گندم خریداری کیس: وزیر اعلٰی بلوچستان عدالت میں پیش
گندم خریداری کیس میں وزیر اعلٰی بلوچستان سرفراز بگٹی بلوچستان ہائی کورٹ میں پیش ہوگئے۔
ڈان نیوز کے مطابق عدالت میں گندم خریداری کیس کی سماعت بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہاشم کاکڑ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی، سماعت کے دوران وزیر اعلٰی بلوچستان اور چیف سیکریٹری بلوچستان عدالت میں پیش ہوئے۔
اس موقع پر بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ محکمہ خوراک کے گوادموں میں پڑی گندم خراب ہورہی ہے، اس وقت محکمہ خوراک کے گوداموں میں 8 لاکھ 50 ہزار بوریاں پڑی ہیں اور مزیدکی گنجائش نہیں، جگہ نہیں ہے، گندم خراب ہو رہی ہے اور آپ مزید 5 لاکھ بوری گندم خریدنے جا رہے ہیں، 2013 سے اب تک محکمہ خوراک پر بضابطگیوں کے بہت سے کیسز ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ غریب صوبے کے عوام کے 5 ارب روپے نہ ڈبوئے جائیں، چینی، گھی، نمک اور باقی چیزیں بھی ضرورت کی ہیں پھر ان اشیا کے لیے عوام کے ٹیکس کے پیسے سبسڈی کی مد میں رکھو گے؟ غریب صوبے کے پی ایس ڈی پی پر ترس کھائیں۔
اس موقع پر وزیر اعلٰی بلوچستان نے کہا کہ عدالت میں آنے پر خوشی محسوس کرتے ہیں، ہماری انا مجروع نہیں ہوئی، کابینہ اجلاس میں چیف سیکریٹری اور میں گندم خریداری کےحق میں نہیں تھے، ہم مڈل مین کے بجائے عام کسان کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے اطلاعات ملتی رہی کہ فائدہ کسانوں کے بجائےکوئی اور اٹھا رہا ہے۔
سرفراز بگٹی نے بتایا کہ اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سےگزشتہ سماعت میں پیش نہیں ہوسکا تھا، گندم محفوظ کرنے کے لیے سیکریٹری اور دیگرحکام سے ملاقات نہیں ہوسکی مجھے مزید ایک دن کی مہلت دی جائے،کل عدالت میں آکر تفصیلا آگاہ کروں گا۔
اس پر چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ایک دن نہیں ہم 10 دن کی مہلت دیں گے لیکن کام چاہیے۔
وزیر اعلی نے بتایا کہ کل صبح ساڑھے 9 بجے آکر عدالت کو مطمئن کروں گا۔
بعد ازاں عدالت نے گندم خردبرد کیس کی سماعت کل صبح تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ 11 جون کو بلوچستان ہائی کورٹ نے گندم سے متعلق کیس میں وزیر اعلی کو طلب کرتے ہوئے گندم کی خریداری کے خلاف حکم امتناع میں توسیع کردی تھی۔
واضح رہے کہ ملک میں گندم کے وافر ذخائر موجود ہونے کے باوجود نگران حکومت کے دور میں بڑے پیمانے پر گندم کی درآمد کے انکشافات سامنے آئے ہیں۔
یہ بات بھی سامنے آئی کہ موجودہ حکومت کی اب تک کی مدت میں بھی گندم کی درآمد کا سلسلہ جاری رہا۔
13 مئی کو لاہور ہائی کورٹ میں گندم اسکینڈل کی تحقیقات قومی احتساب بیورو (نیب) سے کرانے کے لیے درخواست دائر کردی گئی تھی۔
6 مئی کو وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین نے 2023-24 کے دوران درآمد کی گئی کیڑے سے متاثرہ گندم کے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انکوائری کمیٹی نے اب تک انکشاف کیا ہے کہ نگران حکومت نے اگست 2023 سے مارچ 2024 کے دوران 330 ارب روپے کی گندم درآمد کی ہے، جس میں 13 ملین ٹن گندم فنگس کی وجہ سے انسانی استعمال کے قابل نہیں ہے۔
اسی اثنا میں سابق نگران وزیراعظم کی مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کے ساتھ گندم بحران کے معاملے پر بحث ہوئی تھی، حنیف عباسی نے مبینہ طور پر گندم اسکینڈل کے لیے انوار الحق کاکڑ کی سرزنش کی جبکہ سابق نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر وہ ’فارم 47‘ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو مسلم لیگ (ن) کے رہنما عوام کے سامنے آنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔
پی ٹی آئی بھی اس معاملے میں کود پڑی تھی اور انوار الحق کاکڑ اور حنیف عباسی کے درمیان ہونے والے جھگڑے کی روشنی میں گندم اسکینڈل کی شفاف تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کا مطالبہ کیا تھا۔
دریں اثنا، ترجمان پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ انوار الحق کاکڑ اور حنیف عباسی کے انکشافات آنکھ کھولنے کے لیے کافی ہے، اور اس نے بہت سے اہم سوالات کو جنم دیا ہے، جن کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔