• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

موسمیاتی تبدیلی خواتین کی ماہواری پر کیسے اثرانداز ہورہی ہے؟

تحقیق میں سامنے آیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں لڑکیوں کو پہلی ماہواری قبل از وقت یا تاخیر سے آنے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
شائع July 4, 2024

میری بہن کو محض ساڑھے 7 سال کی عمر میں پہلی بار ماہواری (پیریڈز) ہوئے۔ ماہواری کے درد اور ذہنی و جسمانی تھکان کے لیے وہ اتنی کم عمری میں تیار نہیں تھی۔ ایک سال بعد پُراسرار طور پر اسے ماہواری آنا رک گئی اور پھر 12 سال کی عمر تک اسے ماہواری نہیں آئی۔

عمومی طور پر 10 سے 16 سال کی عمر میں خواتین کو ماہواری یا حیض شروع ہوجاتے ہیں جس کی اوسط عمر 12.4 سال بتائی جاتی ہے۔ پہلی ماہواری عموماً اچانک غیر متوقع طور پر ہوتی ہے جبکہ اس سے قبل درد بھی محسوس نہیں ہوتا۔ تاہم حال ہی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) کی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ جو ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کررہے ہیں، وہاں لڑکیوں میں پہلی ماہواری قبل از وقت یا تاخیر سے ہورہی ہے۔

پاکستان ان ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے بحران کا شکار ہیں۔ گزشتہ 50 سال میں ملک کے سالانہ اوسط درجہ حرارت میں 0.5 ڈگری کا اضافہ ہوا جبکہ ہیٹ ویوز کی تعداد میں بھی 5 گنا اضافہ ہوا۔

مئی 2022ء میں جہاں ملک کے درجہ حرارت نے 60 سالہ ریکارڈ توڑا وہیں 16 سالہ فریحہ عتیق جنہیں 9 سال کی عمر میں ماہواری شروع ہوئی تھی، 2022ء میں اپنی زندگی کی بدترین ماہواری کا سامنا کیا۔

فریحہ ڈان کو بتاتی ہیں، ’9 سال کی عمر میں، میں پیریڈز کے لیے بالکل تیار نہیں تھی۔ کسی طرح میں اس کی عادی ہوگئی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان دنوں میں ہونے والے درد کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ 2022ء کے موسم گرما یعنی اپریل سے اگست تک، ماہواری کے دوران اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پارہی تھی‘۔

فریحہ کی والدہ انہیں بہت سے ماہرِ امراض نسواں (گائناکالوجسٹ) کے پاس معائنے کی غرض سے لے گئیں لیکن سب نے کہا کہ فریحہ کو جس شدت کی تکلیف ہورہی ہے وہ ماہواری میں ’عام‘ ہے لیکن یہ عام نہیں تھا۔ ماہواری کے دوران ہلکا اور درمیانی شدت کا درد ہونا عام ہے لیکن اگر شدت ناقابلِ بیان حد تک زیادہ ہو تو اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں۔

فریحہ کی والدہ نے ایسے گائناکالوجسٹ کی تلاش جاری رکھی جو ماہواری کے دنوں میں فریحہ کو ہونے والے شدید درد کی وجہ بتا سکے۔ اسی تلاش میں ان کی ملاقات کراچی کے عباسی شہید ہسپتال میں کام کرنے والے زچگی کے ماہر ڈاکٹر جنید انصاری سے ہوئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ فریحہ کو غیرمعمولی شدت کا درد کورٹیسول ہارمون (اسٹریس ہارمون جس پر درجہ حرارت اثرانداز ہوتا ہے) کی بلند سطح کی وجہ سے ہورہا ہے۔

  فریحہ کو 2022ء کے موسمِ گرما میں ماہواری کے دنوں میں غیرمعمولی شدید درد کا سامنا رہا
فریحہ کو 2022ء کے موسمِ گرما میں ماہواری کے دنوں میں غیرمعمولی شدید درد کا سامنا رہا

فریحہ کے جسم میں درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ ساتھ کورٹیسول بڑھتا گیا جوکہ ’ڈس مینوریا‘ کا سبب بنا جس کی وجہ سے دو سال قبل فریحہ کو اس شدت کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پاتی تھیں۔

ہارمونز اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کا کیا تعلق ہے؟

زیادہ تر خواتین کو ماہواری میں ’درد نہیں ہوتا‘ جبکہ کچھ خواتین کو شدید تکلیف کا سامنا رہتا ہے۔ یہ ڈس مینوریا کی علامت ہے اور یہ کورٹیسول کے اخراج کی وجہ سے ہوتا ہے۔

کورٹیسول ایسا ہارمون ہے جو تناؤ کی صورتحال میں خارج ہوتا ہے اور یہ خواتین کے جسمانی نظام میں متعدد کردار ادا کرتا ہے۔ یہ شوگر لیول، میٹابولزم، بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے جبکہ یہ سوزش یا درد پر قابو پانے کا کام بھی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ہارمون خواتین کی ماہواری پر بھی اثرانداز ہوتا ہے اور تولیدی نظام کو حمل کے لیے تیار کرتا ہے۔

ڈاکٹر جنید انصاری نے ڈان کو بتایا، ’طویل مدتی یا تاخیر سے ماہواری کی بنیادی وجہ کورٹیسول کا اخراج ہوسکتا ہے جو موسم در موسم تبدیل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر موسمِ سرما میں اس کا اخراج بڑھ جاتا ہے جو ماہواری کو متاثر کرتا ہے‘۔

تاہم ڈاکٹر جنید نے واضح کیا کہ انہوں نے موسمِ گرما میں گرمی کی شدت کی وجہ سے ہارمون میں اضافے کا مشاہدہ کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’حال ہی میں ایک 12 سالہ لڑکی کا کیس میرے سامنے آیا جس کا باڈی ماس انڈیکس ٹھیک تھا لیکن وہ ماہواری میں شدید تکلیف کی وجہ سے حرکت کرنے سے قاصر تھی اور یہ بالخصوص مئی اور جولائی کے مہینوں میں ہوا‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’کورٹیسول کی جانچ کے لیے خون کا ٹیسٹ کروایا جس میں ہم نے دیکھا کہ کورٹیسول کی سطح 30 dl/mcg تھا جوکہ اس عمر کی لڑکیوں میں 20-14 dl/mcg ہونا چاہیے۔ ہم نے اس کا مشاہدہ کیا اور یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ اگست میں مون سون بارشوں کے ساتھ کورٹیسول کی سطح معمول پر آگئی۔

’میں نے اپنے تحقیق جاری رکھی اور میں اس بات سے قائل ہوں کہ سنگین موسمیاتی تبدیلی ماہواری پر اثرانداز ہوتی ہے‘۔

زیادہ اسٹریس کی وجہ سے کورٹیسول جیسے دیگر ہارمونز کنٹرول کرنے والے غدود (گلینڈز) متاثر ہوتے ہیں جوکہ ایسٹروجن کے اخراج کے ذمہ دار ہے۔ ایسٹروجن خواتین کے تولیدی نظام کے لیے انتہائی اہم ہے۔ مختصر یہ کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہارمونز کا توازن بگڑ جاتا ہے۔

  موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خواتین میں ہارمونز کا توازن بگڑ رہا ہے
موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خواتین میں ہارمونز کا توازن بگڑ رہا ہے

پولینڈ کی پوزنان یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کے محققین نے خواتین میڈیکل طالبات میں کورٹیسول کے موسمی پیٹرن کی نشان دہی کی۔ اس مطالعے میں طالبات کا دو بار موسمِ سرما جبکہ دو بار موسمِ گرما میں ٹیسٹ کیا گیا جبکہ خون میں کورٹیسول اور درد کم کرنے والے ہارمونز دیکھنے کے لیے 24 گھنٹے کے دورانیے میں ہر دو دو گھنٹے بعد ان کے لعاب کے نمونے بھی لیے جاتے تھے۔

مطالعے میں شامل طالبات نے متعلقہ سوالنامے کے جوابات بھی دیے جیسے ان کی سونے کی عادات، خوراک اور جسمانی سرگرمیوں وغیرہ۔ پہلے کیے جانے والے مطالعات کے برعکس اس تحقیق میں موسمِ گرما میں خواتین میں کورٹیسول کی سطح زیادہ دیکھی گئی جبکہ درد مختلف موسم میں ایک جیسا دیکھا گیا۔ اس سے اس دلیل کو مزید تقویت ملتی ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے اثرات خواتین کی ماہواری پر رونما ہوتے ہیں۔

(غیر) معمولی حالات

رائے عامہ کے برعکس ڈس مینوریا عام جسمانی حالت نہیں۔

عباسی شہید ہسپتال کی ڈاکٹر آصفہ صوفیا نے ڈان کو بتایا، ’بہت سی لڑکیاں جو پیریڈز کے دنوں میں غیرمعمولی قسم کی شدید درد کی شکایت کرتی ہیں، انہیں ماہرِ امراض نسواں کہتے ہیں کہ ایسا ہونا نارمل ہے حالانکہ یہ عام حالت ہرگز نہیں۔

’ایسی صورت حال گزشتہ 5 سال میں سامنے آئی ہے اور میرے سامنے جتنے کیسز آئے ان میں لڑکیوں کو موسمِ سرما میں شدید درد سے گزرنا پڑا‘۔

ڈاکٹر آصفہ نے وضاحت کی کہ پرائمری ڈس مینوریا میں خواتین کو ماہواری سے پہلے اور اس دوران پیٹ کے نچلے حصے میں شدید درد ہوتا ہے۔ دوسری جانب وہ ماہواری جو بعد کے ادوار میں تکلیف دہ ہوجاتی ہے وہ سیکنڈری ڈس مینوریا کی نشان دہی کرتی ہے جوکہ عموماً ایسے حالات سے منسلک ہوتا ہے جیسے اینڈومیٹرائیوسس یا یوٹیرن فائبرائڈز جو رحم (یوٹیرس) یا شرونیی (پیلوک) اعضا کو متاثر کرتے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں، ’ایسا ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے، تکلیف دہ ماہواری اور خون کے بہاؤ میں تعطل کا براہِ راست تعلق خطے کے موسمی حالات یا پیٹرن سے ہوتا ہے‘۔

ڈاکٹر آصفہ صوفیا کہتی ہیں، ’میں نے شہری اور دیہی دونوں علاقوں کی خواتین کے ساتھ کام کیا۔ میں نے جس ایک چیز کا مشاہدہ کیا وہ ایک عام پیٹرن ہے جس میں درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ بیضہ دانی میں مواد خارج کرنے والا فولیکلز کا سائز بھی متاثر ہوتا ہے جس کا اثر ایسٹروجن لیول پر پڑتا ہے‘۔

فولیکل، بیضہ دانی (اووری) میں موجود رطوبت سے بھرا ایک اعضا ہوتا ہے جس میں ایک اِم مچیوئر ایگ (جو سائیکل سے گزر کر رحم میں آتا ہے اور میچیوئر ایگ کہلاتا ہے) موجود ہوتا ہے۔ فولیکل کے سائز میں تبدیلی کی وجہ سے ہارمونز متاثر ہوتے ہیں جو بلوغت، ماہواری، حمل، ہڈیوں کی مضبوطی اور خاتون کے جسم میں دیگر افعال کو منظم کرتے ہیں۔

صاحبہ نامی خاتون کا تعلق تھر سے ہے جو ڈاکٹر آصفہ کے پاس ماہواری میں بےقاعدگی کا علاج کرواتی ہیں۔ مئی 2021ء میں انہیں ماہواری کے دوران اپنے پیٹ کے نچلے حصے میں درد کی غیرمعمولی شدت کا سامنا کرنا پڑا۔ دیگر خواتین کی طرح 24 سالہ صاحبہ نے اس درد کو ٹالا لیکن ایک دن گھر میں کام کرتے ہوئے وہ بےہوش ہوگئیں۔

  درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے خواتین میں فولیکلز متاثر ہوتے ہیں
درجہ حرارت میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے خواتین میں فولیکلز متاثر ہوتے ہیں

تھر میں مئی اور جون سال کے گرم ترین مہینے ہوتے ہیں جن میں درجہ حرارت 50 ڈگری کا پارہ چھو جاتا ہے۔

صاحبہ بتاتی ہیں، ’بے ہوش ہونے کے بعد مجھے کبھی نارمل ماہواری نہیں ہوئی۔ یا تو 12 دنوں تک مجھے پیریڈز ہوتے یا مجھے پیریڈز ہوتے ہی نہیں۔ پیریڈز ہوں یا نہ ہوں، درد مجھے شدید قسم کا ہوتا تھا‘۔ صاحبہ سے پوچھا گیا کہ کیا ماہواری شروع ہونے سے قبل انہیں درد کی اس طرح کی شدت کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جس کا انہوں نے نفی میں جواب دیا۔

صاحبہ جیسی صرف ایک مریض نہیں۔ ڈاکٹر آصفہ صوفیا نے ڈان کو بتایا کہ 2022ء کے سیلاب کے بعد انہوں نے ایسے کئی مریضوں کا علاج کیا جن کی ماہواری سیلاب سے متاثر ہوئی۔ انہوں نے نشان دہی کی، ’آج درجہ حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے ان کے فولیکز کے سائز متاثر ہوتے ہیں یا ان کے ایسٹروجن ہارمون میں تبدیلی آئی ہے جوکہ تشویش ناک ہے‘۔

ہجرت اور نقل مکانی کے اثرات

بلوچستان کے ضلع نصیرآباد کی رہائشی گیتانجلی بتاتی ہیں، ’سیلاب آنے سے قبل مجھے معمول کے مطابق ماہواری ہوتی تھی۔۔۔ لیکن اچانک مجھے بےقاعدگی سے کسی بھی دن ماہواری شروع ہونے لگی‘۔

25 سالہ گیتانجلی کہتی ہیں، ’مجھے مہینوں تک ماہواری نہیں ہوتی اور پھر اچانک شروع ہوجاتی۔ کچھ دن مجھے زیادہ خون آتا ہے جبکہ کچھ دن ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جب مجھے صرف ایک قطرہ خون آتا ہے‘۔

ان بے قاعدگیوں کی وجہ سے گیتانجلی کو اپنی صحت کے حوالے سے تشویش ہوئی کیونکہ گزشتہ تین ماہ میں ان کا 25 کلو وزن کم ہوا تھا۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے قدرتی آفات آتی ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کرتے ہیں، نتیجتاً ان کی ماہواری میں خلل آتا ہے۔ جب دو سال پہلے پاکستان میں بدترین سیلاب آئے تو خواتین کو ماہواری کے حوالے سے انتہائی خراب دور کا سامنا رہا۔

ناقص صحت کی سہولیات کی وجہ سے آلودگیوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان کا رحم متاثر ہوا۔ بین الاقوامی جرنل آف انوائرمینٹل ریسرچ اینڈ پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے والے ایک جائزے کے مطابق، آلودگی میں شامل کیمیکلز، ماہواری کے وقت کو مختلف طریقے سے متاثر کرتے ہیں۔

مطالعات میں سامنے آیا کہ آلودگی کی وجہ سے پولی کلورینیٹڈ بائفنائل(پی سی بیز) اور فلیم ریٹارٹرڈ کو تاخیر سے ماہواری شروع ہونے سے منسلک کیا ہے۔ اس کے برعکس کچھ زہریلے مادے جیسے کہ اینڈوکرائن میں خلل ڈالنے والے کیمیکلز اور ایٹرازین کو قبل از وقت ماہواری شروع ہونے سے جوڑا۔

پولی کلورینیٹڈ بائفنائل (پی سی بیز) سیلاب کے پانی میں پایا گیا جوکہ انسان اور جانوروں کے فضلے کی وجہ سے بہت آلودہ تھا جو نہ صرف پہلی ماہواری کے وقت بلکہ یہ یوٹیرس لائننگ کے ٹوٹنے پر بھی اثرانداز ہوتا ہے جس کی وجہ سے خواتین کو بےقاعدگی سے ماہواری ہوتی ہیں۔

  اسٹریس کی وجہ سے خواتین میں ماہواری متاثر ہوتے ہیں
اسٹریس کی وجہ سے خواتین میں ماہواری متاثر ہوتے ہیں

گیتانجلی کی ڈاکٹر طاہرہ کشف کے مطابق اچانک نقل مکانی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اسٹریس کی وجہ سے گیتانجلی کی ماہواری متاثر ہوئی۔

انہوں نے کہا، ’کورٹیسول کا زیادہ اخراج اور ایسٹروجن کم ہونے کی وجہ سے ان کے فولیکلز کا سائز کم ہوا، یہی وجہ ہے کہ انہیں خون کے تیز بہاؤ اور شدید درد کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے تشویش ہے کہ ایسی صورتحال رہی تو ان کے جسم میں خون کی کمی ہوسکتی ہے‘۔

ڈاکٹر طاہرہ نے مزید کہا کہ ان کے پاس سندھ اور بلوچستان سے ایسی بہت سی خواتین آئیں جنہوں نے سیلاب کے بعد اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کیا۔

وہ کہتی ہیں، ’فرٹیلیٹی سائیکل کے دوران جب فولیک کا قطر (ڈائی میٹر) 18 اور 22 ملی میٹر کے درمیان ہو تو یہ اشارہ کرتا ہے کہ ایسٹروجن میں اضافہ ہورہا ہے اور رحم کی لائننگ موٹی ہورہی ہے۔ تاہم سیلاب کے بعد میں نے جن خواتین کا علاج کیا ان کے فولیکلز کا سائز 9 سے 12 ملی میٹرز کے درمیان تھا جو ظاہر کرتا ہے کہ ان خواتین میں ایسٹروجن لیول انتہائی کم تھا‘۔

ماہواری میں بےقاعدگی

گزشتہ 5 سال میں پاکستان نے سخت ترین گرمی اور سردی دونوں کا سامنا کیا ہے۔ ماہواری میں بےقاعدگی صرف گرمیوں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ یہ موسم سرما میں بھی ہوسکتی ہے۔

22 سالہ عروہ نے کہا، ’گزشتہ سال مجھے پیریڈز کے دوران شدید درد اٹھا جس کی شدت سے میں بلبلا اٹھی بالخصوص ایسا دسمبر کے اواخر اور جنوری کی وسط میں ہوا۔ میں نے اپنے پیریڈز کا مشاہدہ کیا اور ڈاکٹر سے رجوع کیا جنہوں نے مجھے میلاٹونن چیک کروانے کا مشورہ دیا۔ میں نے جنوری کے اواخر میں ٹیسٹ کروایا تو میلاٹونن بہت کم تھا‘۔

عروہ بتاتی ہیں کہ حیرت انگیز طور پر فروری میں درد کی شدت میں کمی آگئی اور اپریل تک مجھے نارمل پیریڈز ہونے لگے۔ لیکن مئی میں مجھے دوبارہ درد اٹھا لیکن اس بار اس کی شدت زیادہ تھی۔

انیقہ ساجد جو دو بچوں کی ماں بھی ہیں، بتاتی ہیں کہ انہیں ماہواری کے پہلے اور دوسرے دن اسی طرح کے مسئلے کا سامنا رہا۔

وہ کہتی ہیں، یہ سب میرے لیے نیا ہے کیونکہ یہ گزشتہ دو سال سے ہورہا ہے اور یہ موسم سرما میں ہوتا ہے۔ شروعات میں صرف درد ہوتا تھا، میں معمولات زندگی جاری رکھتی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ 6 ماہ میں یہ صورت حال خراب تر ہوتی گئی، اتنی خراب کہ درد کش ادویات کا اثر بھی ختم ہوگیا’۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق موسم سرما میں دھوپ کم ہونے کی وجہ سے سیروٹونن اور میلاٹونن (جوکہ ماہواری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں) کے لیول میں کمی آتی ہے۔ ہارمونز کا توازن بگڑنے سے ماہواری کے دوران بہت زیادہ خون بہتا ہے۔ اس کے علاوہ جب درجہ حرارت میں کمی آتی ہے تو خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں اور بہت کم خون شریانوں سے گزر پاتا ہے جس کے نتیجے میں بھی ماہواری کے دنوں میں زیادہ خون بہہ سکتا ہے۔

  سردیوں میں خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں جس سے ہارمونز کا توازن بگڑ سکتا ہے
سردیوں میں خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں جس سے ہارمونز کا توازن بگڑ سکتا ہے

لیاقت نیشنل ہسپتال میں ماہرِ امراض نسواں ڈاکٹر طاہرہ مسعود نے ڈان کو بتایا کہ موسمِ سرما میں ماہواری کے دنوں میں ہونے والے درد کی شدت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں، ’ڈس مینوریا اکثر ہارمون جیسے مادوں کے اخراج کی وجہ سے ہوتا ہے جسے پروسٹاگلینڈنز کہتے ہیں۔ سرد موسم میں ان مادوں میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے شدید درد محسوس کیا جاسکتا ہے۔

’سرد موسم میں خون کی شریانوں کا سکڑ جانا، درد کی شدت میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ بہت سی خواتین بتاتی ہیں کہ سرد موسم میں انہیں زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے جوکہ علامت ہے کہ ایسا ہونا عام بات ہے‘۔

چند سال پہلے تک ماہواری ایک ایسا موضوع تھا جس پر بات کرنے کی ممانعت تھی اور اس پر عوامی سطح پر گفتگو نہیں ہوتی تھی۔ جہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری آئی ہے بالخصوص شہری علاقوں میں، لیکن اب بھی ماہواری کے دوران ہونے والے درد اور خواتین کی صحت پر بہت کم گفتگو کی جاتی ہے۔

چونکہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے سنگین خطرات کا سامنا ہے، ایسے میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ مسائل صنفی مساوات کے بغیر ممکن نہیں خاص طور پر ان رکاوٹوں کو دور کرنا ضروری ہے جن کی وجہ سے خواتین قدرتی آفات سے غیرمعمولی انداز میں متاثر ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر طاہرہ کشف آگاہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’بہت سی خواتین جن کے کیسز میری نظروں سے گزرے، انہیں تو یہ علم بھی نہیں تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ان کی ماہواری متاثر ہورہی ہے‘۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ خواتین کی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور طویل مدتی پائیدار تبدیلیاں جیسے درجہ حرارت پر منحصر ٹیمپونز، ہارمونل ادویات اور دیگر قدرتی وسائل کی مدد سے جسمانی نظام کو اپنی نارمل حالت میں لانے کی ضرورت ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے ڈان میڈیا گروپ کی مہم بریتھ پاکستان کا حصہ بنیں۔
علیزے فاطمہ

علیزے فاطمہ فارمسسٹ اور صحافی ہیں۔ آپ کا ایکس ہینڈل dalchawalorrone@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔