سمندری مخلوقات کو لاحق خطرات اور سسٹینیبل فشنگ کی ضرورت
عبدالرحیم ناشتہ کرکے علی الصبح شکار کرنے کے لیے گھر سے نکلتا ہے۔ گھر سے کچھ دور اس کی ملاقات اپنے 8 ساتھیوں سے ہوتی ہے جن کے ہمراہ وہ کشتی پر سوار ہوکر ماہی گیری کے لیے سمندر میں جاتا ہے لیکن دن بھر جال ڈالنے کے باوجود اس کے جال میں اتنی مچھلیاں نہیں ہوتیں جنہیں بیچ کر وہ اور اس کے 8 ساتھی دو دن تک شکار کیے بغیر گزارا کرسکیں۔
دنیا بالخصوص ترقی پذیر ممالک ماہی گیری کے نئے طریقہ کار کے حوالے سے آگہی کم ہونے کی وجہ سے اپنے پانیوں میں مچھلیوں کی کم ہوتی تعداد کا سامنا کررہے ہیں۔ پاکستان میں اب بھی کئی ماہی گیر عام سے دھات کے بنے جالوں کو سمندر میں پھینک کر مچھلیاں پکڑتے ہیں جن سے سمندری مخلوقات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ جو پکڑی جاتی ہیں وہ الگ لیکن جو جال سے بچ کر نکل جاتی ہیں، یہ جال ان کے فنز کو کاٹ دیتے ہیں جن کی وجہ سے وہ تیر نہیں پاتیں اور مفلوج ہوجاتی ہیں۔ مفلوج مچھلیاں شکار نہیں کرپاتیں اور یوں وہ مر جاتی ہیں۔ اس طرح ہمارے ایکو سسٹم کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے۔
ذرا سوچیے کہ جب آپ ساحلِ سمندر پر جاتے ہیں بالخصوص کراچی کے ساحلوں پر جالوں کا پیروں میں لپٹ جانا توعام بات ہے، ہمیں یہ کتنا ناگوار گزرتا ہے۔ پاکستان کے سمندر میں یہ سمندری مخلوقات کے ساتھ ہوتا ہے۔ مچھیرے جال کاٹ کر سمندر میں پھینک دیتے ہیں جو کچھوؤں کے گرد لپٹ جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے پیروں میں جال لپٹنا اتنا ناگوار گزرتا ہے تو اس بے زبان جانور پر کیا گزرتی ہوگی جو جال کو اپنے اوپر سے ہٹا بھی نہیں سکتا۔
ہماری زمین کا 71 فیصد حصہ سمندر پر مشتمل ہے یہی وجہ ہے کہ 90 فیصد حیات بھی سمندر میں ہی پائی جاتی ہیں۔ ہم مانتے نہیں لیکن یہی وہ سمندری حیات ہیں جن کی وجہ سے ہم کچھ حد تک صاف آکسیجن اپنے پھیپھڑوں میں لے سکتے ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق مچھلیاں اپنے فضلے کے ذریعے سمندر میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کو توڑ کر اس سے آکسیجن بناتی ہیں جو زمینی مخلوقات کو 80 فیصد آکسیجن فراہمی کا ذریعہ ہے لیکن انسان اپنے ہاتھوں سے صاف ہوا کی فراہمی کا سب سے بڑا وسیلہ خود تباہ کررہا ہے۔
میں جتنا اس موضوع کے بارے میں سوچتی رہی اتنا ہی زیادہ میں نے ہم انسانوں کو قصوروار پایا۔ ڈولفنز کو اس کے خاندان سے جدا کرکے قید کرنا ہو یا تیل کے فوائد اور گوشت کی وقتی لذت کی خاطر نایاب وہیل کا شکار، ٹونا سمیت نایاب مچھلیوں کی بلیک میں فروخت ہو یا بلیک ہول سمجھ کر سمندر میں فضلہ اور پلاسٹک ڈالنا۔۔۔ آج اگر عالمی سمندر میں سمندری حیات تیزی سے ختم ہورہی ہیں تو اس کے قصوروار ہم خود ہیں۔
سمندری حیات کو لاحق خطرات
اگر ہم عالمی منظرنامے کی بات کریں تو صورت حال زیادہ سنگین ہے کہ جہاں مختلف نسل کی متعدد سمندری مخلوقات نایاب ہوچکی ہیں۔
نیشنل جیوگرافک کے مطابق دنیا بھر کے ماہی گیر ایک سال میں تقریباً 77 ارب کلوگرام مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔ اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ یہ تعداد اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو ایک وقت ایسا آئے گا جب ہمارے سمندر میں حیات نہ ہونے کے برابر ہوگی۔
اب بلیو ٹونا مچھلی کی ہی مثال لے لیں جس کا شکار پاکستان سمیت دنیا بھر کے سمندروں میں ہوتا ہے۔ ٹونا کا گوشت لوگ خوب پسند کرتے ہیں جبکہ اس سے سوشی بہت اچھی بنتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 1970ء میں جتنی ٹونا مچھلی سمندر میں پائی جاتی تھی آج اس کی آبادی اس وقت کے مقابلے میں صرف 21 فیصد رہ گئی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اس کی محض ایک مختص تعداد کے شکار کی اجازت ہے لیکن اب بھی جاپان اور جنوبی کوریا جیسے سوشی کے شوقین ممالک میں ٹونا کا غیرقانونی شکار جاری ہے جبکہ اس مچھلی کو بلیک میں فروخت کیا جاتا ہے۔
مختلف اقسام کی مچھلیوں کے نایاب ہونے کی سب سے بڑی وجہ ضرورت سے زیادہ شکار اور کشتی میں نصب کرین کے بڑے جال ہیں جن کے ذریعے ایک وقت میں ہزاروں کی تعداد میں مچھلیاں جال میں پھنس جاتی ہیں۔ ان جالوں میں کانٹے لگے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے جو مچھلی جال سے بچنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں، وہ بھی زخمی یا مفلوج ہوجاتی ہیں۔
اوور فشنگ کا ایک اور طریقہ ٹرالنگ ہے۔ اس طریقہ شکار میں بڑے بڑے باریک جال سمندر میں ڈالے جاتے ہیں جن میں نہ صرف مختلف اقسام کی مچھلیاں ہزاروں کی تعداد میں پھنس جاتی ہیں بلکہ یہ جال اپنے راستے میں آنے والے کورل ریفس (سمندر کی سطح) کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں آج بھی ٹرالنگ جاری ہے حالانکہ حکومت پاکستان کے تحت بلوچستان میں اسے غیرقانونی قرار دیا جاچکا ہے۔
اب چین اور تائیوان کو ہی دیکھ لیجیے جہاں ایک مخصوص قسم کی شارک کا سوپ انتہائی پسند کیا جاتا ہے اور یہ سوپ انتہائی مہنگا ہوتا ہے کہ گویا صرف امیر لوگ ہی اس کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ اس سوپ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں شارک کا فن شامل کیا جاتا ہے۔ ایسے علاقوں میں شارک کے فن کاٹ کر انہیں سمندر میں واپس ڈال دیا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک سال میں فنز کے لیے 10 کروڑ شارکس کا شکار کیا جاتا ہے یا ان کے فنز کاٹ کر انہیں سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اب اگر ایک جاندار سے تیرنے کا ذریعہ چھین لیں گے تو وہ کیسے سمندر میں جانبر ہوسکے گی؟ لیکن بدقسمتی سے دنیا میں یہ بھی ہورہا ہے۔
ڈنمارک کے جزائر فارو میں وہیل کا شکار ایک سالانہ تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے جہاں ڈولفن اور وہیل کے قافلوں کو ٹریپ کرکے ساحل تک لایا جاتا ہے اور پھر مقامی لوگ ان کا ’قتل عام‘ کرتے ہیں یعنی ان کے گلے کاٹے جاتے ہیں۔ یہ روایت 1948ء سے چلی آرہی ہے اور وہاں کی انتظامیہ بھی اس کام میں لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ سچ بتاؤں تو جب سے میں نے ایک دستاویزی فلم میں خون سے بھرا سمندر دیکھا ہے، مجھے ہم انسانوں سے مزید نفرت ہوگئی ہے۔ کچھ روایات واقعی سفاک ہوتی ہیں۔ اب آپ خود بتائیں کہ جب دنیا میں اتنی بڑی تعداد میں سمندری حیات کا شکار ہوگا تو اس کا اثر یقیناً پاکستان کے سمندر میں بھی پڑے گا اور ہمیں سمندری حیات کو بچانے میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
انہیں وجوہات کی بنیاد پر دنیا نے ضرورت محسوس کی کہ ماہی گیری کے طریقہ کار بدلے جائیں اور پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں ان پر عمل درآمد بھی کیا جارہا ہے۔
سسٹینیبل فشنگ کیا ہے؟
سسٹینیبل فشنگ کی اصطلاح آپ میں سے بہت سے لوگوں کے لیے نئی نہیں ہوگی لیکن اسے سمجھے بغیر ہم آگے بھی نہیں بڑھ سکتے۔ یہ ایسے اقدامات ہیں جن کے تحت سمندری مخلوقات کا شکار اس انداز میں کیا جاتا ہے کہ اس سے ان کی آبادی میں کمی واقع نہ ہو۔
اب آپ یہ سوچیں گے کہ شکار سے آبادی میں کمی تو ضرور واقع ہوگی۔ ایسا نہیں ہے۔ ایک وقت میں مچھلیوں کی مختلف اقسام 100 سے 3 لاکھ تک انڈے دیتی ہیں جن سے نئی مچھلیاں سمندر کے دھارے میں شامل ہوجاتی ہیں۔ مگر اب تصور کریں کہ ایک وقت میں سمندر میں 3 کشتیاں موجود ہیں، تینوں کے جال میں ایک ایک لاکھ یعنیٰ تین لاکھ ایک ہی نسل کی چھوٹی مچھلیاں پھنس جاتی ہیں تو اس نسل کو نقصان سے ریکور کرنے میں بہت وقت لگے گا اور ہوسکتا ہے کہ روزانہ اسی رفتار سے شکار ہو تو سمندر میں اس نسل کی کوئی مچھلی ہی نہ بچے۔
تو ایسے میں یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ شکار اس انداز میں کیا جائے کہ ہماری آنے والی نسلوں کے کھانے کے لیے بھی سمندری مخلوقات بچیں یعنی ان کا مکمل خاتمہ نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ سسٹینیبل فشنگ کی اصطلاح متعارف ہوئی (جسے ہم ذمہ دارانہ ماہی گیری بھی کہہ سکتے ہیں) جس کی آگاہی دینے کا مقصد ماہی گیروں میں یہ شعور اجاگر کرنا ہے کہ وہ کون سے طریقے اپنائیں جن سے غیرضروری طور پر سمندری حیات جان سے نہ جائیں۔ اور یہ بتانا کہ وہ ایک وقت میں کس نسل کی مچھلی کتنی تعداد میں پکڑ سکتے ہیں تاکہ اس نسل کی مچھلی کو زیادہ نقصان بھی نہ ہو اور انسان تلی ہوئی فنگر فش کا مزہ بھی لے سکیں۔
سسٹینیبل فشنگ کے اہم طریقہ کار
سمندری حیات کو ریکوری کا وقت دینے کا سب سے اچھا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم کچھ سالوں کے لیے سی فوڈ کھانا چھوڑ دیں لیکن انسان کے لیے شاید ایسا ممکن نہ ہو بالخصوص ایشیائی ممالک جو صبح و شام سی فوڈ کھانے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ یہ پائیدار حل بھی نہیں۔
اسپیئر فشنگ: دنیا بھر میں اسپیئر فشنگ کو سسٹینیبل ذریعہِ شکار مانا جاتا ہے۔ ہم قدیم زمانے پر مبنی فلمیں دیکھتے رہتے ہیں کہ جس طرح غوطہ خور ہاتھ میں نیزہ لے کر سمندر میں مچھلی کا شکار کرتے تھے۔ اس طریقے سے سمندری مخلوقات کو نقصان نہیں پہنچتا اور اسی مچھلی کا شکار ہوتا ہے جسے وہ پکڑنا چاہتے ہیں۔ جنوبی امریکا، افریقہ، آسٹریلیا اور بہت سے ایشیائی ممالک میں یہ طریقہ کار آج بھی اپنایا جارہا ہے۔
ریل اینڈ راڈ: اس کے علاوہ فشنگ کا ایک اور مقبول سسٹینیبل ذریعہ ریل اینڈ راڈ فشنگ ہے کیونکہ اس سے آپ اس مچھلی کو واپس سمندر میں پھینک سکتے ہیں جو نایاب ہو۔ کمرشل سطح پر ’لانگ لائننگ‘ کا استعمال کیا جاتا ہے جس میں بہت سے کانٹے لگے ہوتے ہیں یوں اس طرح بھی مچھلیوں کو منتخب کیا جاتا ہے۔ الاسکا سمیت شمالی امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اسی طریقہ کار کو اپنا کر کم تعداد میں نایاب مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں۔
امریکا میں عموماً جال کا سائز، اس میں موجود کانٹوں، ایک وقت میں مچھلی پکڑنے کی محدود تعداد (کیچ لیمٹ) اور موسم کی مناسبت سے مچھلیاں پکرنے پر پابندی لگائی جاتی ہے تاکہ سمندری ماحول کو محفوظ بنایا جاسکے۔ جبکہ امریکا میں صرف ریل اینڈ راڈ کے ذریعے ہی ٹونا مچھلی کے شکار کی اجازت ہے۔
پاکستان میں سسٹینیبل فشنگ
سسٹینیبل فشنگ کے حوالے سے پاکستان کیا کررہا ہے؟ کیا پرانے طریقوں سے مچھلی پکڑنے والے اپنے ماہی گیروں کو ہم آگاہی دے رہے ہیں کہ وہ کون سے طریقے استعمال کرکے سمندری ماحول کو محفوظ بنا سکتے ہیں؟ اس اہم موضوع پر گفتگو کے لیے ڈان نیوز ڈیجیٹل اردو نے وفاقی میرین فشریز ڈپارٹمنٹ کے سابق ڈائریکٹر جنرل محمد معظم خان سے رابطہ کیا جو ورلڈ وائد فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے ٹیکنیکل ایڈوائزر کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں۔
53 سال سے مرین کے شعبے سے وابستہ معظم خان نے ہمیں بتایا کہ، ’بلوچستان میں 6 سال تک محکمہ فشریز میں اپنی خدمات سرانجام دیتے ہوئے صوبائی اور وفاقی حکومت کے تعاون سے میری ٹیم نے ٹرالنگ کی روک تھام کے لیے خوب کام کیا۔ بلوچستان میں ٹرالنگ پر پابندی ہے لیکن سندھ میں اس پر ممانعت نہیں۔ سندھ میں مسلسل ٹرالنگ کی وجہ سے جھینگوں کی تعداد کم ہوچکی ہے یہی وجہ ہے کہ موقع ملنے پر بلوچستان میں آکر غیرقانونی ٹرالنگ کی جاتی ہے۔ بلوچستان کی مقامی کمیونٹی اس کے خلاف ہے لیکن کچھ عناصر رشوت لے کر غیرقانونی ٹرالنگ کی سرپرستی کرتے ہیں جس کی بنا پر ٹرالنگ کی روک تھام میں حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘۔
وہ کہتے ہیں، ’بلوچستان بالخصوص پسنی میں مخصوص اقسام کی مچھلیوں کے شکار پر پابندی ہے جیسے مثال کے طور پر وہاں مارکیٹ میں فروخت کرنے کے مقاصد کے لیے سارڈین کے شکار کی اجازت نہیں۔ کترا جال سارڈین کو پکڑنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔ سونمیانی کے علاقوں میں لوگوں نے ایک قسم کا جال لگایا تھا جوکہ بہت باریک ہوتا ہے جس میں چھوٹی سی چھوٹی مچھلی بھی پھنس جاتی ہے۔ یہ محکمہ فشریز کے لیے کسی ڈراؤنے خواب کی طرح تھا جس میں ان مچھلیوں کا شکار بھی ہورہا تھا جن کی ممانعت تھی۔ لیکن سونمیانی کی کمیونٹی اس حوالے سے شعور رکھتی تھی اور انہوں نے سرکاری اداروں کے تعاون سے 90 کے قریب جالوں کو اکھاڑ کر جلا دیا‘۔
سونمیانی کمیونٹی کی تعریف کرتے ہوئے معظم خان نے بتایا کہ اس کمیونٹی میں تشویش تھی کہ ہمارے زیادہ شکار کی وجہ سے مچھلیوں کو بریڈنگ کا موقع نہیں مل رہا، لہٰذا انہوں نے آپس میں فیصلہ کیا کہ وہ فلاں حصے میں شکار نہیں کریں گے اور وہ اس کی تعمیل بھی کرتے ہیں۔ ایسے علاقوں کو میرین فشریز کی زبان میں ’نو ٹیک زون‘ کہتے ہیں۔
پاکستان میں سسٹینیبل فشنگ کے سوال پر معظم خان نے کہا کہ ’وسائل محدود ہونے کی وجہ سے سسٹیبل فشنگ کرنا ایک مشکل ٹاسک ہے۔ ہمارے ساحلوں میں 23 ہزار ماہی گیر کشتیاں ہیں جبکہ سسٹینبل فشنگ کے لیے 10 ہزار کی تعداد موزوں بتائی جاتی ہے۔ ایک صبح اٹھ کر ہم اچانک یہ نہیں کہہ سکتے کہ 13 ہزار کشتیاں آج سے شکار کے لیے نہیں جائیں گی۔ ہاں اس کا حل یہ ہے کہ حکومت نئی کشتی بنانے والوں سے کہے کہ اگر آپ چلتی ہوئی دو یا تین کشتیوں کے لائسنس ہمیں جمع کروائیں گے تو ہم آپ کو نئی کشتی بنانے کا اجازت نامہ دیں گے۔ ہمیں ایسے اقدامات کرنا ہوں گے بصورت دیگر ماہی گیری کی صنعت ختم ہونے کے خدشات میں اضافہ ہوتا جائے گا‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’بلوچستان اور سندھ کی ماہی گیر کمیونٹی خود بھی ایسے طریقے اپناتی ہے جس سے سمندری مخلوقات کی حفاظت ہو، یہی وجہ ہے کہ ہمیں انہیں سسٹینیبل فشنگ کے طریقے سکھانے کے لیے زیادہ محنت نہیں کرنا پڑتی۔ جب ان سے کہا جاتا ہے اس علاقے میں ماہی گیری نہ کریں تو وہ ہماری بات مانتے ہیں لیکن ہاں قانون کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر تو ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں‘۔
ماہی گیروں کو آگاہی فراہم کرنے کے حوالے سے سوال پر معظم خان بتاتے ہیں کہ فشریز کا محکمہ ماہی گیر کمیونٹی کے نمائندوں سے رابطہ کرتا ہے اور انہیں ایسے طریقے بتاتا ہے جن سے سمندری مخلوقات کو محفوظ بنایا جاسکے اور اس حوالے سے وہ محکمے کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہیں۔
معظم خان بتاتے ہیں، ’پاکستان میں سب سے زیادہ اولیو رڈلی کچھوے اور گرین ٹرٹل پائے جاتے تھے۔ ہمارے ملک میں مجموعی طور پر 5 اقسام کے کچھوے پائے جاتے ہیں اور یہ پانچوں اقسام ہی نایاب ہیں۔ پاکستانی ماہی گیرکچھوؤں کا شکار نہیں کرتے، وہ ان کا شکار اس لیے ہیں کرتے کیونکہ جب کچھوؤں کو پانی سے باہر نکالا جاتا ہے تو انسانوں کی طرح ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں اور ماہی گیروں کا ماننا ہے کہ کچھوؤں کا رونا ان کے لیے بدقسمتی لائے گا اس لیے وہ انہیں فوراً سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔
’ہم ماہی گیروں کو سکھاتے ہیں کہ اگر جال میں کچھوا پھنس جائے تو اسے کوئی نقصان پہنچائے بغیر کیسے سمندر میں واپس پھینکنا ہے کیونکہ انہیں ایک مخصوص اینگل اور دوری پر سمندر میں واپس ڈالا جائے تو انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچتا ورنہ زور سے پھینکنے سے ان کے اعضا مفلوج ہوسکتے ہیں۔ ماہی گیر ہمارے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرتے تھے لیکن ایک بار غیرمعمولی بات ہوئی۔
’ایک ماہی گیر کے جال میں کچھوے کا بچہ پھنس گیا۔ اسے کیسے سمندر میں پھینکا جائے، اس کی آگاہی ہم نے انہیں نہیں دی تھی تو انہوں نے خود اسے بالٹی میں ڈال کر رکھا اور احتیاط سے سمندر میں بالٹی کو اتارا تاکہ وہ بچہ تیرتا ہوا محفوظ انداز میں سمندر میں چلا جائے اور پھر ہمیں بتایا کہ دیکھیں ہم نے کتنی احتیاط سے بچے کو واپس بھیجا۔ یہ نیا طریقہ تھا جو ہم نے نہیں بلکہ ماہی گیروں نے ہمیں سکھایا‘۔
معظم خان بتاتے ہیں کہ سمندری مخلوقات کو بچانے کے لیے جو لوگ نئے اقدامات کرتے ہیں، میرین فشریز انہیں انعامات سے بھی نوازتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ڈبلیو ڈبلیو ایف کی تحقیق میں انکشاف ہوا کہ پاکستان کے سمندر میں 12 ہزار وہیل اور ڈولفن ماہی گیروں کے جال میں پھنس کر مر جاتی ہیں۔ ان کی تعداد کم کرنے کے لیے ہم نے ماہی گیروں کو تجویز دی کہ وہ سمندر کے اوپری حصے میں جال پھیلانے کے بجائے تقریباً 2 میٹر نیچے جال پھیلائیں۔ یہ عمل مؤثر ثابت ہوا اور ماہی گیروں کے جالوں میں ٹونا مچھلیاں زیادہ تعداد میں پھنسنے لگیں اور اب کچھوے اور ڈولفن مرنے کی تعداد انتہائی کم ہوچکی ہے جبکہ ماہی گیر بھی خوش ہیں۔ تو وہ ان چند کاموں میں سے ایک ہے جو ہم نے سمندری مخلوقات کے تحفظ کے لیے کیا‘۔
ہم نے جب ٹونا کے حوالے سے معظم خان سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے سمندر میں ٹونا جال کی مدد سے پکڑی جاتی ہے اور جال سے پکڑی جانے والی ٹونا اس معیار کی نہیں ہوتی کہ اسے عالمی مارکیٹ میں فروخت کیا جائے اس لیے پاکستان سے پکڑی جانے والی 40 سے 50 ٹن ٹونا کو ایران برآمد کردیا جاتا ہے کیونکہ پاکستان میں ٹونا مچھلی نہیں کھائی جاتی۔
کیچ لیمٹ کے حوالے سے معظم خان نے کہا کہ ’پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں کیچ لیمٹ پر عمل درآمد بہت مشکل ہوتا ہے، مختلف اجلاسوں میں یہ نکتہ بار بار اٹھایا جاتا ہے لیکن کیچ لیمٹ کا نفاذ بہت دشوار ہے۔ ایک کشتی کو اگر 100 کلو مچھلی پکڑنے کی اجازت ہو اور وہ 150 کلو پکڑ لے تو وہ اس ڈر سے مچھلیاں واپس سمندر میں نہیں پھینکیں گے کہ ساحل پر ہمیں پولیس پکڑ لے گی۔ کیچ لیمٹ پر سختی سے عمل در آمد ترقی یافتہ ممالک کروا سکتے ہیں کہ جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے‘۔
اسپیئر فشنگ کے حوالے سے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اس کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف ڈائیونگ کے شوقین افراد اس طرح شکار کرتے ہیں۔
سمندری مخلوقات ہمارا ایکو سسٹم بچاتی ہیں، ہمیں انہیں بچانا ہوگا۔ پاکستان کو اپنے سمندر میں موجود سمندری حیات کو محفوظ بنانے کے لیے ٹرالنگ کی روک تھام، فش فارمنگ اور بڑے پیمانے پر جالوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو ہم بہتر اور صحت مند سمندری ماحول دے سکیں۔
خولہ اعجاز ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔