• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am

سائفر کیس میں بریت عمران خان کے موقف کی بڑی جیت ہے، ماہرین قانون

شائع June 3, 2024
ماہرین نے کہا کہ بریت کے بعد کسی مقدمے میں سزا دلانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
ماہرین نے کہا کہ بریت کے بعد کسی مقدمے میں سزا دلانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بری کردیا جسے ماہرین قانون نے تحریک انصاف کے موقف کی بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں سزا کی خلاف اپیلوں پر مختصر فیصلہ سنایا اور سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلیں منظور کرلیں۔

اب پراسیکیوشن کا کام مشکل ہو گیا ہے، بیرسٹر رحیم

ماہر قانون بیرسٹر اسد رحیم نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ اب فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) کی صوابدید ہے کہ وہ اس کیس کو اعلیٰ عدالتوں میں لے جاتے ہیں یا نہیں لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی ملزم عدالت عالیہ سے بری ہو جائے تو ہر اپیلیٹ فورم کے ساتھ کیس کو سزا کی طرف لے کر جانا مشکل ہوتا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ روایت اور قانونی تقاضوں کو دیکھیں تو جب کسی نچلے فورم ملزم کو بری کردیا جاتا ہے تو یہ تاثر غالب آنے لگتا ہے کہ ملزم معصوم ہے، ایف آئی اے اسے اعلیٰ عدالتوں میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتی ہے لیکن ان کا کام مزید مشکل ہو گیا ہے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ تحریری فیصلے میں یہ ضرور واضح ہو گا کہ جج صاحبان نے کس وجہ سے سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ کو بری کیا ہے لیکن اصل جزو یہی ہے کہ جو کیس ریاست نے بنایا تھا اس کو عدالت عالیہ کے مرحلے پر دونوں اشخاص کو باعزت بری کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی ایسا ہی واضح ہو رہا ہے کہ شاید ریاست کو زیادہ جان لگانی چاہیے تھی یا شواہد پر زیادہ کام کرنا چاہیے تھا لیکن یہ اپیلیٹ کے مرحلے پر ہی بغیر کسی وزن کے ہی فارغ ہو گئے۔

بیرسٹر اسد رحیم نے کہا کہ جب قومی احتساب بیورو کی قانون سازی ہو رہی تھی تو ہمارے منتخب نمائندوں کا یہی کہنا تھا کہ ان اشخاص کو سزا ہونی چاہیے جو غلط الزامات لگاتے ہیں اور بے گناہوں کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں لیکن چونکہ اس کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور دیگر قوانین سے تعلق ہے تو کوئی خاص ایسا قانون ذہن میں تو نہیں آتا کہ غلط الزام لگانے سے کسی طرح کی کارروائی ہو سکتی ہے۔

جب ان سے اس فیصلے کی ٹائمنگ کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو سینئر قانون دان نے کہا کہ امید یہی رکھنی چاہیے کہ ہمارے قانونی فیصلوں کا ٹائمنگ سے کوئی تعلق نہ ہو لیکن زمینی حقائق کو سامنے رکھیں تو اس فیصلے کا ٹائمنگ سے تعلق نظر آتا ہے۔

فیصلہ حکومت اور پراسیکیوشن کے لیے بڑا دھچکا ہے، منیب فاروق

معروف اینکر اور قانون دان منیب فاروق نے کہا کہ اس کیس میں بریت عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے بہت اہم ہے لیکن ہر ایک پتا تھا کہ جس طرح سے سزا ہوئی تھی اس میں بے شمار قانونی سقم پائے جاتے تھے، طریقہ میں بھی بے قاعدگیاں تھیں اور جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں عدالت نے سوالات پوچھے تو پراسیکیوشن ان کا جواب دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح سے سزا سنائی گئی تھی تو اس میں طرح کے معاملات ہونے تھے، یا تو انہیں ٹرائل کورٹ کو واپس ریمانڈ کے لیے بھیج دیا جاتا ہے یا پھر یہ فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے گا اور عدالت نے وہی کرتے ہوئے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی اپیلوں کو منظور کر لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدت میں نکاح کا کیس ابھی تک اپنی جگہ پر موجود ہے، عمران خان کی سزا اب تک موجود ہے، عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا لیکن سنایا نہیں تھا لیکن سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود کا بری ہونا ان کے موقف کی بہت بڑی جیت ہے اور ان کے خلاف بنائے گئے بیانیے کو بہت بڑا دھچکا ہے۔

منیب فاروق نے کہا کہ یہ فیصلہ حکومت اور پراسیکیوشن کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے، وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں تو جا سکتے ہیں لیکن بریت کے خلاف اپیلیں 99.9 فیصد مسترد ہوتی ہیں اور بریت کا فیصلہ برقرار رہتا ہے۔

ثابت ہو گیا کہ عدالتیں آزادانہ کام کررہی ہیں، ایڈووکیٹ حافظ احسان احمد

ماہر قانون حافظ احسان احمد ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج کے فیصلے سے یہ ثابت ہو گیا کہ ہماری عدالتیں آزادانہ طور پر کام کررہی ہیں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت ہمارے ججوں اور عدالتوں کو جو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا کہ یہ انصاف نہیں کررہیں اور قانون پر عمل نہیں کررہیں، تو میرا خیال ہے کہ آج کے فیصلے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہماری عدالتیں آزاد ہیں اور اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آئندہ سے ہماری سیاسی جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کو یہ غور کرنا چاہیے کہ پاکستان کے جس عدالت نظام پر وہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ عدالتیں آئین اور قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتیں تو آج کا اہم کیس اس چیز کو رد کرتا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ نے پھر ثابت کیا ہے کہ ہم انصاف اور قانون کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024