• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

احمد فرہاد بازیابی کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا

شائع May 24, 2024
— فائل فوٹو: ڈان
— فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا شاعر احمد فرہاد بازیابی کیس کی لائیو اسٹریمنگ کا فیصلہ کرلیا اور سیکٹر کمانڈر کو اگلی سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے لاپتا شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کے کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی عدالت میں پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کچھ سی ڈی آرز ملی ہیں، ان سے ٹریسں کر رہے ہیں، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں ریاست ناکام ہو چکی ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابھی ریاست ناکام نہیں ہوئی، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ریکور کرنا ریاست کی مجبوری ہے، ورنہ ریاست کی ناکامی ہے۔

عدالت نے دریافت کیا کہ سیکریٹری دفاع آئے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکریٹری دفاع آج نہیں آئے، ان کا آرڈر نہیں تھا، لیکن وہ آجائیں گے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ سیکریٹری دفاع آئندہ سماعت پر پیش ہوں اور آئی ایس آئی کی ورکنگ سمجھائیں، استفسار کیا کہ آئی ایس آئی میں سیکٹر کمانڈر اور ان کے ماتحت کتنے افراد ہوتے ہیں؟

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اب ایجنسیز کہیں چھپ کر نہیں بیٹھیں گی، جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ احمد فرہاد کی بازیابی نہ ہونا تو ریاست کی ناکامی ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی اس کو ریاست کی ناکامی نہ کہیں، اگر ہم نہ پیش کر سکے تو مان لوں گا کہ ریاست ناکام ہو گئی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ورکنگ کی ٹرانسپیرنسی بہت ضروری ہے، امن و امان کی صورتحال خراب بھی ہوتی ہے، پولیس والے ماریں کھاتے ہیں، وردی بھی پھڑواتے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ اگر ادارے جوابدہ نا ہوں اور آپ انہیں جوابدہ بھی نا کر سکیں تو کیا ہو گا؟ ایجنسیز کا بھی ایک اسٹرکچر ہو گا، کوئی کسی کو جوابدہ ہو گا، ہم نے سارے سوال سمجھنے اور اس ججمنٹ میں دینے ہیں۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اب اس آدمی کا ریکور ہونا پیچھے رہ گیا ہے، ہم کچھ چیزیں طے کریں گے، لاپتا افراد کیس میں اب سیکٹر کمانڈر کا بیان ریکارڈ کیا جائے گا، پولیس افسر اس کا بیان لے کر ضمنی لکھے گا۔

عدالت نے سیکریٹری دفاع کو اگلی سماعت پر طلب کر لیا، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ سیکریٹری دفاع آ کر سمجھائیں کہ آئی ایس آئی ڈیٹا کیسے جمع کرتی ہے، عدالت کو بتایا جائے سیکٹر کمانڈر کے نیچے کتنے لوگ کام کرتے ہیں؟

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا ہے سارے ادارے قوم کو جواب دہ ہیں، دوسرے اداروں کے لوگوں سے پوچھیں تو کبھی معطل ہوئے ہیں، وہ کبھی نہیں ہوئے ہوں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ مگر پولیس والا بتائے گا کہ 24، 38 بار معطل ہوا ہوں، اب ہم پورے پاکستان میں لاپتا افراد ہونے والے افراد کے لیے میکانزم بنائیں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جج نے قانون دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے، بندہ بازیاب کر لینا معاملے کا حل نہیں ہے، اگلی تاریخ میں بتائیں کون سے قانون کے ذریعے ایجنسی ریگولیٹ ہوتی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جو پروٹیکٹڈ انفارمیشن ہوتی ہے جج اس کو شیئر نہیں کرتا، ایک مسنگ پرسن کے کیس میں سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کو کروڑ، کروڑ روپےکو جرمانہ کیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کسی عدالت نے دہشت گرد کو ضمانت دی ہو، 10 دن ہو گئے ہیں، بتا نہیں بچارے کا کیا حال ہو گا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ عدالتی معاونین بھی مقرر کیے جائیں گے، وہ صحافیوں میں سے بھی ہوں گے، سابق آئی جیز کو بھی دعوت دوں گا۔

حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ صحافیوں کو ملک میں مشکلات کا سامنا ہے، آپ کے ریمارکس کے بعد وزیر قانون نے پریس کانفرنس کی، پیمرا کا نوٹی فکیشن ہے کہ عدالتی کارروائی نشر نہیں ہو گی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ وہ نوٹی فکیشن میرے لیے نہیں ہے، حامد میر نے بتایا کہ نوٹی فکیشن کے مطابق صرف لائیو اسٹریمنگ کی رپورٹنگ کی جا سکے گی۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ جو بھی مسنگ پرسن کا کیس اس عدالت میں لگے کا اس کی لائیو اسٹریمنگ کی جائے گی، مزید ریمارکس دیے کہ مسنگ پرسن کے کیسز میں لارجر بینچ بننا چاہیے تا کہ معاملہ حل کیا جا سکے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ایس ایس پی آپریشنز کہاں ہیں، ایس ایس پی آپریشنز عدالت میں پیش ہو گئے۔

ایس ایس پی آپریشنز نے عدالت کو بتایا کہ لوکیشن ٹریس کر لی گئی ہے، ٹیم وہاں پر موجود ہے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آپ کس ایجنسی کی معاونت حاصل کر رہے ہیں، ایس ایس پی آپریشنز نے بتایا کہ پولیس آئی بی سے معاونت حاصل کر رہی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی شامل نہیں؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنی عدالت کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

سینئر صحافی حامد میر نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے پیمرا کے ذریعے میڈیا سے اعلان جنگ کر دیا ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ اس عدالت کی کارروائی کیا میڈیا پر رپورٹ کی جا سکتی ہے؟

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس کیے کہ میڈیا کو بالکل رپورٹ کرنے کی اجازت ہے، پیمرا کا آرڈر میرے سامنے نہیں، ہم آئندہ اس عدالت کی کارروائی لائیو دکھائیں گے۔

جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ اس عدالت کے مسنگ پرسنز کے کیسز لائیو دکھانے کا آرڈر جاری کروں گا، یہ بہت مشکل وقت ہے، ہم سب ایک آدمی کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے کھڑے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ تین سالوں میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، ایک ٹیم جو کام کر کے گئی تھی دوسری ٹیم نے اسے ملزم بنا دیا ہے۔

جسٹس محسن کیانی کا مزید کہنا تھا کہ ہم عدالتی معاونین مقرر کریں گے، حامد میر صاحب سے بھی کہیں گے عدالت کی معاونت کریں۔

پیمرا کی جانب سے عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ پر پابندی کے معاملے پر جسٹس محسن اختر کیانی ہم آرڈر جاری کریں گے، ہم سماعت لائیو کریں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگی کمیشن کے رجسٹرار کو بلایا تھا افسوس ناک کارکردگی ہے، وہ ادھر سے مان بھی رہے ہوتے ہیں اور بندہ بھی نہیں چھوڑ رہے ہوتے۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا مزید کہنا تھا کہ کمیشن اُن کے ہی رحم و کرم پر ہوتا ہے، جب وہ چھوڑ رہے ہوتے ہیں ادھر سے آرڈر آ جاتا ہے، مزید کہا کہ کیا کوئی مثال ہے کہ کسی انٹیلی جنس افسر کو پراسیکیوٹ کیا گیا ہو؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ جو استثنیٰ ملا ہوا ہے، نا اسی استثنیٰ کو ہی ختم کرنا ہے، مزید کہا کہ یا تو ایجنسیوں کو قانون سازی کر کے 6، 6 ماہ کا اختیار دے دیں۔

اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ نہیں، آئین میں اس کی اجازت نہیں ہے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ آئین ان باقی چیزوں کی اجازت بھی نہیں دیتا جو ہو رہی ہیں۔

ایس پی آپریشنز کو سیکٹر کمانڈر کا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم

عدالت نے ایس پی آپریشنز کو سیکٹر کمانڈر کا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دے دیا، جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ سیکٹر کمانڈر اگلی سماعت میں ذاتی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ میرا یہ ماننا ہے سکیٹر کمانڈر ایک ایس ایچ او کے برابر ہے۔

بعد ازاں، عدالت نے کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی۔

عدالت زیر بحث مقدمے کی کارروائی رپورٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے، تحریری حکم

جمعہ کی شام کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا شاعر کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر آج کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے اردو زبان میں تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لاپتا شاعر اب تک بازیاب نہیں ہو سکا ہے، اٹارنی جنرل کے مطابق وہ احمد فرہاد کی بازیابی کے لیے انٹیلی جنس ایجنسیوں سے رابطے میں ہیں۔

اٹارنی جنرل نے احمد فرہاد کی بازیابی کے لیے مزید وقت مانگا ہے، درخواست گزار وکیل کے مطابق گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل کی جانب سے بازیابی کی ضمانت دی گئی تھی، درخواست گزار وکیل کے مطابق ریاستی ادارے مغوی کو بازیاب کرانے میں ناکام ہو چکے ہیں، درخواست گزار وکیل کے مطابق مغوی کی جان کو مزید خطرات لاحق ہو چکے ہیں جبکہ ریاستی ضمانت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آئی ایس آئی وزیر اعظم کو جوابدہ ہے، اٹارنی جنرل کے مطابق ایم آئی سیکریٹری دفاع اور افواج پاکستان کے ساتھ منسلک ہے۔

تحریری حکم میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت ضروری سمجھتی ہے کہ تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے، آئی ایس آئی کے دیگر اداروں کے ساتھ تقابلی جائزے کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایس آئی کے کام کرنے کے طریقہ کار سے آگاہی حاصل ہو، لہٰذا آئندہ سماعت پر سیکریٹری دفاع کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا جاتا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ سماعت کے دوران صحافی حامد میر کی جانب سے عدالت کو پیمرا کے نوٹی فکیشن کے حوالے سے آگاہ کیا گیا، صحافی حامد میر کے مطابق پیمرا نے نوٹی فکیشن جاری کر کے عدالتی کارروائی کو رپورٹ کرنے پر پابندی عائد کر دی، صحافی حامد میر کے مطابق پیمرا کا نوٹی فکیشن بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ اٹارنی جنرل کی وضاحت کے مطابق نوٹی فکیشن کی روشنی میں عدالت جس کیس میں مناسب سمجھے اس کی رپورٹنگ کا حکم دے سکتی ہے، چونکہ یہ مقدمہ اہم نوعیت کا ہے اور پاکستانی عوام کو اس سے متعلق تشویش لاحق ہے، یہ عدالت زیر بحث مقدمے کی کارروائی کو رپورٹ کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پیمرا کا کوئی نوٹی فکیشن یا کارروائی تاحال اس عدالت کے سامنے نہیں ہے اس لیے اس کے متعلق کوئی حکم جاری نہیں کیا جاسکتا، تاہم عدالت لاپتا افراد کے تمام مقدمات کی عدالتی کارروائی کو لائیو اسٹریم کے ذریعے نشر کرنے کا حکم دیتی ہے۔

پس منظر

واضح رہے کہ 16 مئی کو آزاد کشمیر کے صحافی و شاعر فرہاد علی شاہ کو مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا تھا جس کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ لوہی بھیر میں کیا گیا تھا۔

شاعر فرہاد علی شاہ کی زوجہ سیدہ عروج کی مدعیت میں اغوا کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مقدمے میں فرہاد علی کی اہلیہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ میرے خاوند کو نامعلوم افراد نے سوہان گارڈن سے اغوا کیا اور بغیر وارنٹ ہمارے گھر میں داخل ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ نامعلوم افراد نے ہمارے گھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے توڑے اور ڈی وی آر بھی ساتھ لے گیے۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ نامعلوم افراد میرے خاوند کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر لے گیے، میرے خاوند بیمار ہیں اور ان کے لیے ادویات لازم ہیں لہٰذا میرے جاننے کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کی جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا شاعر احمد فرہاد کو آج ہر صورت بازیاب کرا کے پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024