کیا بھارت میں اب پاکستان مخالف بیانیے کی کوئی حیثیت نہیں رہی؟
’بھارت میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلیسوسیو الائنس (انڈیا) کے نیتا کہتے ہیں کہ پاکستان نے چوڑیاں نہیں پہنی ہیں، ارے بھئی پہنا دیں گے‘۔
گزشتہ ماہ مظفر نگر میں ایک انتخابی ریلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے دیا گیا یہ بیان پڑوسی ملک سے زیادہ اپنے سیاسی مخالفین پر طنز تھا۔ یہ بیان، انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما فاروق عبداللہ کو براہ راست جواب تھا جوکہ بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مضبوط قوم پرست جذبات کے ذریعے رائے دہنگان کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں پر روشنی ڈالتا ہے۔
بھارتی پارلیمنٹ کی 17ویں لوک سبھا کی مدت 16 جون کو ختم ہونے والی ہے۔ ایسے میں بھارت نے لوک سبھا کے 543 اراکین کو منتخب کرنے کے لیے بھارت نے 19 اپریل سے یکم جون تک، 7 مراحل پر مشتمل 44 دن کا انتخابی دور مکمل کیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ جب پاکستان کو بھارت کی سیاسی بیان بازی میں گھسیٹا گیا ہو۔ گزشتہ سالوں میں جب جب انتخابی مہم نے شدت اختیار کی تب تب بی جے پی نے تواتر سے پاکستان کو کسی ’پنچنگ بیگ‘ کی طرح استعمال کیا۔
’بیانیے کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا‘
حالیہ بیان جس میں وزیراعظم نریندر مودی نے انڈیا اتحاد (بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت میں کثیرالجہتی اپوزیشن اتحاد) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پاکستان کا استعمال کیا، اس کا اندازہ وزیردفاع راج ناتھ سنگھ کے ایک انٹرویو سے لگایا جاسکتا ہے جو پریس ٹرسٹ آف انڈیا میں شائع ہوا۔
انٹرویو کے دوران راج ناتھ سنگھ نے زور دیا کہ بھارت کو بھارتی مقبوضہ جموں اور کشمیر پر زبردستی قبضہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ کشمیر میں ہونے والی ترقی کو دیکھ کر وہاں کے لوگ خود بھارت کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ پاکستان کے آزاد جموں و کشمیر کا الحاق بی جے پی کے انتخابی منشور کا ایک نمایاں اور متنازع ایجنڈا ہے جس سے مزید بحث اور ڈرامے کو ہوا دی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیردفاع کے بیان کے جواب میں فاروق عبداللہ نے کہا کہ ’اگر وزیر دفاع ایسا سمجھتے ہیں وہ ایسا کریں لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ ان لوگوں نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں، اس ملک کے پاس ایٹم بم ہے اور بدقسمتی سے وہ بم ہم پر گریں گے‘۔
چند دن بعد منی شنکر آئر کی ایک پرانی ویڈیو دوبارہ گردش کرنے لگی جس نے کافی ہلچل مچائی۔ اس کلپ میں نامور کانگریس رہنما نے پاکستان کو ’بھارت کو سب سے بڑا اثاثہ‘ قرار دیا اور انہیں ہمسایہ ملک کے ساتھ بات چیت کی حمایت کرتے سنا جاسکتا ہے۔
یہ حیران کُن ہرگز نہیں کہ ان کے اس بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سیاسی آگ بھڑکانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ منی شنکر آئر کے بیان کو کچھ حلقوں نے اس طرح اخذ کیا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی خوف کی وجہ سے بھارت کو پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔ یہ اس بیان کے بالکل منافی ہے جوکہ کانگریس رہنما نے دیا تھا یعنی ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔
مظفر نگر کی ریلی کے دوران توڑ مروڑ کے پیش کردہ اسی بیانیے کے تحت اپوزیشن اتحاد کے رہنماؤں پر مودی نے الزام عائد کیا کہ وہ پاکستان سے خوفزدہ ہیں اور کہا کہ اپوزیشن بلاک کے رہنماؤں کے لیے پاکستان کی ایٹمی صلاحیتیں ایک ڈراؤنے خواب کی مانند ہیں۔
بی جے پی کی انتخابی مہم کی حکمت عملی
’حالیہ انتخابات میں بی جے پی کی پاکستان مخالف بیان بازی 2019ء کی نسبت مختلف ہے کہ جس میں تمام تر توجہ پلواما-بالاکوٹ حملوں پر تھی۔ یہ بیانیہ سرحد پار پاکستان سے دہشت گردی اور بھارت کی قوم پرستی پر مشتمل تھا اسی لیے بی جے پی نے یہ مؤقف اپنایا ’گھر میں گھس کر ماریں گے‘، یہ کہنا تھا بھارت کی مایہ ناز جامعات میں شمار کی جانے والی جامعہ کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ پروفیسر ’الف‘ کا، جنہوں نے موضوع کی حساسیت کے تناظر میں اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہم سے گفتگو کی۔
انہوں نے مزید کہا، ’لیکن 2024ء میں بیان بازی اگست 2019ء کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے فیصلے کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ بیانیہ پاکستان کو کنٹرول کرنے اور کشمیر میں اپنی خودمختاری کے دعووں کے گرد بنایا گیا۔ بھارتی وزیراعظم پاکستان کے معاشی اور سیاسی عدم استحکام بشمول افغانستان میں اس کی مداخلت اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے ردعمل پر زور دیتے نظر آئے۔
’انہوں نے ایسا پاکستان کو کمزور ریاست دکھانے کے لیے کیا۔ اس سے قبل بی جے پی کا بیانیہ پاکستان کو دہشت گردی کے گڑھ ثابت کرنے کے گرد گھومتا تھا۔ تاہم یہ بیانیہ اب تبدیل ہوچکا ہے۔ اب پیغام دیا جارہا ہے کہ جہاں ایک جانب پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے وہیں اب وہ بھارت کی بڑھتی ہوئی عالمی مضبوطی کے برعکس ایک کمزور ملک ہے‘۔
2024ء کے انتخابات کے دوران بی جے پی کی مہم کی حکمت عملی میں پاکستان مخالف بیان بازی، ہندو-مسلم حرکیات اور خارجہ پالیسی کے موقف کا امتزاج شامل ہے جو بھارت کے شمال اور مغرب کے رائے دہندگان کو اپیل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود ملک کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں اس بیانیے کی بازگشت سنائی نہیں دی۔
پروفیسر الف نے مزید کہا کہ ’حتیٰ کہ وہ لوگ جو ان خیالات کے حامی ہیں وہ بھی متذبذب ہیں کہ وہ اس کی حمایت میں ووٹ دیں یا نہیں‘۔
انتخابی ریلیوں کے دوران بھارت کے وزیرداخلہ امت شاہ اور اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ اگر بی جے پی تیسری مدت کے لیے اقتدار میں آئی تو جماعت آزاد جموں اور کشمیر کو واپس لینے کے لیے زیادہ اشتعال سے کام لے گی، جیسا کہ بی جے پی اپنے منشور میں واضح کرچکی ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول کے پار پاکستان کے مقبوضہ کشمیر کو ’دوبارہ واپس لینے‘ کا دعویٰ ایک بار پھر کرے گی۔
پروفیسر اے کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے اکیڈمی آف انٹرنیشنل اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر اجے درشن بہیرا نے کہا، ’2019ء کے انتخابات میں سب کچھ پلوامہ کے گرد تھا۔ 2019ء میں کانگریس کے منشور میں بھی یہ کسی حد تک شامل تھا لیکن جب پلواما ہوا تو بی جے پی کے قوم پرست بیانیے نے اپوزیشن کو ششدر کردیا۔
’2024ء میں رائے دہندگان کی بے زاری کی وجہ سے پاکستان مخالف بیانیے میں کمی دیکھنے میں آئی۔ عوام روز مرہ کے مسائل جیسے بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ بی جے پی کی 10 سالہ حکمرانی کے بعد انہیں بی جے پی کی جانب سے کیے گئے جھوٹے وعدوں کا احساس ہوا ہے۔ 10 سال حکومت کے بعد بہت سے لوگ پارٹی کے خالی وعدوں سے مایوس ہوچکے ہیں‘۔
اجے درشن بہیرا نے مزید کہا، ’اس بار اپوزیشن نے دانشمندی سے بی جے پی کے پاکستان مخالف اور مسلم مخالف بیانیے سے دوری برتی جبکہ اس کے بجائے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کی جو لوگوں کی زندگیوں پر براہِ راست اثرات مرتب کرتی ہیں‘۔
اگرچہ مودی اور ان کی جماعت نہ صرف اپنی انتخابی مہم میں بار بار پاکستان کا نام لے رہی ہے لیکن وہ کانگریس پر بھی الزامات بھی عائد کررہی ہے کہ اسے ہمسایہ ملک کی حمایت حاصل ہے۔
یکم مئی کو پاکستان کے سابق وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی ویڈیو ٹوئٹ کی اور ساتھ ہی کیپشن میں ’راہول آن فائر‘ لکھا۔ یہ ٹوئٹ وائرل ہوگئی جسے 18 لاکھ سے زائد ویوز ملے۔
بی جے پی کے رہنما امیت مالویہ جوکہ پارٹی کے انفارمیشن ٹیکنالوجی ونگ کے سربراہ بھی ہیں، کہا کہ ’کیا کانگریس پاکستان میں انتخابات لڑنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ ایک ایسے منشور سے لے کر جس میں مسلم لیگ کے نقوش ہیں، سرحد پار سے حمایت تک، کانگریس کا پاکستان کے ساتھ اتحاد اس سے زیادہ واضح نہیں ہوسکتا‘۔
تاہم اجے درشن بہیرا نے اسے حقائق مسخ کرنے کی ایک اور کوشش قرار دی۔ انہوں نے کہا، ’کسی وجہ کے بغیر انتخابات کے دوران منی شنکر ائیر کی پرانی ویڈیو سامنے لائی گئی، جس پر بی جے پی رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ راہول گاندھی وزیراعظم بنیں اور اگر کانگریس اقتدار میں آگئی تو اس کا جھکاؤ پاکستان کی جانب ہوگا۔ لیکن یہ غلط بیانیے کارگر ثابت نہیں ہورہے کیونکہ لوگوں دیگر مسائل کے حوالے سے زیادہ فکر مند ہیں‘۔
’عوام کو اب کوئی پروا نہیں‘
سینئر صحافی اور اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی اور دی ٹیلی گراف کے سابق ایڈیٹر بھارت بھوشن سوال اٹھاتے ہیں کہ ’بی جے پی رہنما ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان چاہتا ہے کہ کانگریس انتخابات میں کامیاب ہو۔ جب تک اشتعال انگیزی نہ ہو تب تک پاکستان بھارتی انتخابات کی پرواہ کیوں کرے گا؟ لیکن یہ بی جے پی کا عمومی بیانیہ ہے اور فواد چوہدری کی ٹوئٹ نے بی جے پی کو ایک اور وجہ فراہم کی کہ وہ کانگریس پر الزام لگائے کہ اسے پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔
’عوام کو اب کوئی پروا نہیں۔ وزیراعظم رائے دہندگان کی حمایت کے لیے ایسا بار بار کرتے ہیں۔ یہ بیانیہ صرف بی جے پی کے سخت حامیوں کے لیے ہے، وہی لوگ اسے سننا چاہتے ہیں‘۔
بھارت بھوشن نے کہا کہ مودی خود کو سیاستدان کہتے ہیں اور جو بائیڈن، ڈونلڈ ٹرمپ جیسے نمایاں عالمی رہنماؤں سے بغل گیر ہوکر خود کو عظیم عالمی رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اپنے ملک میں وہ ایک ہندو رہنما ہیں جو پاکستان کے خلاف ’چوڑیاں پہنا دیں گے‘ جیسے بیانات دیتے ہیں’۔
بھارت بھوشن کے مطابق بہ ظاہر لگتا ہے کہ بی جے پی نے انتخابی مہم کے ابتدائی مراحل میں پاکستان اور مسلم مخالف بیان بازی سے گریز کرنے کے لیے کافی تگ و دو کی، ’لیکن شاید کم ووٹر ٹرن آؤٹ کی وجہ سے وزیراعظم نے اپنا بیانیہ تبدیل کردیا‘۔ یہاں بھارت بھوشن نے مودی کے اس بیان کا حوالہ دیا جو انہوں نے ایک عوامی ریلی کے موقع پر دیا تھا، ’مسلمان 4 بچوں کو جنم دیتے ہیں، اگر کانگریس اقتدار میں آگئی تو وہ ہندوؤں کے وسائل کو مسلمانوں میں تقسیم کردے گی‘، بھورت بھوشن کے مطابق کانگریس کے منشور میں یہ کبھی شامل نہیں رہا۔
بی جے پی نوجوانوں کے روزگار کے حوالے سے کبھی بات نہیں کرتی جبکہ ملک میں بے روزگاری 4 دہائیوں کی بلند ترین سطح پر ہے، نہ ہی بی جے پی کسانوں کے مسائل کو حل کرنے پر بات کرتی ہے۔ یہ وہ اصل مسائل ہیں جن کے حوالے سے بھارتی رائے دہندگان فکر مند ہیں۔ جبکہ دوسری جانب بی جے پی کی 10 سالہ حکومت میں پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات تاریخ کی بدترین سطح پر آچکے ہیں۔ ہائی کمشنرز ہیں نہ ہی پاکستانیوں کو ویزے جاری کیے جارہے ہیں، تجارتی تعلقات بھی مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں، سفارتی تعلقات انتہائی خراب ہیں جبکہ ایسے میں بی جے پی مسلم اور پاکستان مخالف بیان بازی سے باز نہیں آرہی۔
پاکستان کے حوالے سے بھارت کی خارجہ پالیسی بھی انتہائی قابل اعتراض رہی ہے۔ دی گارڈین کی حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت کی بین الاقوامی انٹیلی جنس ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) غیرملکی سرزمین پر دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کی اپنی پالیسی کے تحت 2020ء سے اب تک پاکستان میں 20 افراد کے قتل میں ملوث ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اس سے قبل بھارت ان قتل کے واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کرچکا ہے لیکن دی گارڈین کی رپورٹ کے بعد بھارت کے وزیر دفاع کہتے نظر آئے کہ ’اگر ہمسایہ ممالک سے کوئی دہشت گرد بھارت کو نقصان پہنچانے اور دہشت گرد سرگرمیوں کی کوشش کرتا ہے تو جواب دیا جائے گا۔ اگر وہ پاکستان فرار ہوجاتا ہے تو ہم پاکستان جائیں گے اور اسے وہاں ماریں گے‘۔
دی وائر کے لیے لکھنے والے سینئر سیاسی صحافی شیو سندر نے کہا کہ ’حتیٰ کہ بی جے پی کینیڈا میں ماورائے قتل پر بھی آمادہ ہوجاتی۔ اگر بی جے پی گارڈین کی رپورٹ کا امریکا کی جانب سے تنقید کے بجائے پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کرنے کے اپنے دعوے کے لیے فائدہ اٹھاتی ہے تو یہ پارٹی کا پرانا حربہ ہوگا کہ بھارت کو دہشتگردی سے صرف بی جے پی ہی بچا سکتی ہے‘۔
ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 2024ء کے انتخابات بے روزگاری، مہنگائی اور عام آدمی کے مسائل سے متعلق ہیں جبکہ قوم پرستی اور پاکستان مخالف بیانیے کی اب کوئی حیثیت نہیں رہی۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔