• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:48pm
  • LHR: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی استثنیٰ، ’صدر اب بادشاہ ہے‘

شائع July 3, 2024

اگر گزشتہ ہفتے ہونے والے صدارتی مباحثے میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی فتح ناکافی لگی تو رواں ہفتے پیر کو انہیں ایک اور خوشگوار خبر ملی۔ یکم جولائی 2024ء کو امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے دیے جانے والے فیصلے میں کہا گیا کہ سابق صدر کو اپنے دورِ حکومت میں اپنی ’سرکاری کاموں‘ کے لیے صدارتی استثنیٰ حاصل تھا۔

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے مقدمہ ٹرائل کورٹ میں واپس بھیج دیا جسے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کون سا کام سرکاری ہے جبکہ کون سا کام ذاتی نوعیت کے زمرے میں آئے گا۔

اس حیران کُن فیصلے نے استثنیٰ کے دائرے کی وسیع تشریح پیش کی جس میں صدر کو سیاسی مخالفین اور دیگر ناپسندیدہ لوگوں کے خلاف اپنے محکمہ انصاف کو مقدمہ چلانے کا حکم دینا بھی شامل ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 6 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے کچھ اقدام جن میں مظاہرین کے خلاف نیشنل گارڈ اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کال کرنے سے انکار شامل ہیں، اگر ان میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی استثنیٰ حاصل تھا تو وہ کسی قسم کی کارروائی سے بچ سکتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے بدھ کو صدارتی مباحثے میں صدر جو بائیڈن کی مایوس کُن کارکردگی کی وجہ سے امریکا کا سیاسی منظرنامہ انتشار کا شکار ہے۔ وہ جنہوں نے یہ بحث نہیں دیکھی، انہیں بتاتی چلوں کہ 82 سالہ جو بائیڈن مباحثے کے دوران زرد رنگت کے ساتھ ہچکچاتے، گھبراتے اور کسی سوچ میں گم نظر آئے۔

مختصر یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم جو قیاس آرائیاں کررہی تھی کہ جو بائیڈن اپنی زائد عمر کی وجہ سے صدر جیسے اہم سرکاری دفتر کو سنبھالنے کے قابل نہیں، وہ کچھ حد مضبوط ہوئیں۔ یہ صدارتی بحث اس قدر بری تھی کہ پہلے 10 منٹ ختم ہونے کے بعد ہی ڈیموکریٹک پارٹی کی حکمت عملی ترتیب دینے والے ماہرین گھبراہٹ کا شکار تھے کہ صدارتی انتخابات کی دوڑ میں آگے کیا ہوگا۔

بہت سے حلقوں نے خود کو ایک کنونشن کے لیے تیار کرنا شروع کردیا ہے کہ جو بائیڈن ان مندوبین جنہوں نے ان کی حمایت کا وعدہ کیا تھا، انہیں اجازت دے دیں گے کہ وہ صدارتی انتخابات میں کسی دوسرے امیدوار کا انتخاب کریں۔

اگلے ہی روز جو بائیڈن کا بیان سامنے آیا کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے کا مکمل ارادہ رکھتے ہیں اور وہ اپنی نامزدگی واپس نہیں لیں گے۔ البتہ ان کے اس بیان سے کنونشن کے انعقاد یا نائب صدر کمالا ہیرس، ریاست مشی گن کے گورنر گریچن وائٹمر اور پنسلوانیا کے گورنر جوش شاپیرو کو امیدوار کی حیثیت سے ٹکٹ ملنے کی افواہوں نے دم نہیں توڑا۔

اسی دوران ڈیموکریٹک پارٹی کی حکمت عملی ترتیب دینے والے ماہرین کا کہنا ہے اس وقت کوئی دوسرا امیدوار، بائیڈن سے بھی بدتر ثابت ہوسکتا ہے جبکہ کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ جو بائیڈن کے ساتھ انتخابی میدان میں اترنے سے ڈیموکریٹک پارٹی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جہاں امریکا کا سیاسی منظرنامہ ابہام کا شکار ہے وہیں یہ تاریخی عدالتی فیصلہ اس بات کی ضمانت دے گا کہ صدر بننے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس گزشتہ دورِ حکومت سے زیادہ اختیارات ہوں گے۔

بینچ میں شامل سونیا سوتومائر جو اس فیصلے کے خلاف ووٹ دینے والی اقلیت میں شامل تھیں، نے ججز کی اکثریت کی جانب سے دیے جانے والے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ وائٹ ہاؤس کو اتنے زیادہ اختیارات دے گا کہ صدر سیل ٹیم سکس کو کسی کو قتل کرنے کا حکم دے سکتے ہیں اور پھر اسے سرکاری اقدام قرار دے کر قانونی کارروائی سے استثنیٰ حاصل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ اس تصور کے لیے ’مضحکہ خیز‘ ہے جو کہتا ہے کہ ’کوئی شخص بھی قانون سے بالاتر نہیں‘۔ جسٹس سونیا سوتومائر نے لکھا، ’صدر اب بادشاہ ہے‘۔

ایک اور جج جسٹس کیتن جی براؤن جیکسن نے نوٹ میں لکھا، ’یہاں تک کہ ایک تصوراتی صدر جو یہ تسلیم کرتا ہے کہ اس نے اپنے سیاسی حریفوں، مخالفین یا ناکام بغاوت پر اکسانے والوں کو قتل کروایا، اس صدر کو اکثریت کے اس احتساب ماڈل سے کسی قانونی کارروائی سے استثنیٰ مل جائے گا‘۔ انہوں نے مزید لکھا کہ بنیادی طور پر امریکا میں جہاں سب قانون کی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں وہاں صدر کی کرسی پر بیٹھا شخص تمام قوانین سے بالاتر ہوگا۔

تاہم ججز کی اکثریت اس معاملے کو مختلف نظر سے دیکھا۔ قابلِ ذکر فرق یہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ صدارت کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی سابق صدر کو اپنے دورِحکومت میں کیے گئے سرکاری اقدامات پر استثنیٰ ملنا چاہیے اور اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے وسیع تر اثرات ہوں گے۔ قانونی محاذ پر اس کی امریکی عدالتوں کی قانونی ساکھ اور غیرجانبداری پر سوالات اٹھائے ہیں جوکہ پہلے ہی حالیہ دنوں تنقید کی زد میں ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کو غیرجانبدار ہونا چاہیے لیکن وہ سیاسی تعصب کا شکار نظر آرہی ہے۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ووٹ دینے والے بینچ کے ججز کو خود انہوں نے ہی تعینات کیا تھا، اس نے عدالت کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ ناقدین کے نزدیک یہ اس سابق صدر اور پارٹی کی حمایت ہے جنہوں نے انہیں اس ملازمت پر مامور کیا۔

علاوہ ازیں ساموئل الیٹو جیسے قدامت پسند ججز کے سیاسی جھکاؤ کے بارے میں حالیہ تنازعات اور ان کے خلاف سیاسی تعصب کے دیرینہ الزامات نے عدالت کی غیرجانبداری ثابت کرنے میں کوئی مثبت کردار ادا نہیں کیا۔

اس فیصلے نے متعدد وجوہات کی بنا پر ڈیموکریٹس میں خوف و ہراس پیدا کیا ہے۔ بہت سے لوگ اب خوفزدہ ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک اور دورِ حکومت نہ صرف خوفناک ہوگا بلکہ یہ تباہ کُن بھی ثابت ہوسکتا ہے کہ جس میں صدر رہتے ہوئے مخالفین کو دھمکانے اور سیاسی اسکور کیپنگ سمیت مختلف انتقامی کارروائیوں کو سرکاری اقدامات قرار دے کر استثنیٰ حاصل کرلیں گے۔ اس سے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات مزید اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔

جو بائیدن سے امیدوار کی حیثیت سے دستبرادر ہونے کو کہنے والے لوگ عدالت کی شدید قدامت پسندی کی جانب اشارہ کرسکتے ہیں اور استدلال کرسکتے ہیں کہ عدالت دوسرے معاملات پر سوچنے پر مجبور کررہی ہے کہ کہیں یہ برتھ کنٹرول اور ان وٹرو فرٹیلائزیشن جیسے لبرل عوامل پر بھی پابندی نہ لگا دے کیونکہ اس کے حالیہ فیصلے میں قدامت پسندی عروج پر ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں بین الاقوامی قانونی ضابطوں کی جھلک بھی موجود تھی۔ کئی جمہوری ریاستیں اپنے سابق قائدین کے غیر قانونی اور مجرمانہ اقدامات کے حوالے سے جدوجہد کرتی ہیں۔ یہ فیصلہ انہیں جواز فراہم کرتا ہے کہ گورننس انہیں قانونی کارروائیوں اور احتساب سے استثنیٰ فراہم کرتی ہے۔ یہ باعثِ تشویش ہے کہ یہ فیصلہ ایک ایسے مقدمے سے منسلک ہے جس میں سابق صدر نے اپنے حامیوں کو سرکاری عمارت پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا تھا۔

لیکن چیف جسٹس سپریم کورٹ نے یہ نہیں سوچا بلکہ ان کی رائے میں استثنیٰ دینا ایک ایسا طریقہ ہے جس سے ملک میں نئی حکومت منتخب ہو تو ماضی کے حکمرانوں کو عدالت لے جانے اور ان کے خلاف مقدمہ چلائے جانے کے نہ ختم ہونے والے سلسلے سے چھٹکارا حاصل ہوسکے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

رافعہ ذکریہ

رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024