• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 5:02pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 5:12pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:07pm Asr 5:02pm
  • ISB: Zuhr 12:12pm Asr 5:12pm

توہین عدالت کیس: فیصل واڈا نے سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی

شائع June 26, 2024
فیصل واڈا۔ فوٹو: ڈان نیوز
فیصل واڈا۔ فوٹو: ڈان نیوز

توہین عدالت کے کیس میں سینیٹر فیصل واڈا نے سپریم کورٹ سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔

ڈان نیوز کے مطابق توہین عدالت کیس میں سینیٹر فیصل واڈا نے سپریم کورٹ میں دوسرا جواب جمع کروا دیا جس میں انہوں نے مؤقف اپنایا کہ میں عدلیہ کا مکمل احترام کرتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ 5 جون کی عدالتی کارروائی کے بعد مذہبی اسکالرز سے ملاقات کی اور اُن سے پوچھا کہ ایک سینیٹر کا کردار کیا ہونا چاہیے، مجھے رائے دی گئی کہ انصاف کے ساتھ کھڑے رہیں چاہیے یہ بات آپ کے اقربا کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔

فیصل واڈا کے جواب میں قرآن و احادیث کے حوالہ جات بھی دیے گئے۔

انہوں نے جواب میں کہا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صدق دل سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں، سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ توہین عدالت میں جاری کردہ شوکاز نوٹس واپس لیا جائے۔

واضح رہے کہ 4 جون کو سپریم کورٹ کی جانب سے عدلیہ مخالف بیان پر توہین عدالت کے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے سابق وفاقی وزیر سینیٹر فیصل واڈا نے غیر مشروط معافی مانگنے سے انکار کردیا تھا۔

فیصل واڈا نے توہین عدالت نوٹس پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا، اپنے جواب میں انہوں نے کہا کہ پریس کانفرنس کا مقصد عدلیہ کی توہین کرنا نہیں تھا، پریس کانفرنس کا مقصد ملک کی بہتری تھا، عدالت توہین عدالت کی کارروائی آگے بڑھانے پر تحمل کا مظاہرہ کرے۔

17 مئی کو سپریم کورٹ میں سابق وفاقی وزیر سینیٹر فیصل واڈا کی پریس کانفرنس پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سابق وزیر فیصل واڈا اور رہنما متحدہ قومی موومنٹ مصطفیٰ کمال کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کرلیا تھا۔

فیصل واڈا نے کیا کہا تھا؟

15 مئی کو سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب پاکستان میں کوئی پگڑی اچھالے گا تو ہم ان کی پگڑیوں کی فٹبال بنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا، 15 روز ہوگئےجواب نہیں آیا، 19 اے کے تحت مجھے جواب دیا جائے، بابر ستار کہتے ہیں کہ جج بننے سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو رپورٹ بھیجی، ہم نے کہا کہ اس کے حوالے سے ریکارڈ روم کے اندر کوئی چیز ہوگی تحریری طور پر لیکن اس کا جواب ہمیں نہیں مل رہا۔

انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے آرڈر دیا کہ ہر پاکستانی بات کسی سے بھی پوچھ سکتا ہے تو پاکستانی تو دور کی بات ایک سینیٹر کو جواب نہیں مل رہا تو اب ابہام بڑھ رہا ہے، شک و شبہات سامنے آرہے ہیں کہ اس کے پیچھے منطق کیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ ایک سال پہلے چیزیں ہوئیں، ایک سال بعد یاد آئیں، تو ایک سال پہلے کیوں نہیں بتایا؟ اب پھر مداخلت ہوئی پرسوں تو الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، اب آپ کو ثبوت دینے پڑیں گے کہ کس نے مداخلت کی، کیوں کی اور اس کے شواہد دیں تو ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں ورنہ تو میں بھی فون اٹھا کر کہوں کہ جج نے کہہ دیا ہے کہ قتل کردو تو اس کا ٹرائل تھوڑی ہوجائے گا۔

فیصل واڈا نے کہا تھا کہ ہمیں جواب نہیں مل رہا، ہمیں بتایا جائے کہ کیا ریکارڈ کے اندر یہ سب لکھا گیا ہے اور اگر ریکارڈ کا حصہ نہیں تو اس کے نتائج ہوں گے، اطہر من اللہ صاحب تو تاریخی فیصلے کرتے ہیں، میرا گمان ہے کہ وہ اصول پسند آدمی ہیں، وہ کسی دباؤ میں نہیں آتے، کسی سے رات کے اندھیرے میں نہیں ملتے تو وہ ایسی غلطی نہیں کرسکتے کہ انہوں نے تحریری طور پر چیز نہ لی ہو، وہ ریکارڈ ہمیں ملنا چاہیے، ہم اسے کیوں نا مانگیں؟

بعد ازاں 16 مئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینیٹر فیصل واڈا کی پریس کانفرنس پر از خود نوٹس لے لیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 1 جولائی 2024
کارٹون : 30 جون 2024