• KHI: Maghrib 5:47pm Isha 7:08pm
  • LHR: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:31pm
  • KHI: Maghrib 5:47pm Isha 7:08pm
  • LHR: Maghrib 5:02pm Isha 6:29pm
  • ISB: Maghrib 5:02pm Isha 6:31pm

مخصوص نشستوں کا کیس: عمران خان بطور وزیراعظم الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے، چیف جسٹس

فوٹو:  اسکرین شاٹ
فوٹو: اسکرین شاٹ

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے کیس کی براہ راست سماعت کی۔

جسٹس مسرت ہلالی طبیعت ناسازی کے باعث فل کورٹ کا حصہ نہیں ہیں، کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جارہی ہے۔

سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے اعلٰی عدلیہ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیا۔

وکیل فیصل صدیقی نے جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلوں کا حوالہ دیا۔

الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا، وکیل سنی اتحاد

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فیصلوں میں آئینی تشریح کا قدرتی حدود سے مطابقت پر زور دیا گیا، آرٹیکل 51 اور 106 سے 3 ضروری نکات بتانا ضروری ہے، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظر انداز کیا۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غلط ہے تو آپ آئین کی درست وضاحت کر دیں، الیکشن کمیشن کو چھوڑ دیں اپنی بات کریں، آئین و قانون کے مطابق بتائیں کہ سنی اتحاد کونسل کو کیسے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں؟ کیا ہم آئین کے نیچرل معنی کو نظر انداز کردیں، ہم ایسا کیوں کریں؟

جنہوں نے الیکشن لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں، عدالت

وکیل نے جواب دیا کہ اصل معاملہ آئینی شقوں کے مقصد کا ہے،جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ جنہوں نے الیکشن لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی انہیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں، جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو آئین میں دیے گئے الفاظ ہی غیر مؤثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل تو سیاسی پارٹی ہی نہیں ہے۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد پی ٹی آئی سیاسی پارٹی نہیں رہی، لیکن پولیٹیکل ان لسٹڈ پولیٹیکل پارٹی تو ہے، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ہے۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ پی ٹی آئی اگر اب بھی پولیٹیکل پارٹی وجود رکھتی ہے تو انہوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی؟ اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی؟یہ تو آپ کے اپنے دلائل کے خلاف ہے۔

پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، جسٹس منیب اختر

جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے رول 92 کی ذیلی شق 2 پڑھیں، جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آزاد امیدوار الیکشن کمیشن نے قرار دیا، الیکشن کمیشن کی رائے کا اطلاق ہم پر لازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔

جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ تمام امیدوار پی ٹی آئی کے تھے حقائق منافی ہیں، پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کروا کر واپس کیوں لیے گئے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ ہم یہ نہیں سنیں گے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے زیادتی کی، ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے۔

چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں، پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے پی ٹی آئی کے حق میں دلائل مفاد کے ٹکراؤ میں آتا ہے، سنی اتحاد کونسل سے تو انتحابی نشان واپس نہیں لیا گیا، آئین پر عمل نہ کر کے اس ملک کی دھجیاں اڑا دی گئی ہیں، میں نے آئین پر عملدرآمد کا حلف لیا ہے، ہم نے کسی سیاسی جماعت یا حکومت کے مفاد کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، آپ لوگ نظریاتی میں گئے اور پھر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

وکیل نے جواب دیا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کے لیے کوئی چوائس نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسے عظیم ججز بھی گزرے ہیں جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا، آپ صرف آئین پر رہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ ایک رات پہلے انتخابی نشان لے لیا گیا تھا، چیف جسٹس نے دوبارہ ریمارکس دیے کہ آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں، سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا؟ وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے۔

پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، چیف جسٹس

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا، پی ٹی آئی کے صدر تھے، انہوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی؟ پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، عمران خان وزیر اعظم تھے انہوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، کسی پر ایسے انگلیاں نہ اٹھائیں، سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کروا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیا تو اپیل کیوں دائر نہیں کی؟ وکیل نے بتایا کہ اس سوال کا جواب سلمان اکرم راجا دیں گے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رولز آئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔

وکیل نے مزید دلائل دیے کہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا دس فیصد والی سیاسی جماعتوں کو ساری مخصوص نشستیں دے دیں گے؟ چیف جسٹس نے انہیں بتایا کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیے اڑائی گئیں کیونکہ آئین پر عمل نہیں ہوتا، میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔

مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، عدالت

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ہے، ہم اتنے ہوشیار ہیں کہ آئین سے ہٹ کر اپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا، ہمارے آئین کو بنے پچاس سال ہوئے ہیں، امریکا اور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں؟کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی کا مزید کہنا تھا کہ مشکل سے ملک پٹری پہ آتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے، پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے، ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو ہے،ب اس سے زیادہ کیا پروگریسو ہوگا؟ کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔

جنہوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں، انھیں اٹھا لیا گیا، جسٹس اطہر من اللہ

بعد ازاں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنہوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں، انھیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کے علم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کر لے؟ اس پر وکیل سنی اتحاد کونلس فیصل صدیقی نے کہا کہ میں آپ کی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔

اس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ لیول پلیئنگ فلیڈ نہ ملنے کا کہا گیا، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جس کو لیول پلئینگ فیلڈ نہیں ملی وہ ہمارے سامنے آئے ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتے ہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں جب الیکشن کے انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی، الیکشن کس نے کروائے؟ الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، صدر مملکت اس وقت کون تھے؟ عارف علوی تھے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ کیا پی ٹی آئی کو ہم نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائیں، منت، سماجت کی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروائے، اس وقت وزیراعظم عمران خان تھے، عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے، سال بھر کی تاریخ دی گئی الیکشن کروانے کے لیے، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں، جب ہم ووٹر کی بات کر رہے ہیں تو ساڑھے آٹھ لاکھ پی ٹی آئی کے ممبران کا حق کدھر گیا؟ یہاں آدھی بات نہ کریں۔

اس پر وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ کہیں نہیں لکھا کہ عام انتخابات سے قبل کوئی لسٹ دی جائے، مخصوص نشستوں کے لیے ترمیم شدہ شیڈیول بھی دیا جاسکتا ہے، آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں تو ان کی فہرست بعد میں دی جاسکتی ہے۔

پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے، عدالت

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کے مفروضے کو مان لیں تو ایک نیا نظام آجائے گا، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں 11 بج کر 30 منٹ تک وقفہ کر دیا۔

سماعت کے دوبارہ آغاز پر جسٹس جمال مندوخیل نے رہیمارکس دیے کہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ الیکشن کمیشن مقرر کرتا ہے، کیا پی ٹی آئی نے امیدواروں کی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع کرائی تھی؟ وکیل نے بتایا کہ ہم نے امیدواروں کی فہرست جمع نہیں کرائی تھی، مخصوص نشستوں میں لسٹ کا نہیں شیڈیول کا مسئلہ ہے۔

’اگر سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں تو آزاد امیدواروں کی مخصوص نشستوں کا کیا ہوگا؟‘

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ کی جماعت سیاسی جماعت ہے؟ اگر سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت نہیں تو آزاد امیدواروں کی مخصوص نشستوں کا کیا ہوگا؟ متناسب نمائندگی کا اصول سنی اتحاد کونسل پر کیسے لاگو ہوگا؟ کیا آزاد امیدواروں کی مخصوص نشستیں خالی رہیں گی؟

وکیل نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جاسکتیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جو جماعت سیاسی نہیں اور الیکشن نہیں لڑی اس کی مخصوص نشستیں کہاں جائیں گیں؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے خیال میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں، سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کے لیے طریقہ کار دیکھنا پڑے گا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے وکیل سنی اتحاد کونسل سے مکالمہ کیا کہ آپ سیکشن سے ایک لفظ لے کر اپنے کیس کو نہیں چلا سکتے، وکیل نے کہا کہ مخصوص نشستیں الیکشن کے بعد ملتیں ہیں تو الیکشن کمیشن نیا شیڈول جاری کرے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ نے بتانا ہے کہ آپ سیاسی جماعت ہیں لسٹ کو ہم بعد میں دیکھ لیتے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعت کو جیتی گئی نشستوں سے زیادہ نہیں مل سکتیں، میرا نقطہ یہ ہے کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں چھوڑی جا سکتیں۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے تو شروع میں کہا تھا کہ ایک رکن بھی پارلیمنٹ میں خالی نہیں چھوڑا جا سکتا، کیا سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا منشور ایک ہے؟

وکیل نے کہا کہ نہیں سنی اتحاد کونسل کا منشور پی ٹی آئی سے الگ ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ کل کو سنی اتحاد کونسل کے ارکان یہ جماعت بھی چھوڑ جائیں تو کیا ہوگا؟ وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد سیاسی جماعت ہے یا نہیں اس پر سوال اٹھا ہی نہیں، الیکشن کمیشن نے اقرار کیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت ہے، اگر سپریم کورٹ اپیل منظور کرتی تو پھر تین روز میں فہرست دینے کی اسٹیج سے نشستوں کے حوالے سے کام شروع ہوگا۔

وکیل نے مزید کہا کہ چیف جسٹس صاحب نے ایک سوال پوچھا تھا اس کا جواب بھی دیتا ہوں، اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا میرے سوال کا جواب دینے کے لیے آپ کو باقی ججز کی اجازت چاہیے؟ وکیل نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے۔

بعد ازاں جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل کا آئین خواتین اور غیر مسلم کو ممبر نہیں بناتا کیا یہ درست ہے؟ وکیل نے کہا کہ خواتین کو نہیں غیر مسلم کی حد تک یہ پابندی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ پاکستان کا جھنڈا دیکھیں اس میں کیا اقلیتوں کا حق شامل نہیں؟ قائد اعظم کا فرمان بھی دیکھ لیں، کیا آپ کی پارٹی کا آئین آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں؟ بطور افسر آف کورٹ اس سوال کا جواب دیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ میں اس سوال کا جواب اس لیے نہیں دے رہا کہ یہ اتنا سادہ نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن آج بھی پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت مانتا ہے، ایوان کو نامکمل نہیں چھوڑا جا سکتا، میری نظر میں ایوان کو مکمل کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن ووٹرز کے حقوق کا محافظ ہونے کے بجائے مخالف بن گیا ہے، مخصوص نشستیں سنی اتحاد کو ملنی ہیں یا پی ٹی آئی کو یہ الیکشن کمیشن نے طے کرنا تھا، ہمارے ہوتے ہوئے بھی بنیادی حقوق پامال ہو رہے ہیں ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے، ملک آئین کے مطابق چلا ہی کب ہے؟

وقت آ گیا ہے کہ ملک آئین کے مطابق چلایا جائے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ ملک آئین کے مطابق چلایا جائے۔

اسی کے ساتھ وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہوگئے۔

بعد ازاں وکیل اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد جان درانی نے دلائل کا آغاز کر دیا، انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ خلاف آئین ہے، فیصل صدیقی تفصیل سے دلائل دے چکے، ہماری تین درخواستیں تھیں عدالت چاہے تو بعد میں معاونت کے لیے تیار ہوں۔

اس کے ساتھ ہی وکیل اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کے دلائل مکمل ہوگئے۔

بعد ازاں پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کردیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کنول شوزب کس کی طرف سے ہیں؟ پی ٹی آئی کا تو کیس ہی نہیں ہم تو سنی اتحاد کونسل کا کیس سن رہے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا کنول شوزب سنی اتحاد کونسل کی لسٹ میں شامل ہیں؟

سلمان اکرام راجا کا کہنا تھا کہ ہم سے سنی اتحاد کونسل نے لسٹ لی ہی نہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو ایسے نہیں سن سکتے، کنول شوزب پی ٹی آئی سے ہیں یا سنی اتحاد کونسل سے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے، بنیادی حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں کہ کنول شوزب مخصوص نشست کے لیے امیدوار ہیں، وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی کی لسٹ میں ہیں مگر سنی اتحاد کونسل نے لسٹ لی ہی نہیں، میری مؤکلہ نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی ویمن ونگ کی صدر ہیں، الیکشن ایکٹ کے مطابق کوئی شخص دو جماعتوں کا رکن نہیں ہو سکتا، کنول شوزب کوپہلے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونا پڑے گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ کنول شوزب کیا اکیلی تھیں جو سنی اتحاد کونسل میں نہیں گئیں؟ وکیل سلمان اکرم نے بتایا کہ کنول شوزب عام انتخابات میں منتخب نہیں ہوئیں، مخصوص نشستیں پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کو ملنے پر انہیں منتخب ہونا تھا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے، تو یہ متاثرہ فریق ہیں، مگر اس سب کے درمیان پی ٹی آئی کہاں ہے؟

وکیل نے بتایا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی سے ہی ہیں، جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ لیکن آپ نے کیس تو سنی اتحاد کونسل کا بنایا ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے سلمان اکرم سے مکالمہ کیا کہ آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سلمان راجا صاحب، آپ اس عدالت کے سامنے ہیں جو بنیادی حقوق کی محافظ ہے، اس عدالت کے سامنے 8 فروری کے الیکشن سے متعلق بھی کیس زیر التوا ہے، ہر غیر متعلقہ کیس پر سو موٹو لیا جاتا رہا یہ تو پرفیکٹ کیس تھا۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ دلائل کے لیے کتنا وقت لیں گے؟ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ میں ایک گھنٹے سے زائد وقت لوں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایک گھنٹہ آپ کو نہیں دے سکتے، اس کیس کو ہم اتنا طویل نہیں کر سکتے، ہزاروں دیگر مقدمات زیر التوا ہیں، آپ زیر التوا مقدمات والوں پر تھوڑا رحم کر لیں۔

بعد ازاں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں جسٹس اطہر من اللہ سے وسیع تناظر میں متفق ہوں، میری رائے میں پی ٹی آئی کو ہمارے سامنے آنا چاہیے تھا، پی ٹی آئی کو آکر کہنا چاہیے تھا یہ ہماری نشستیں ہیں۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا ایسے حالات تھے کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں جانا پڑا؟ کیا پی ٹی آئی کو پارٹی نہ ماننے والے آرڈر کے خلاف درخواست اسی کیس کے ساتھ نہیں سنی جانی چاہیے؟ وکیل نے جواب دیا کہ لاہور ہائی کورٹ میں خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کے لیے رجوع کیا، ہائی کورٹ نے کہا انتخابات قریب ہیں مداخلت نہیں کر سکتے، الیکشن کمشین نے 2 فروری کا حکم 7 فروری کو جاری کیا، سپریم کورٹ نے ہماری اپیل واپس کر دی۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اپیل کی واپسی تسلیم کر لی تو بات ختم، اگر رجسٹرار آفس کے کسی اقدام پر اعتراض تھا تو چیلنج کر دیتے، رجسٹرار آفس اور سپریم کورٹ میں فرق ہوتا ہے، جسٹس عائشہ ملک نے دریافت کیا کہ رجسٹرار آفس کا کیا اعتراض تھا؟ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کر دیے تھے، رجسٹرار آفس نے کہا انتخابی عمل نشان الاٹ کرنے سے آگے بڑھ چکا ہے۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ اہم ترین معاملہ تھا لیکن آپ نے اپیل دائر نہیں کی، چیمبر اپیل دائر نہ کرنے سے اہم ترین معاملہ غیر مؤثر ہوگیا، جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا چیمبر اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ تکنیکی معاملات میں جانے کے بجائے عدالت 184/3 کا اختیار کیوں نہیں استعمال کر سکتی؟ عدالت خود کو اپیلوں تک کیوں محدود کر رہی ہے، آرٹیکل 184/3 کا نوٹس لینے میں کیا امر مانع ہے؟

جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل اگر بیان دے کہ کنول شوزب ان کی امیدوار ہوں گی تو درخواست سن سکتے ہیں۔

الیکشن میں حصہ لیے بغیر کوئی جماعت سیاسی کیسے ہوگی؟ عدالت

بعد ازاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ہیں، سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ میں کسی کا کیس تباہ نہیں کر رہا، سمجھ نہیں آ رہا آپ بار بار یہ کیوں کہہ رہے ہیں؟

بعد ازاں وکیل نے کہا کہ میرے دلائل آئینی تشریح والے معاملے پر فیصل صدیقی سے مختلف ہیں، میری رائے میں کسی پروگریسو تشریح کی ضرورت نہیں، آئین کی زبان ہی کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کا کہتی ہے پارلیمانی میں نہیں۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی تو اس وقت ابھی موجود نہیں ہوتی اس لیے ایسا ہے، وکیل سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ لیکشن ایکٹ کے مطابق سیاسی جماعت وہ ہے جو رجسٹرڈ ہو،سیاسی جماعت کے لیے الیکشن میں حصہ لینا لازمی نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ الیکشن میں حصہ لیے بغیر کوئی جماعت سیاسی کیسے ہوگی؟

وکیل نے مزید کہا کہ کہا جا رہا تھا پی ٹی آئی کالعدم ہو جائے گی، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی میں کوئی وکیل نہ ہوتا، پہلا الیکشن لڑ رہی ہوتی تو ہم یہ مفروضے سنتے، ہم اگر مجبوریوں پر جائیں تو ملک نہیں چلے گا، کل کوئی کہے گا مجبوری ہے سگنل پر رک نہیں سکتا، کسی نے غلط ایڈوائس دی ہے۔

4 ججز بٹھا کر آئین کو بدلا نہیں جاسکتا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی

وکیل نے جواب دیا کہ ایسا ہو سکتا ہے شاید مگر یہ فیصلہ تھا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ تو یہ مشورہ دینے والے پر کیس کریں، آئین پاکستان کے لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے، آئین کو سمجھنے کے لیے کسی وکیل کی ضرورت نہیں ہے، آئین کی اہمیت ہے، 4 ججز بٹھا کر آئین کو بدلا نہیں جاسکتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہاں عوام کے حق پر ڈاکا ڈالا گیا، فاطمہ جناح نے انتخابات میں حصہ لیا تو تب بھی عوام سے حق چھینا گیا، مکمل سچ کوئی نہیں بولتا، وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے کہ سیاسی بیانات میں نہیں جاوں گا آئین و قانون پر دلائل دوں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی غلط تشریح کرے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ وکیل نے بتایا کہ ہم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا الیکشن کمیشن بھی گئے، چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار سپریم کورٹ کا نہ کہیں رجسٹرار کے پاس جوڈیشل پاور نہیں، بعد ازاں جسٹس جمال مندوخیل نے دریافتا کیا کہ رجسٹرار کے اعتراضات کے خلاف چیمبر اپیل دائر کیوں نہیں کی؟

بعد ازاں چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجا کو آئین کی کتاب دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ آئین عوام کے منتخب نمائندوں نے بنایا ہے، آئین جو واضح ہے اس پر عمل کریں، یہ سیدھا سادہ آئین ہے، آپ بار بار عوامی منشا کی بات کر رہے ہیں پھر تو سیدھا سب نشستوں پر الیکشن ہونے چاہیے، جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ عوامی منشا کی ہی بات کریں تو لوگوں نے ووٹ پی ٹی آئی کو دیا تھا، کیا ووٹرز کو پتہ تھا آپ سنی اتحاد کونسل میں جائیں گے؟

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سلمان اکرم راجا صاحب سچ بول دیں، مجھے نہیں سمجھ آرہا کہ ہر کوئی سچ کو دبانا کیوں چاہتا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہم کہہ رہے ہیں ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کریں، پھر سارا امیدوار کو کیسے دیا جا سکتا ہے وہ کسی بھی جماعت میں جائے؟

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ ہم سے ایسی چیز پر مہر لگوانا چاہتے ہیں جو مستقبل میں سیاسی انجینئرنگ کا راستہ کھولے؟ یا تو آپ پوری طرح سے سچ بول دیں کہ فاطمہ جناح کے الیکشن سے اب تک کیا ہوا ہے۔

سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ہمیں جماعت ماننے سے انکار کیا ہم سپریم کورٹ تک گئے، چیف جسٹس نے کہا کہ لوز بال نہ کھیلیں، آپ سپریم کورٹ نہیں آئے، رجسٹرار آفس کا اعتراض جوڈیشل آرڈر نہیں ہوتا، جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا حالات تھے کہ آپ نے رجسٹرار اعتراضات کے خلاف اپیل دائر نہیں کی؟ آپ آج بھی وہ اپیل دائر نہیں کر رہے۔

سنی اتحاد والوں کا موڈ بدلا تو آپ کہیں کے نہیں رہیں گے، عدالت

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ خود غلط تشریح کرتے رہے ہیں تو ہم کیا کریں میرے حساب سے آپ کا کیس اچھا ہوتا اگر آپ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی جوائن کرتے، کل سنی اتحاد کونسل کو کنٹرول کرنے والوں کا موڈ بدلا تو آپ کہیں کے نہیں رہیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں 2 بج کر 40 منٹ تک وقفہ کردیا۔

وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوگیا۔

دوران مدت آزاد امیدوار کسی بھی وقت اسمبلی کو جوائن کر سکتا ہے، سلمان اکرم راجا

سلمان اکرم راجا نے دلائل کا دوبارہ آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا کہنا کہ 86 ممبران کی کوئی حیثیت نہیں اسمبلی کو غیر متوازن بناتا ہے، دوران مدت آزاد امیدوار کسی بھی وقت اسمبلی کو جوائن کر سکتا ہے، آئین کا مقصد پارلیمنٹ کو کسی سیاسی جماعت سے نمائندگی کروانا ہے۔

اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یعنی آزاد امیدواروں کو سیاسی جماعت میں شامل ہونا چاہیے اور ایسی بات سمجھ بھی آتی، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آزاد امیدواروں کو بھی ووٹ دیا جاتا ہے، دیکھنا ہوگا کہ آزاد امیدواروں کا کسی جماعت سے منسلک ہونا ضروری ہے یا نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بات تو ماننے والی ہے مجموعی طور پرتحریک انصاف نے برے انداز میں کیس کو چلایا، وکیل نے جواب دیا کہ عدالت کے سامنے چودہ مختلف فیصلے رکھوں گا، جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ کیا آپ سنی اتحاد یا پی ٹی آئی کو چاہتے ہیں؟ صرف درخواست گزار کی بات ہو رہی ہے، سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صرف درخواست گزار کی انفرادی بات نہ کی جائے، جسٹس جمال نے کہا کہ آپ ہمارے سوالات کے جوابات نہیں دے رہے، وکیل نے بتایا کہ میں عدالت سے معذرت خواہ ہوں۔

جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنی درخواست گزار کی بات کریں دوسروں کی بات کیسی کر رہے ہیں، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا آپ کی غلطیوں کا حل ہم ڈھونڈیں؟ ہم نے الیکشن کمیشن کو نہیں منظور کیا، آپ نے کیا، غلطیاں تو کی نا، کنول شوزب کوئی عوام کی نمائندہ نہیں ہیں۔

اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2018 میں ایک سیاسی جماعت مشکلات کا شکار تھی، 2024 میں بھی ہے، جسٹس قاضی فائز نے بتایا کہ اگر آپ کو الیکشن کمیشن میں خرابی محسوس ہوئی درخواست دائر کریں یا قوانین میں ترامیم کریں، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، عزت کا حقدار ہے، یہی مسئلہ ہے کہ پاکستان میں کچھ پھلنے پھولنے نہیں دیاجاتا، سپریم کورٹ بھی عزت کے ساتھ برتاؤ کی حقدار ہے۔

کیا عوام کو انتخابات کے سسٹم پر بھروسہ ہے؟ عدالت

جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا 86 ممبران نے کاغذات جمع کرواتے وقت کہا کہ تحریک انصاف کے ہیں؟ کیا عوام کو انتخابات کے سسٹم پر بھروسہ ہے؟ کیوں سچ نہیں بول سکتے؟ وکیل کنول شوزب نے جواب دیا کہ میرا دل کچھ اور کہہ رہا ہے لیکن مجھے دماغ کے ساتھ دلائل دینے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعتوں سے کسی کو اختلاف نہیں، آزاد امیدواروں کو کوئی تو شناخت ملے، وکیل نے جواب دیا کہ ایسا نہیں کہہ سکتےکہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعت کی معاشرے میں کوئی حیثیت نہیں، میں بطور آزاد امیدوار ہی کیس کو دیکھ رہا، بطور پی ٹی آئی امیدوار نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سلمان اکرم راجا صاحب آپ جزبات میں دلائل دے رہے ہیں جب سی ٹی اسکین کروانے جائیں تو ایک گولی دیتے ہیں جو ریلیکس کر دیتی ہے، از راہ تفنن بات کر رہا ہوں سلمان اکرم راجا صاحب آپ بھی وہ گولی کھا لیا کریں۔

اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ جمعیت علمائے اسلام میں بھی شامل ہوسکتےتھے، کس کی رائے تھی سنی اتحاد میں شامل ہونے کی؟ سلمان اکرم نے بتایا کہ ممکن تھا کہ دیگر جماعتوں کے ساتھ سیاسی ذہنیت نہ ملے، جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ کیا آپ اپنے ووٹرز کا حق دے رہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ ہمیں الیکشن کمیشن نے ایسا کرنے پر مجبور کیا، ووٹرز ہمارے ساتھ ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ اچکزئی صاحب کی جماعت میں بھی جا سکتے تھے، وکیل نے بتایا کہ ہمیں ایسی جماعت کی تلاش تھی جس کے ساتھ چل سکیں کل وہ ہم میں ضم ہو سکے، جسٹس جمال مندوخیل نے بتایا کہ آپ کو انتخابی نشان والے کیس میں بھی کہا تھا مخصوص نشستوں کا مسئلہ ہو تو عدالت آجانا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ عدالتی فیصلے کی غلط تشریح سے مسئلہ پیدا ہوا تو کیا یہ عدالت اسے درست کر سکتی ہے؟ وکیل نے بتایا کہ اگر عدالت آرٹیکل 187 کے تحت مکمل انصاف کرے تو میں اسے عظیم فیصلہ کہوں گا، پاکستان کے عوام بھی اس فیصلے پر جشن منائیں گے، سنی اتحاد نے انتخابات سے قبل اعلان کیا کہ تحریک انصاف میں ضم ہو جائیں گے، جب تحریک انصاف بطور ازاد انتخابات لڑی تو حامدرضا نے بھی آزادامیدوار الیکشن لڑا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ حامدرضا اپنی ہی جماعت سے الیکشن نہیں لڑے ؟ وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ حامد رضا بطور تحریک انصاف امیدوار الیکشن لڑ رہے تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو یہی نہیں معلوم کہ حامد رضا نے اپنے کاغذات میں کس پارٹی کا نام لکھا؟

اس پر وکیل سنی اتحاد فیصل صدیقی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حامدرضا نے بطور آزادامیدوار انتخابات میں حصہ لیا، چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کیا کہ آپ کو کنول شوزب کا معلوم نہیں، حامدرضا نے کیوں آزادامیدوار الیکشن لڑا، سنی اتحاد کہاں ہے؟

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ انتخابات کے شیڈول کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے، جسٹس یحیی آفریدی نے دریافت کیا کہ اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی کون ہے؟ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ فی الحال گوہرعلی خان چیئرمین تحریک انصاف ہیں، الیکشن کمیشن نے انہیں آزادامیدوار دیکھا لیکن گوہر علی خان نے سنی اتحاد میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کیس کو کل سے آگے لے کر نہیں جائیں گے، الیکشن کمیشن کے وکیل کل صاحبزادہ حامد خان کے کاغذات نامزدگی لے کر آئیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ 2018 میں صاحبزادہ حامد رضا نے تحریک انصاف کے امیدوار کے خلاف الیکشن لڑا تھا، 23 جنوری کو تحریک انصاف کے امیدواران کی فہرست جاری کی، اس فہرست میں صاحبزادہ حامد رضا کا نام شامل تھا، پھر صاحبزادہ الیکشن لڑ کر جیت جاتے ہیں تو اب انکا لیگل اسٹیٹس کیا ہے، ان کا چیئرمین بھی آزاد ہو کر الیکشن لڑا۔

بعد ازاں چیف جسٹس نے کہا بعض اوقات ضرورت پڑتی ہے سوالات کی، آپ کی مرضی ہے انکو بلائیں یا نہ۔

اسی کے ساتھ عدالت نے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ دو روز قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان نے درخواست پر سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کروادیا تھا جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ ایس آئی سی کے آئین کے مطابق غیر مسلم اس جماعت کا ممبر نہیں بن سکتا، سنی اتحاد کونسل آئین کی غیر مسلم کی شمولیت کے خلاف شرط غیر آئینی ہے، اس لیے وہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں ہے۔

4 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتی سارے مسئلے حل ہو جاتے، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا سارے تنازع کی وجہ بنا۔

3 جون کو سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی باتیں نہ کی جائیں۔

31 مئی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی اپیلوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دے دیا تھا۔

4 مئی کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کے مقدمے کی سماعت کی مقرر کردہ تاریخ تبدیل کردی تھی۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

کیس کا پس منظر

واضح رہے کہ 6 مئی سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

یاد رہے کہ 4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردیں تھی۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا ہے۔

چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔

الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جو یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

بعد ازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2024
کارٹون : 17 دسمبر 2024