لاپتا افراد کی عدم بازیابی پر سیکریٹری دفاع، داخلہ و دیگر پر جرمانوں کے خلاف اپیلیں خارج
اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی کیس میں شہریوں کی عدم بازیابی سینگل بینچ کی جانب سے سیکریٹری دفاع ، داخلہ، چیف کمشنر اور پولیس افسران پر کیے جانے والے جرمانوں کے خلاف اپیلیں خارج کر دیں۔
ڈان نیوز کے مطابق لاپتا آئی ٹی ایکسپرٹ ساجد محمود ، عمر عبد اللہ ، مدثر نارو و دیگر کی بازیابی کیس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی، درخواست گزار مائرہ ساجد کی جانب سے بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی نے کیس کی پیروی کی۔
سماعت کے آگاز پر جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ جی ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب کوئی خوشخبری ہے؟ لاپتا افراد آگئے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق تاحال پیش رفت نہیں ہوئی۔
لاپتا شہریوں کی عدم بازیابی پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہم ہوگئے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ کئی کئی سال گزر گئے ہیں ، کہاں ہیں لاپتا افراد ؟ ہر بار آپ آکر کہہ جاتے ہیں کہ پروگریس ہو رہی ہے، کتنا وقت دیں آپ کو؟ آپ ہر بار وقت مانگ لیتے ہیں، پہلے کئی بار اٹارنی جنرل پیش ہو چکے، خالد جاوید خان بھی پیش ہو چکے، ہم کیا کریں پھر جو جرمانہ عائد ہوا اسے ڈبل کردیتے ہیں؟ کیا کریں پھر وزیر اعظم کو بلا لیں؟
ان کا کہنا تھا کہ کئی سالوں سے یہ کیسز زیر سماعت ہیں، نہ لاپتا افراد بازیاب ہوئے نہ کوئی پیش رفت ہوئی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کوئی پروگریس تو بتائیں ناں ہوا کیا ہے؟ آپ کیا کر رہے ہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دوگل نے بتایا کہ حکومت نے کمیٹی بنائی ہے اور وہ حتمی مرحلے میں ہے، کچھ وقت دے دیں، جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ سیدھا سیدھا بتائیں بندے کدھر ہیں؟ منور اقبال دوگل نے کہا کہ تمام کوششیں کی جا رہی ہیں، کسی بندے کے بارے میں یہ نہیں کہا گیا کہ کس ادارے کے پاس ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ ہمارے لیے اپیلوں پر فیصلہ کرنا بہت آسان ہے جو جرمانے ہو چکے وہ ڈبل کر دیں گے، ہر سیکریٹری اور آئی جی اپنی تنخواہ سے جرمانہ دیتا جائے گا یہ بڑا آسان طریقہ ہے، ہم تو 7 سال سے یہ کیس لے کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ کچھ ہو جائے، میرا خیال ہے اب یہی کرنا پڑے گا، آپ ہر تاریخ پر مختصر وقت مانگ لیتے ہیں۔
انہوں نے مزید دریافت کیا کہ کیا معجزہ ہونے لگا ہے کیا حتمی مرحلے میں ہیں؟ یہ صرف لالی پاپ ہے جو آپ ہمیں دے رہے ہیں، اس طرح کے مقدمات میں اٹارنی جنرل خود پیش کیوں نہیں ہوتے؟ کیا اس سے زیادہ اہم بھی کوئی معاملہ ہو سکتا ہے؟
عدالتوں کو اس حد تک لے آئے ہیں کہ اب آپ کی کسی بات پر یقین نہیں کرنا، جسٹس عامر فاروق
اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل مصروف ہیں، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا مصروفیت ہے کسی نے انہیں بھی قید کر دیا ہے؟ ہم بھی وزیر اعظم یا کسی اور کو بلا لیتے ہیں بتائیں اور کیا کریں؟ فیڈریشن نے شاید حلف اٹھایا ہوا ہے کہ عدالتوں کی معاونت نہیں کرنی، اب آپ عدالتوں کو اس حد تک لے آئے ہیں کہ اب آپ کی کسی بات پر یقین نہیں کرنا، ہم سے یہی بات کہہ کر اسٹے لیا گیا تھا کہ کوششیں ہو رہی ہیں، اگر یہ کہہ دیں کہ بندے لے آئیں گے تو وقت دے دیتے ہیں، اب تو بہت وقت گزر چکا ہے، آپ کو تو کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے مزید ریمارکس دیے کہ جب تک وزیراعظم یا وفاقی کابینہ سے لکھوا کر نہ لائیں آپ کی بات پر اعتبار نہیں، ہمیشہ سے یہی سن رہے ہیں کہ ہو رہا ہے، ہو جائے گا، کر رہے ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم اپیلیں مسترد کر رہے ہی، آپ سپریم کورٹ میں دائر کریں۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جبری گمشدہ افراد کمیشن کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھا دیا۔
جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ حکومت جبری گمشدہ افراد کمیشن کے لیے کیا کرنا چاہتی ہے، جو کسی کام کا نہیں ہے؟ کیا کمیشن کے چیئرمین اور ممبرز کو تنخواہیں بھی ملتی ہیں؟ کیا یہ جبری گمشدہ افراد کمیشن قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس حوالے سے تو کمیشن نے بتانا ہے، جسٹس عامر فاروق نے مزید کہا کہ کمیشن کیا بتائے گا آپ حکومت ہیں آپ نے بتانا ہے، منور اقبل دوگل نے جواب دیا کہ کمیشن نے ساڑھے دس ہزار میں سے ساڑھے سات ہزار کیسز نمٹائے ہیں۔
اعداد و شمار لے جا کر ڈی چوک پر لگا دیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ یہ اعداد و شمار لے جا کر ڈی چوک پر لگا دیں، یہ بس اعداد و شمار ہی ہیں۔
اس موقع پر وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ایک ماہ کا مزید وقت دینے کی استدعا کر دی۔
بعد ازاں عدالت نے سنگل بینچ کی جانب سے افسران پر کیے گئے جرمانوں کے فیصلے کے خلاف وفاق کی تمام انٹرا کورٹ اپیلیں خارج کردیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ رٹ پٹیشنز کی سنگل بینچ میں سماعت ہوگی۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کا تفصیلی آرڈر جاری کردیا، حکم نامے کے مطابق ساجد محمود کی اہلیہ کی درخواست پر جسٹس اطہر من اللہ کا 2018 کا فیصلہ برقرار رہے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے خصوصی بینچ نے جسٹس اطہر من اللہ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے ، وفاقی حکومت کی فیصلے کے خلاف اپیلیں عدالت نے مسترد کردیںم 2018 کے سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضمیر الحسن شاہ پر ایک لاکھ جرمانہ بحال کردیا گیا، 2018 کے چیف کمشنر ذوالفقار حیدر کو کیا گیا ایک لاکھ جرمانہ بحال ہوگیا، 2018 کے آئی جی اسلام آباد خالد خان خٹک پر بھی ایک لاکھ روپے جرمانہ بحال کردیا گیا۔
حکم نامے کے مطابق 2018 کے ڈپٹی کمشنر مشتاق احمد کو کیا گیا ایک لاکھ روپے جرمانہ اور ایس ایچ او پولیس قیصر نیاز کو کیا گیا تین لاکھ روپے کا جرمانہ بھی بحال کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ 14 مارچ 2016 کو 2 ڈبل کیبن میں سوار ایک درجن کے قریب ماسک پہنے لوگوں نے زبردستی سیکٹر F-10 میں درخواستگزار مائرہ محمود کے خاوند ساجد محمود کے گھر میں داخل ہو کر انہیں اغوا کر لیا تھا۔
24 اگست 2016 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا شخص کے کیس میں وزارت داخلہ اور دفاع کو تفصیلی جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی ہدایت کی کہ وہ ساجد محمود کی ’جبری گمشدگی‘ کی تحقیقات کرنے والے پولیس افسر کے ساتھ تعاون کریں۔
12 نومبر 2016 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ اسلام آباد سے لاپتا انجینئر کا معاملہ جبری گمشدگیوں کے زمرے میں آتا ہے۔
12 جولائی 2018 کو ایک تاریخی فیصلے میں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے جبری گمشدگی کے تصور کی وضاحت کی اور قرار دیا کہ شہریوں کو اغوا کرنے اور نامعلوم مقامات پر حراست میں رکھنے میں ملوث افراد پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے۔
اسی رور اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سابق سیکریٹری وزارت دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضمیر الحسن شاہ، اسلام آباد کے اس وقت کے چیف کمشنر ذوالفقار حیدر، سابق انسپکٹر جنرل پولیس خالد خان خٹک اور سابق ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پر ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔
29 جولائی 2018 کو وزارت دفاع، داخلہ اور ضلعی انتظامیہ نے جبری گمشدگی کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔
دسمبر 2021 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل (اے اے جی) سے کہا کہ وہ لاپتہ افراد کے کیس وفاقی کابینہ کے ساتھ اٹھائیں اور عدالت کو اس حوالے سے حکومتی پالیسی سے آگاہ کریں۔