• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

اسٹے آرڈرز کے باعث ایف بی آر کو مالی سال 2024 کے ہدف سے 175 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا

شائع June 7, 2024
— فائل فوٹو: ثوبیہ شاہد
— فائل فوٹو: ثوبیہ شاہد

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے رواں مالی سال 2023-2024 میں 175 ارب روپے کے شارٹ فال کا تخمینہ لگایا ہے، کیونکہ اعلیٰ عدالتوں نے حکومت کی جانب سے امیروں پر ٹیکس لگانے کے اعلان کردہ نئے اقدامات پر عمل درآمد کو معطل کر دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو ایک ٹیکس اہلکار نے ڈان کو بتایا ہم نے وزیر اعظم شہباز شریف کو اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی وجہ سے پھنسی ہوئی رقم کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے۔

عدالتوں نے سپر ٹیکس اور ونڈ فال انکم ٹیکس کی وصولی روک دی ہے۔

اہلکار کے مطابق، چونکہ عدالتوں میں زیر التوا 90 فیصد مقدمات بینکوں اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں سمیت بڑے ٹیکس دہندگان سے متعلق ہیں، اس لیے اس ماہ کے آخری 10 دنوں کے دوران ان سے آسانی سے ٹیکس وصول کیا جائے گا، انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے میں اٹارنی جنرل پاکستان سے مدد مانگی گئی ہے۔

گزشتہ بجٹ میں، حکومت نے 400 ارب روپے سے زیادہ کے امیر ٹیکس دہندگان پر نئے ٹیکس اقدامات عائد کیے تھے۔

اہلکار نے بتایا کہ ہم نے وزیر اعظم سے 20 جون سے پہلے ان معاملات کو حل کرنے کی درخواست کی ہے، بصورت دیگر موجودہ مالی سال کے لیے 94 کھرب روپے کا ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف بڑے مارجن سے چھوٹ جائے گا۔

سپریم کورٹ نے امیر ٹیکس دہندگان کو ہدایت کی کہ وہ رواں سال فروری میں سپر ٹیکس کا 50 فیصد جمع کرائیں، نتیجے کے طور پر، ٹیکس اہلکار کے مطابق، اب کمی 200 ارب روپے سے کم ہونے کی توقع ہے۔

مالی سال 2024 کے 11 مہینوں میں ایف بی آر نے 81 کھرب 62 ارب کے ہدف کے مقابلے 81 کھرب 22 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا، ایف بی آر کو مالی سال 2024 کے بجٹ کے 94 کھرب 15 ارب کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے اس ماہ 12 کھرب 53 ارب روپے اکٹھے کرنے کی ضرورت ہوگی۔

جون کے ہدف کا تخمینہ 11 کھرن 78 ارب روپے لگایا گیا تھا، لیکن پچھلے مہینوں کے بیک لاگ کی وجہ سے اب اس میں 75 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔

فنانس ڈویژن، ایف بی آر، اور آئی ایم ایف کے 2024-2025 کے مختلف محصولات کی وصولی کے اہداف ہیں، عہدیدار نے کہا کہ تینوں کے حساب کی بنیاد پر مختلف تخمینے ہیں۔

اہلکار کے مطابق آنے والے بجٹ کے لیے ٹیکس لگانے کے اقدامات کے حوالے سے اختلاف ہے، ان فرقوں کا رقم کے لحاظ سے اثر 500 ارب سے 18 کھرب تک ہے۔

مزید آمدنی پیدا کرنے کی کوشش میں، حکومت موجودہ ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ کرنے اور سیلز ٹیکس کی چھوٹ کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو کہ سیاسی طور پر ایک حساس معاملہ ہے۔

ایف بی آر کے تخمینوں کے مطابق، مالی سال 2025 میں خود مختار محصولات کی وصولی (جی ڈی پی نمو اور افراط زر کی بنیاد پر) تقریباً 11 کھرب 50 ارب روپے ہوگی، اس کے علاوہ وفاقی حکومت آئندہ مالی سال کے لیے آئی ایم ایف کی مشاورت سے ریونیو اقدامات کا جائزہ لے گی۔

آئی ایم ایف کی حالیہ تکنیکی میٹنگز کے دوران، اخراجات کے تخمینوں کی بنیاد پر، ایف بی آر کے ریونیو کا ہدف 124 کھرب روپے سے 126 کھرب روپے کے درمیان رہنے کا تخمینہ لگایا گیا تھا، تاہم، مالی سال 2025 کے لیے فنانس ڈویژن کا ابتدائی تخمینہ 130 کھرب روپے ہے۔

اہلکار نے کہا ان دو تخمینوں کے برعکس، ایف بی آر نے تخمینہ لگایا ہے کہ 2024-2025 کے لیے محصولات کی وصولی 12 کھرب روپے ہوگی، تاہم، ریونیو کی وصولی کے حتمی ہدف کا تعین فنانس ڈویژن کرے گا۔

اہلکار کے مطابق ٹیکس کا اصل ہدف اس وقت طے کیا جائے گا جب حکومت افراط زر اور جی ڈی پی کی نمو کے اعداد و شمار جاری کرے گی، حکومت کو آئندہ مالی سال میں بھی درآمدات بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔

آئی ایم ایف نے حکومت سے کہا ہے کہ تنخواہ کے سلیب کو پنشنرز کی آمدنی سے ملایا جائے، تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

مالیاتی فنڈ نے ایف بی آر سے کہا ہے کہ وہ تاجروں اور ہول سیلیرز سے ٹیکس وصول کرے، جو فی الحال ٹیکس وصولی میں حصہ نہیں ڈال رہے ہیں، آئی ایم ایف کی توجہ سیلز اور انکم ٹیکس پر ہے، خاص طور پر ودہولڈنگ ٹیکس، فی الحال، سیلز ٹیکس کی چھوٹ 12 کھرب روپے سے زیادہ ہے۔

حکومت کو خوراک، بین الاقوامی معاہدوں اور دواسازی کی مصنوعات کے لیے استثنیٰ کو منسوخ کرنے کے مشکل فیصلے کا سامنا کرنا پڑے گا، کچھ اشیا جیسے کیڑے مار ادویات اور سولر پینل، سیلز ٹیکس کے تابع ہو سکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی، حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ موجودہ ودہولڈنگ ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ کرے گی اور نئے متعارف کرائے گی، جیسے کہ بینکوں سے نقد رقم نکالنے پر ٹیکس کو بحال کرنا۔

مزید برآں، وزارت خزانہ مستثنیٰ خام مال کی درآمد پر ٹیکس عائد کرنے پر غور کر رہی ہے جبکہ موجودہ خام مال پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر رہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024