• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

سپریم کورٹ کے جج کا فیصل واڈا، مصطفٰی کمال کے خلاف شکایت درج کروانے سے انکار

شائع June 30, 2024
جسٹس اطہر من اللہ۔ فائل فوٹو:ڈان نیوز
جسٹس اطہر من اللہ۔ فائل فوٹو:ڈان نیوز

سینیٹر فیصل واڈا اور رہنما متحدہ قومی موومنٹ پاکستان مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ان کی شکایت پر شروع ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو بھیجے گئے خط میں جسٹس اطہر من اللہ نے واضح طور پر کہا کہ ان کی جانب سے نہ تو کوئی شکایت درج کروائی گئی اور نہ ہی ان سے اس بارے میں کوئی مشاورت کی گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس من اللہ نے خط میں کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی کے حوالے سے میرا نقطہ نظر اس فقہ سے عیاں ہے جو میں نے بحیثیت ہائی کورٹ کے جج کے طور پر اپنایا تھا، انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے 2017 سے اپنے فیصلوں کی وجہ سے بدنیتی پر مبنی مہمات، پرائیویسی میں دخل اندازی، جعلی الزامات، اور محرکات کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک جج کے طور پر انہوں نے محسوس کیا کہ اس طرح کی توہین آمیز مہمات کمزور قانون والے پولرائزڈ معاشرے میں آئینی فرض ادا کرنے والوں سے وابستہ ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ اس طرح کی مہمات نے میرے عہدہ کے حلف کے ہر لفظ کے ساتھ میری وفاداری اور وابستگی کی تصدیق اور مضبوطی کی، جعلی، جھوٹے اور گمراہ کن پروپیگنڈے اور توہین آمیز مہمات قلیل المدتی ہیں کیونکہ سچ آخر کار غالب ہوتا ہے۔

ان کے مطابق ایک جج کے طور پر، انہوں نے کبھی بھی ان کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی وہ اس طرح کی توہین آمیز مہموں سے متاثر ہوئے ہیں، چاہے وہ کتنے بھی سنگین یا جھوٹ ہر مبنی کیوں نہ ہوں، خط میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی عدالتی شاخ کا معاشرے میں ایک اہم کردار ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک جج تنقید سے محفوظ نہیں ہے، عدلیہ، آئین کے تحت اسے تفویض کردہ کاموں کی نوعیت اور معاشرے میں اس کے بلند مقام کی وجہ سے تنقید کا ہدف ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ عوامی تنقید کی وجہ سے جج کی آزادی کسی بھی طرح متاثر نہیں ہوتی ہے لیکن غیر سوچی سمجھی تنقید، سخت اور غیر شائستہ زبان استعمال کرنے یا ایسے الفاظ جو فطرت میں ہتک آمیز ہوں، سے گریز کرنا چاہیے، تنقید کی سختی یا لہجے کے باوجود، ایک آزاد جج کو اس طرح رد عمل ظاہر کرنے کے لیے اکسایا نہیں جا سکتا جس کے نتیجے میں وہ ایک فوجداری مقدمے کا موضوع بن جائے کیونکہ مناسب عمل اور منصفانہ ٹرائل کے تناظر میں گہرے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ بڑائی اور ہمدردی، یہاں تک کہ دوسری صورت میں، ایک غیر جانبدار اور آزاد جج کے لازمی اوصاف تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جعلی، جھوٹا، بدنیتی پر مبنی اور گمراہ کن پروپیگنڈا، سائبر غنڈہ گردی یا سائبر اسٹاکنگ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عدلیہ اور اس کے اراکین کو نشانہ بنانا ایک عام رجحان بن گیا ہے، ججز کی پرائیویسی محفوظ نہیں ہے، اور ان کی ذاتی زندگی یا خاندانی معاملات سے متعلق پیغامات، تصاویر اور ویڈیوز بھی پرائیویسی کے حق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے اپ لوڈ کیے جاتے ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ من پسند فیصلوں کے لیے من گھڑت، جھوٹی معلومات اور ججوں اور انتظامیہ کے بارے میں پروپیگنڈے کا سہارا لیا جاتا ہے، محرکات اس وقت لگائے جاتے ہیں جب کوئی فیصلہ پسند کا نہ ہو، یہ یقینی طور پر ایک آزاد جج اور عدلیہ کے لیے ایک شدید چیلنج پیدا کرتا ہے لیکن کسی جج یا عدالت کا وقار توہین کے قانون کا سہارا لینے پر منحصر نہیں ہے، جج کے فیصلے اور مؤخر الذکر کا طرز عمل اس کی سالمیت اور آزادی کا پیمانہ ہے، ایک آزاد جج کا وقار اور نہ ہی اس کی سالمیت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک ٹویٹ سے اسے نقصان پہنچایا جائے۔

رجسٹرار سے کہا گیا کہ وہ اس خط کو ریکارڈ پر رکھیں تاکہ کسی بھی بے بنیاد تاثر کو زائل کیا جا سکے کہ کارروائی ان کی شکایت پر شروع کی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024