوں نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دینے کی اپیل مسترد کی اور اس حوالے سے جسٹس امین الدین خان نے اپنا اختلافی نوٹ پڑھ کر سنایا کہ الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ درست ہے جسے برقرار رکھا جاتا ہے اس فیصلے سے جسٹس نعیم اختر نے بھی اتفاق کیا۔ اس فیصلے کا آخری نوٹ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا تھا جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں پڑھ کر سنایا۔

Title of the document

انہوں نے سنی اتحاد کونسل کے حوالے سے کہا کہ ان کا مؤقف وہی ہے جو جسٹس یحیٰی آفریدی نے اپنے نوٹ میں بیان کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ لیا نہ کوئی نشست جیتی جبکہ اس نے مخصوص نشستوں کی فہرست بھی جمع نہیں کروائی۔ انہیں کوئی سیٹ الاٹ نہیں کی جاسکتی۔ لہٰذا الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ درست تھا کہ مخصوص نشستوں کو خالی نہیں رکھا جا سکتا لیکن چونکہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کی دوڑ سے باہر نکال کردیا تھا اس لیے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی ہے اور کمیشن کو کسی امیدوار کو آزاد قرار دینے کا اختیار نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے بھی الیکشن کمیشن کے ایسے فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا‘۔

چیف جسٹس نے بھی پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت مان کر مخصوص نشستیں دینے کا حکم صادر کیا ہے۔

فیصلہ پی ٹی آئی کی جیت کیسے؟

جہاں تک بات 11 یا 8/5 ججز کے فیصلے کی ہے تو اس کو یوں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس فل کورٹ کے 13 ججز میں صرف دو جج صاحبان جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان ایسے جج تھے جنہوں نے سنی اتحاد کونسل کی اپیلیں رد کرکے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا جس کا مطلب ہے کہ تحریک انصاف یا سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں مل سکتیں جبکہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں آٹھ ججز کی اکثریت نے تحریک انصاف کو مکمل ریلیف دے کر الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا ہے۔

  پی ٹی آئی کے کارکن جشن مناتے ہوئے—تصویر: فیس بُک
پی ٹی آئی کے کارکن جشن مناتے ہوئے—تصویر: فیس بُک

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے الگ نوٹ ضرور دیے ہیں لیکن انہوں نے بھی تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کی مخالفت نہیں کی۔ اس تناسب سے اس 13 رکنی فل کورٹ میں سے 11 ججز وہ ہیں جنہوں نے قومی اور صوبائی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کی 77 مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا فیصلہ دیا ہے۔

یہ تنازعہ شروع کب ہوا؟

اس پورے تنازعہ کی جڑ بلے کا وہ انتخابی نشان تھا جو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس لیے نہیں دیا کیونکہ اس نے بارہا انتباہ کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے۔ جب پی ٹی آئی کو سمجھایا گیا کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانے سے ان کا نقصان ہوسکتا ہے تو تب بات کافی آگے نکل چکی تھی اور سیاسی جماعت نے خانہ پوری کے لیے ایک گاؤں میں کچھ لوگ بلا کر جلدبازی میں انتخابات کروا کر گوہر خان کو نیا چیئرمین منتخب کردیا اور یہی رپورٹ الیکشن کمیشن میں پیش کردی۔

الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر 2023ء کو ان انٹرا پارٹی انتخابات کو غیرقانونی قرار دے کر پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان دینے سے انکار کردیا۔ جب معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں گیا تو ڈویژنل بینچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم کرکے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان الاٹ کردیا۔ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 13 جنوری 2024ء کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کو درست قرار دے کر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا۔

  الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان واپس لیا
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان واپس لیا

عدالتی فیصلے کی روشنی میں الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے جتنے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے، ان سب کو آزاد حیثیت سے الگ الگ انتخابی نشان الاٹ کیے گئے۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس وقت آیا کہ جب انتخابات میں کچھ دن باقی رہ گئے تھے اور مجبوری کی بنا پر امیدواروں کو بیگن، جوتا، قلم دوات، ٹرک، ڈھول، بوتل اور مختلف انتخابی نشانات پر انتخابات میں حصہ لینا پڑا اور اپنے مخالف امیدواروں کو نشانے پر رکھ کر مسلم لیگ (ن) و دیگر جماعتوں کو ان کے سیاسی گڑھ اور مضبوط حلقوں سے شکست سے دوچار کیا۔

انتخابات اور سنی اتحاد کونسل میں انضمام

اب پی ٹی آئی کا ایک اور امتحان شروع ہوا۔ انتخابات میں جو کچھ ہوا، کس نے کیا اور کیسے کیا، یہ قصہ سب کی زبان پر ہے لیکن پی ٹی آئی کے منتخب اراکین اب آزاد ممبران پارلیمنٹ کہلوائے جانے لگے اور الیکشن کمیشن نے آزاد رکن کی حیثیت میں ان کی کامیابی کے نوٹیفکیشنز بھی جاری کردیے۔

اب دوسرا مرحلہ سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں دینے کا ہوتا ہے۔ آئین کی شق 51 واضع کرتی ہے کہ منتخب سیاسی جماعتوں کے ان کی کامیابی کی تناسب سے مخصوص نشستیں الاٹ کی جا سکتی ہیں جس سے مراد آزاد حیثیت میں کامیاب قرار دیے جانے والے گروپ کے پاس مخصوص نشستیں حاصل کرنے کا کوئی قانونی جواز باقی نہیں بچا تھا۔

پی ٹی آئی کے اکابرین نے اس پر قانونی ماہرین سے طویل مشاورت کرکے اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ کسی نہ کسی سیاسی، مذہبی اور الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ جماعت کی چھتری کے نیچے جمع ہوجائیں تاکہ انہیں قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں سے محروم نہ کیا جاسکے۔

  سنی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ بانی پی ٹی آئی کا تھا یا ان کے سیاسی سرپرستوں کا؟
سنی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ بانی پی ٹی آئی کا تھا یا ان کے سیاسی سرپرستوں کا؟

پاکستان تحریک انصاف کے پاس کئی آپشنز تھے لیکن انہوں نے ایسی جماعت کا انتخاب کیوں کیا جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا تھا۔ یہ سوال ابھی بھی اٹھ رہے ہیں کی یہ فیصلہ بانی عمران خان نے خود لیا یا یہ فیصلہ خان صاحب کی سیاسی سرپرستوں کا تھا؟ معاملہ ابھی تک ایک راز ہی ہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ بات طے ہے کہ یہ فیصلہ کسی قدر درست تھا۔

اب پی ٹی آئی، سنی اتحاد کونسل بن گئی یا سنی اتحاد کونسل دو رنگے جھنڈے میں شامل ہوئی؟ کل تک یہ بات کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ حلف برداری کے بعد سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن سے فریاد کی کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہمارے کامیاب اراکین کے تناسب سے ہمیں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشتیں الاٹ کی جائیں۔

'مقدمے میں پی ٹی آئی فریق نہیں تھی'

سنی اتحاد کونسل/ پی ٹی آئی کی نظر پارلیمنٹ کی کُل 77 مخصوص نشستوں پر تھی جن میں قومی اسمبلی کی 23، پنجاب اسمبلی کی 30، خیبرپختونخوا اسمبلی کی 25 اور سندھ اسمبلی کی تین مخصوص نشستوں شامل تھیں۔ ایوانِ زیریں میں 20 مخصوص نشستیں خواتین اور تین اقلیتوں کے لیے، کے پی اسمبلی میں کل 25 نشستیں جن میں سے 21 خواتین اور چار اقلیتوں کے لیے، سندھ اسمبلی میں تین نشستیں جن میں دو خواتین اور ایک اقلیت کے لیے جبکہ پنجاب اسمبلی میں27 خواتین اور تین اقلیتی نشستیں شامل تھیں۔

اس درخواست پر الیکشن کمیشن میں دلائل دیے گئے۔ پارلیمنٹ، وفاقی حکومت، سنی اتحاد کونسل سب کے وکلا جمع ہوئے۔ سب نے اپنا اپنا مؤقف پیش کیا۔ اس منظرنامے میں پی ٹی آئی فریق نہیں تھی بلکہ ان کا مقدمہ سنی اتحاد کونسل لڑ رہی تھی۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو 1-4 اراکین کے تناسب یعنی اکثریت سے سنایا گیا۔

الیکشن کمیشن کا فیصلہ یہ تھا کہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی قانون کے مطابق حالیہ انتخابات میں مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع کروانے کی تاریخ 24 جنوری 2024ء تھی اور اس دوران حتمی تاریخ تک سنی اتحاد کونسل نے کوئی فہرست جمع نہیں کروائی جبکہ تحریک انصاف چونکہ بطور سیاسی پارٹی نہیں رہی تھی، اس لیے ان کے امیدواروں کو آزاد امیدوار قرار دے کر انتخابی نشانات جاری کردیے گئے۔

الیکشن کمیشن کے بقول قانون پر عمل نہ کرنے اور فہرست مقررہ مدت میں جمع نہ کروانے پر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں اور آئین کے مطابق یہ نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو ہی دی جا سکتی ہیں اس لیے کمیشن نے پارٹی پوزیشن کے تناسب سے یہ نشستیں مسلم لیگ (ن)، پی پی پی، جے یو آئی ایف سمیت دیگر جماعتوں کو الاٹ کردیں۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی اور کئی دنوں کی سماعت کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو درست قرار دے کر مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو الاٹ کرنے کا حکم صادر کردیا۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں بھی سنی اتحاد کونسل نے چیلنج کیا اور اس میں یہ استدعا کی گئی کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر 77 مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دی جائیں۔ 14 مارچ کو پشاور ہائی کورٹ کے پانچ ججز پر مشتمل بینچ نے سنی اتحاد کی اپیل مسترد کرکے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو قانون کے مطابق درست قرار دے دیا۔ اسی طرح اضافی مخصوص نشستیں پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کے بجائے دیگر کامیاب سیاسی جماعتوں کے حصے میں آگئیں۔

  سنی اتحاد کونسل/پی ٹی آئی کو نشستیں دینے سے انکار کرکے دیگر جماعتوں کو اضافی نشستیں دی گئیں
سنی اتحاد کونسل/پی ٹی آئی کو نشستیں دینے سے انکار کرکے دیگر جماعتوں کو اضافی نشستیں دی گئیں

یہاں سے سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی کہانی کی شروعات ہوئی جب سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا تو چیف جسٹس آف پاکستان نے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین ارکان پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جس نے نوٹس جاری کرکے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کردیا جس کے نتیجے میں قومی اور صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر حلف لینے والے ممبران کی رکنیت بھی معطل کردی۔

اب پارلیمنٹ کی صورتحال کیا ہوگی؟

قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر پارٹی پوزیشن کے فراہم کیے گیے اعدادوشمار کے مطابق تحریک انصاف/ سنی اتحاد کونسل کی قومی اسمبلی میں کُل 92 نشستیں ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق قومی اسمبلی پارٹی کو 23 نشستیں ملنے کے بعد یہ تعداد 115 ہوجائے گی جوکہ بڑی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) سے7 نشستیں زیادہ ہے کیونکہ ایوانِ زیریں میں مسلم لیگ (ن) کے پاس 108 ممبران موجود ہیں۔

حکومتی اتحاد کی دیگر جماعتوں میں سے پی پی پی کے پاس 68، ایم کیوایم 21، مسلم لیگ (ق) 5، استحکام پاکستان پارٹی 4 جبکہ نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی اور ضیا لیگ کے پاس ایک ایک نشست موجود ہے۔ اس طرح حکمران اتحاد کے پاس 209 کی اکثریت موجود ہے جبکہ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتوں کو ملا کر اگر عددی اکثریت دیکھی جائے تو کل اراکین کی تعداد 103 بنتی ہے جس میں جمعیت علمائے اسلام کی 8 نشستیں، 8 آزاد اراکین، بلوچستان نیشنل پارٹی، پختون ملی عوامی پارٹی اور وحدت المسلمین کا ایک ایک ممبر ایوان کا حصہ ہے۔

الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف/سنی اتحاد کونسل کی نشستیں 104 ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق انہیں 30 نشستیں الاٹ ہوں گی تو ان کی نشستوں کی تعداد بڑھ کر 134 ہوجائے گی جبکہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) و دیگر کی 238 نشستیں ہیں جن میں اکثریتی جماعت مسلم لیگ جس کے پاس 205 ممبران ہیں جبکہ دیگر جماعتوں میں پیپلز پارٹی 14، پاکستان مسلم لیگ 10، استحکام پاکستان پارٹی 6، مسلم لیگ ضیا، مجلس وحدت مسلمین اور تحریک لبیک پاکستان کی ایک ایک نشست ہے۔

  پارلیمنٹ میں اراکین کی تعداد کا تناسب کیا ہوگا؟
پارلیمنٹ میں اراکین کی تعداد کا تناسب کیا ہوگا؟

سندھ اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق تحریک انصاف کے حامی آزاد ممبران کی تعداد 9 ہے، تین مزید ممبران ملنے سے یہ تعداد بڑھ کر 12 ہوجائے گی جبکہ حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے 117 ممبران ہیں، ایم کیو ایم کے 37، ایک ممبر جماعت اسلامی سے ہیں۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کی کل 145 نشستوں میں اکثریت تحریک انصاف کو حاصل ہے جہاں ان کے پاس اب تک 93 نشستیں ہیں جو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بڑھ کر 117 ہوجائیں گی۔

ایک بات واضع ہے کہ یہ فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آیا ہے اس کے ساتھ حکمران اتحاد قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے محروم ہوگئی ہے۔ اگر فیصلہ ان کے حق میں آتا تو شاید وہ آئین سازی کے کچھ مزید مراحل طے کرلیتے اب ایسا ممکن نہیں لیکن سادہ اکثریت اب بھی ان کے پاس موجود ہے اور یہ اکثریت تب تک موجود رہے گی جب تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے 68 ممبران کو حکومتی بینچز سے الگ کیا تو وہ حکومت کا آخری دن ہوگا۔

کیا چیف الیکشن کمیشن مستعفیٰ ہوں گے؟

پی ٹی آئی اب الیکشن کمیشن بالخصوص چیف الیکشن کمشنر کے استعفیٰ کا مطالبہ کررہی ہے لیکن الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے اس کے پاس جواز ہے کیونکہ اراکین کو آزاد قرار دینے کے پیچھے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔

ایسی صورتحال میں چیف الیکشن کمشنر کے پاس عہدے پر رہنے کا قانونی جواز موجود ہے۔ پاکستان میں ایسی کوئی نظیر نہیں کہ اس طرح کے سیاسی دباؤ میں آکر اپنے عہدے چھوڑے جائیں۔ دوسری وجہ یہ کہ پاکستان تحریک انصاف پہلے دن ہی سے الیکشن کمیشن ہی نہیں بلکہ کسی بھی ادارے کو شفاف نہیں سمجھتی۔

حرفِ آخر

  سپریم کورٹ کے فیصلے نے پی ٹی آئی کو ریلیف دیا
سپریم کورٹ کے فیصلے نے پی ٹی آئی کو ریلیف دیا

آخری بات یہ ہے کہ یہ پورا مقدمہ سنی اتحاد کونسل کا تھا۔ الیکشن کمیشن، پشاور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک سنی اتحاد کونسل یہ مقدمہ فریق کے طور پر لڑتی رہی جبکہ پاکستان تحریک انصاف ایک غیرمؤثر یا مہمان اداکار کی طرح پس منظر میں تھی لیکن پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ کی طرف سے وہ سب کچھ مل چکا ہے جو انہوں نے مانگا ہی نہیں تھا۔

کسی وکیل نے یہ نہیں کہا تھا مخصوص نشستیں پاکستان تحریک انصاف کو دی جائیں یا اس مقدمے میں ان سے انتخابی نشان چھن جانے کے حوالے سے کوئی دلیل نہیں دی گئی تھی۔ یہ بھی نہیں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کو اپنی جماعت کی شناخت واپس دی جائے اور پارلیمنٹ میں اس کے اراکین کو اراکین پی ٹی آئی کے طور پر بٹھایا جائے۔

کچھ حلقے یہ ضرور تنقید کررہے ہیں کہ اکثریت ججز نے وہی کام کیا جو کام افتخار چوہدری نے پیپلز پارٹی کی دشمنی میں این آر او کے مقدمہ کا فیصلہ دے کر کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کو اب تک تنقید کا سامنا ہے جس میں چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے ظفر علی شاہ کیس میں جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کا وہ اختیار بھی دے دیا تھا جو انہوں نے کسی درخواست میں مانگا ہی نہیں تھا۔

گزشتہ روز کے فیصلے کے حوالے سے دوسرا تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے والا الیکشن کمیشن کا جو فیصلہ تھا جس پر بعد میں سپریم کورٹ نے مہر ثبت کردی تھی، کچھ جج حضرات نے اس فیصلے کا ازالہ کرکے تحریک انصاف کو وہ ریلیف دے دیا جو انہوں نے مانگا نہیں تھا۔

اس سے یہ بھی تاثر جاتا ہے کہ صرف ایک بڑے ادارے میں ہی نہیں بلکہ انصاف کے ادارے میں بھی دھڑا بندی ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں، اب کس کس کا منہ بند کیا جا سکتا ہے۔

ابراہیم کنبھر

مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔

ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔