ہولناک سیلاب کے باجود سندھ حکومت ماحولیاتی تحفظ کیلئے غیر سنجیدہ
سال 2022 میں ہولناک سیلاب کے باوجود سندھ حکومت کی جانب سے مالی 2023 اور 2024 کے بجٹ میں ماحولیاتی تغیر (انوائرمینٹل چینج) کے حوالے سے کوئی بھی خاطر خواہ منصوبہ شروع نہ کیا جب کہ ماحولیات سے متعلق اداروں کا صرف ایک ارب 22 کروڑ روپے بجٹ مختص کیا، جس میں سے بھی 80 کروڑ روپے سے زائد بجٹ تنخواہوں کے لیے رکھا گیا۔
سال 2022 میں پاکستان میں آنے والے تاریخ کے بدترین سیلابوں میں سے ایک سیلاب میں صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا، جہاں ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوئے تھے۔
ہولناک سیلاب میں 20 لاکھ سے زائد گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے تھے جب کہ لاکھوں ایکڑ رقبے پر کاشت کیا گیا فصل بھی ڈوب گیا تھا۔
سیلاب کے باعث سندھ میں جانور، پرندے اور انسان ایک سال تک انتہائی نامناسب حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور رہے جب کہ تاحال صوبے میں سیلاب میں تباہ ہونے والے گھروں اور اسکولوں سمیت ہسپتالوں کی 10 فیصد تعمیر بھی نہیں کی جا سکی۔
سندھ حکومت نے سیلاب کے بعد اپنے تخمینوں میں بتایا تھا کہ سیلاب سے صوبے کو تقریباً 30 کھرب روپے کا نقصان ہوا ہے اور فوری طور پر 15 کھرب روپے زائد کی امداد درکار ہے۔
سندھ حکومت کو متعدد عالمی اداروں اور ممالک سمیت اقوام متحدہ (یو این) نے بھی مالی معاونت فراہم کی تھی اور تاحال صوبے میں عالمی اداروں اور حکومتوں کے تعاون سے سیلاب متاثرین کی بحالی کے منصوبے جاری ہیں۔
لیکن یہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے خود اتنے ہولناک سیلاب کے باوجود ماحولیاتی تغیر یا بہتری کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھاتے ہوئے ایسے منصوبے کیوں نہیں بنائے جن کی مدد سے صوبے میں ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے رونما ہونے والے سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات سے نمٹا جائے۔
سندھ حکومت نے مالی سال 2023 اور 2024 کے لیے 2 کھرب 244 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا، جس میں ماحولیات سے متعلق کام کرنے والے اداروں جن میں سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (ایس ای پی اے) سمیت ماحولیات پر کام کرنے والے دوسرے ادارے شامل ہیں، ان کے لیے صرف ایک ارب 12 کروڑ روپے تک کا بجٹ مختص کیا تھا۔
مختصر کردہ بجٹ میں سے زیادہ تر حصہ یعنی 80 کروڑ روپے سے زائد رقم صرف ملازمین کی تنخواہوں کے لیے رکھی گئی تھی جب کہ محض 30 کروڑ روپے کے بجٹ سے ماحولیات کے تحفظ پر کام کرنے والے اداروں کو مواد کی اشاعت، لوگوں میں شعور پیدا کرنے سمیت ماحولیات اور موسمیات پر سیمینارز کروانے کے علاوہ دفاتر کے لیے آلات بھی خریدنے تھے۔
اس سے بڑھ کر ظلم یہ ہوا کہ سندھ حکومت نے مالی سال 24-2023 میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں بھی ماحولیات سے متعلق کوئی بھی پروگرام نہیں رکھا گیا۔
ایک ایسا صوبہ جو ایک سال قبل ہی ہولناک سیلاب اور بارشوں سے تقریبا تباہ ہوچکا ہو، وہاں ماحولیاتی تغیر، موسمیاتی تبدیلیوں اور ان سے بچاؤ کے لیے کوئی خصوصی پروگرام شروع نہ کرنا سندھ حکومت کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
سندھ میں ایک طرف تو عالمی برادری اور عالمی اداروں کی معاونت سے سیلاب سے تباہ ہونے والے مکانات، اسکولوں، ہسپتالوں اور نقاصی آب کے نظام کی بحالی جاری ہے، دوسری جانب حکومت کی جانب سے ماحولیاتی بہتری کے لیے کوئی پروگرام شروع نہ کیا گیا، جس سے سندھ حکومت کی ترجیحات کا بھی پتا چلتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ حکومت نے گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں ماحولیات، جنگلی حیات اور موسمیاتی تغیر پر سال 2024-2023 سمیت مجموعی طور پر 20 ارب روپے خرچ کیے جب کہ حکومت کی جانب سے متعدد ایسے منصوبے بھی لائے گئے جن میں سے ایک منصوبے کی لاگت ماحولیاتی اور موسمیاتی تحفظ کی 16 سالہ بجٹ سے زائد تھی۔
ویب سائٹ سٹیزنری کی جانب سے سندھ حکومت کی طرف سے گزشتہ 16 برس کے دوران ماحولیاتی اور موسمیاتی تغیر کے لیے مختص کیے گئے بجٹ کے موازنے کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے مالی سال 2007 اور 2008 سے لے کر 2023 اور 2024 تک مجموعی طور پر 20 ارب 20 کروڑ روپے خرچ کیے جب کہ سندھ حکومت کی جانب سے صرف ملیر ایکسپریس وے پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ بھی 27 ارب 50 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق جہاں ملیر ایکسپریس وے کو عوام کی خوشحالی کا سبب قرار دیا جا رہا ہے، وہیں درحقیقت یہ موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والا منصوبہ بھی ہے، اس منصوبے کے لیے ہزاروں درخت کاٹے جارہے ہیں اور دیگر تعمیراتی امور میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
یعنی ایک طرف سندھ حکومت ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی بہتری کے لیے بہت ہی کم بجٹ مختص کرتی ہے تو دوسری جانب صوبائی حکومت ایسے میگا منصوبے بہت بڑی لاگت شروع کرتی ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بنتے ہیں۔
ظلم کی حد تو یہ ہے کہ حکومت موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والے منصوبوں پر ماحولیاتی تغیر کو بہتر کرنے سے زیادہ اہمیت اور فنڈز فراہم کرتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت نے صوبے کے تقریباً ہر ضلع میں انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسیز قائم تو کردیں اور ان اداروں میں مجموعی طور پر 1500 سے زائد ملازمین کام بھی کر رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ ادارے اور ملازمین کہیں بھی ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرتے نہیں دکھائی دیتے۔
سندھ حکومت کی جانب سے انوائرمینٹل کرائمز کے لیے کورٹ آف جسٹس بھی قائم ہیں جب کہ انوائرمینٹ پر تحقیق کے لیے خصوصی ادارے بھی موجود ہیں لیکن اس باوجود حکومت کی ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے غیر سنجیدگی سے ان اداروں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا جا رہا۔
اگرچہ سندھ حکومت نے 2022 میں ہی سندھ کلائمیٹ چینج پالیسی بنائی تھی لیکن اس کے باوجود اس پر کہیں مکمل طور پر عمل ہوتا نظر نہیں آتا اور حکومت ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بننے والے امور اور منصوبوں کے خلاف ایکشن کرتی دکھائی نہیں دیتی۔