• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

امارات کا تاریک پہلو

پاکستان میں سنگین جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے والے ملزمان نے اپنی ناجائز دولت دبئی میں چھپا رکھی ہے۔

پاکستان کے بدنام پولیس اہلکاروں میں سے ایک راؤ انوار، جو ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، جنہیں امریکا اور برطانیہ نے اپنی پابندیوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے، جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث رہ چکے ہیں، نے 6 سال کے دورانیے میں دبئی کے 74 دورے کیے۔

پولیس کے سینئر سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے ان کی تنخواہ معقول یعنی 95 ہزار روپے ماہانہ ہوگی۔ اور پھر دبئی پراپرٹی لیکس جو 14 مئی کو آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آڑ پی) اور ناروے کے مالیاتی آؤٹ لیٹ ای 24 کی سربراہی میں ایک عالمی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آئی جو راؤ انوار کے خاندان کے افراد کو دبئی میں جائیدادوں کے مالکان کے طور پر ظاہر کرتی ہے۔

ان کی اہلیہ کے نام سے 5 جائیدادیں منسوب ہیں۔ ان میں سے دو جائیدادیں راؤ انوار، اہلیہ اور بیٹے کی مشترکہ ملکیت میں ہے۔ ڈان تصدیق کرسکتا ہے کہ ثمینہ انوار احمد اب بھی دبئی ہلز اسٹیٹ کی ایگزیکٹو ریزیڈنس ٹو میں 2 بیڈرومز پر مشتمل ایک اپارٹمنٹ کی مالک ہیں جسے 2021ء کے اواخر میں تقریباً 5 لاکھ ڈالرز میں خریدا گیا تھا۔

اس اپارٹمنٹ کو بعدازاں ایک سال کے لیے 44 ہزار 923 ڈالرز کے معاہدے کے تحت کرایے پر دے دیا گیا (یہ حساب موجودہ شرح مبادلہ کے مطابق کیا گیا ہے جہاں ایک ڈالر 3.6 اماراتی درہم کے برابر ہے)۔ اس وقت بزنس بے ایکسچینج ٹاور میں ایک دفتر بھی ثمینہ انوار کی ملکیت میں ہے جسے 2018ء میں 2 لاکھ 13 ہزار 452 ڈالرز میں خریدا گیا تھا جس کے بعد سے یہ کرایے پر ہے۔ دبئی کی رہائشی ہونے کی وجہ سے وہ کرایے کی آمدنی پر ٹیکس ادا کرنے کی پابند نہیں ہیں۔

60 لاکھ ڈالرز کا بنگلہ

دو دیگر جائیدادیں جن کی مالک کے طور پر راؤ انوار کی اہلیہ کا نام سامنے آیا، فروخت کی جاچکی ہیں۔ ان میں ایک اپارٹمنٹ شامل ہے جس کی مالیت 2021ء میں 14 لاکھ 80 ہزار ڈالرز تھی۔ اس کے علاوہ 3 بیڈرومز پر مشتمل بنگلہ ہے جس کی مالیت 2022ء میں 4 لاکھ 8 ہزار ڈالرز تھی۔

ثمینہ انوار احمد کے نام پر حدیق شیخ محمد بن راشد کے پوش رہائشی علاقے میں 6 بیڈرومز پر مشتمل ایک بنگلہ بھی سامنے آیا ہے۔ رقم کی منتقلی کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ یہ پراپرٹی زیرِتعمیر ہے جسے 30 مئی 2023ء میں خریدا گیا تھا۔ پراپرٹی کی فروخت میں تاخیر نشاندہی کرتی ہے کہ اس پراپرٹی کی قیمت کی ادائیگی اقساط میں کی گئی ہے۔ ڈیٹا کے مطابق اس بنگلے کی مارکیٹ میں قیمت 66 لاکھ 70 ہزار ڈالرز ہے۔

پاکستان میں یہ مشہور تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے میں راؤ انوار کی ملازمت، ان کے لیے صرف ایک اضافی نوکری تھی۔ ان پر جرائم میں ملوث تنظیموں کی سرپرستی، زمینوں پر قبضے، تعمیراتی کاروبار کے لیے غیرقانونی طور پر ریتی بجری اٹھانا، ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ، غیراخلاقی دھندوں، منشیات اور غیرقانونی واٹر ہائیڈرنٹس کے کاروبار میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں جن میں مبینہ طور پر قتل بھی شامل ہے۔

کراچی میں خون خرابہ

پولیس کے ریکارڈز کے مطابق راؤ انوار 2011ء سے 2018ء کے دوران 745 انکاؤنٹرز میں ملوث رہ چکے ہیں جن میں کم از کم 444 افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم طاقتور حلقوں سے احکامات لینے کی وجہ سے راؤ انوار کو کراچی کے ضلع ملیر کے ایس ایس پی کے طور پر کھلا ہاتھ دے دیا گیا تھا۔

2018ء میں یہ نقیب اللہ محسود کا قتل تھا جس نے عوام میں غم و غصے کو جنم دیا اور یوں راؤ انوار کی دہشت گردی کو حکومت نے لگام دی۔ تاہم ان کے خلاف عدالتی کارروائی 5 سالوں تک چلتی رہی۔ انہیں گزشتہ سال بری کردیا گیا جبکہ اس معاملے پر اپیل کی جا چکی ہے۔ نقیب اللہ کے والد جن کی 2019ء میں وفات ہوچکی، ان کی دائر کی گئی اپیل اب بھی انصاف کی منتظر ہے۔ دوسری جانب راؤ انوار ریٹائرمنٹ کے سالوں میں عیش و عشرت کی زندگی گزار سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی اہلیہ کے ذریعے دبئی ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

ڈاکٹر مختار حامد شاہ جو انسانی اعضا کے اسمگلر کے طور پر بدنام ہوئے اور جس کی بنا پر ان کا نام امریکا کی پابندیوں کی فہرست میں شامل رہا، دبئی میں لاکھوں ڈالرز مالیت کی 9 جائیدادوں کے مالک تھے۔ یہ جائیدادیں جولائی اور اکتوبر 2019 کے درمیان فروخت ہوئیں۔ 2019ء میں ہی ڈاکٹر مختار کا انتقال ہوا جس کے بعد امکان ہے کہ یہ جائیدادیں ان کے ورثا نے فروخت کردی ہوں۔

عالمی تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آیا کہ ڈاکٹر مختار کے نام پر وادی الصفا میں 4 بیڈرومز پر مشتمل ایک بنگلہ تھا۔ وادی الصفا کی ویب سائٹ کے مطابق اس کمیونٹی میں واقع بہت سے گھروں میں پرائیویٹ پولز اور بڑے باغیچے ہیں۔ ڈیٹا کے مطابق یہ بنگلہ اگست 2007ء میں خریدا گیا جس سے 2016ء سے 2018ء کے دوران 91ہزار 208 ڈالرز کرایے کی آمدنی ہوئی۔ وہ میرا میں 3 بیڈرومز پر مشتمل دو بنگلوں کے بھی مالک ہیں۔ میرا ریم کے ماتحت آنے والی ایک کمیونٹی ہے جوکہ ایمار کا ماسٹر پروجیکٹ ہے۔ دونوں بنگلے 2014ء کے اواخر میں یکے بعد دیگرے 9 لاکھ 99 ہزار 500 ڈالرز میں خریدے گئے۔ کچھ معاملات میں کرایے کا ڈیٹا صرف چند سال پہلے تک کی معلومات دیتا ہے۔ ظاہر کرتا ہے کہ ان دو بنگلوں سے 2017ء اور 2018ء کے درمیان 38 ہزار 117 ڈالرز کی کرایے کی آمدنی حاصل ہوئی۔

مہنگے ترین رہائشی منصوبے اولڈ ٹاؤن جوکہ برج خلیفہ کے قریب واقع ہے، یہاں ایک ایک بیڈرومز کے 6 اپارٹمنٹس ڈاکٹر مختار کی ملکیت میں تھے۔ اگرچہ جس عرصے کے دوران یہ جائیدادیں ڈاکٹر مختار کی ملکیت میں تھیں، اس وقت کرایے کی آمدنی کا ڈیٹا انتہائی محدود ہے لیکن پھر بھی ان جائیدادوں سے پیدا ہونے والی آمدنی 5 لاکھ 12 ہزار 591 ڈالرز سے کم نہیں یعنی 14 کروڑ 26 لاکھ 6 ہزار 319 روپے۔

ایک جانب جہاں ریٹائرڈ کرنل ڈاکٹر مختار دبئی کے ریئل اسٹیٹ کاروبار میں اپنی جائیدادیں بنا رہے تھے وہیں دوسری جانب وہ راولپنڈی میں اپنے کڈنی سینٹر ہسپتال میں غیرقانونی اعضا کی اسمگلنگ کا گھناؤنا کام کررہے تھے۔ ان کے ہسپتال سے وابستہ ’ایجنٹ‘ (اور دیگر ہسپتالوں سے بھی) وسطی پنجاب کے غریب علاقوں میں مجبور افراد کو ڈھونڈھتے جن میں سے زیادہ تر مزدور ہوتے جو 2 لاکھ 50 ہزار روپے (900 ڈالرز) میں اپنا گردہ بیچنے پر آمادہ ہوجاتے تھے۔ آپریشن کے بعد انہیں درد کش ادویات اور احتیاطی تدابیر بتا کر گھر بھیج دیا جاتا تھا۔

اعضا کی غیرقانونی اسمگلنگ کا معاملہ

اگرچہ پاکستان کو کسی دور میں ’اعضا کا بازار‘ کہا جاتا تھا لیکن 2007ء میں ایک آرڈیننس کے ذریعے تجارتی پیوند کاری کو جرم قرار دیا گیا اور پھر 2010ء میں اس کے خلاف قانون سازی بھی کی گئی،۔ تاہم 2014ء تک اس قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب اعضا کی فروخت میں تیزی دیکھی گئی اور جس میں کڈنی سینٹر سرفہرست رہا۔ ’ٹرانسپلانٹ ٹورزم‘ کی اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو بلیک مارکیٹ سے خریدے گئے اعضا کی پیوندکاری کے لیے پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور اس طرح کے ٹرانسپلانٹ کی لاگت لگ بھگ ایک لاکھ ڈالرز تھی۔ تو یہ کوئی اتفاق نہیں کہ اس عرصے کے دوران ڈاکٹر مختار نے دبئی میں جائیدادیں خریدیں اور انہوں نے میرا میں 2 بنگلے اور ایک اپارٹمنٹ کی صورت میں ریئل اسٹیٹ کاروبار میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی۔

پولیس کی جانب سے کڈنی سینٹر پر متعدد بار چھاپے مارے گئے اور خاص طور پر 2016ء میں ایک ہولناک انکشاف کے بعد ڈاکٹر مختار اور ڈاکٹر توصیف کو حراست میں لے لیا گیا جب ایک اپارٹمنٹ میں 24 افراد کو ان کی مرضی کے برخلاف تاکہ ان کے اعضا نکالے جاسکیں۔ 2017ء میں ڈاکٹر مختار کی ضمانت قبل از گرفتاری مسترد ہونے کے بعد انہیں جیل بھیج دیا گیا تاہم چند ہفتوں بعد ہی انہیں ضمانت مل گئی۔ گزشتہ سال غیرقانونی ٹرانسپلانٹ کے الزام میں ڈاکٹر توصیف اور ان کے بھائی ڈاکٹر زاہد کو دوبارہ گرفتار کیا گیا لیکن بعدازاں ان کے خلاف مقدمہ خارج کردیا گیا۔

اس وقت ڈاکٹر توصیف التھانیا 5 میں ایک بیڈروم کے اپارٹمنٹ کے مالک ہیں۔ ہم نے اس معاملے پر ان سے تبصرے کی درخواست کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔