• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:11pm
  • LHR: Maghrib 5:05pm Isha 6:32pm
  • ISB: Maghrib 5:05pm Isha 6:34pm

خوراک کا زیاں

شائع September 15, 2013

پاکستان میں کروڑوں بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ فائل تصویر اے پی۔

اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔ خوراک و زراعت کے عالمی ادارے کی جاری کردہ ایک رپورٹ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والی خوراک کا ایک تہائی حصہ ضائع کردیا جاتا ہے، جس کی مالیت سات سو پچاس ارب ڈالر کے لگ بھگ بنتی ہے۔

ایک طرف دنیا بھر میں ضائع کردہ خوراک کا ڈھیر بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف روزانہ آٹھ سو ستّر ملین کے قریب انسان بھوکے سوتے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ خوراک کا ہونے والا یہ زیاں روک دیا جائے تو عالمی قلتِ خوراک پر نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔

جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے تو اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے کی اس رپورٹ نے ایشیا کی صنعتی معیشت کو خوراک کے زیاں کا سب سے بڑا قصوروار قرار دیا ہے۔

علاوہ ازیں، اس کے باوجود کہ پاکستان میں بھی کم خوراکی اورغذائی قلت سنگین صورتِ حال اختیار کرتی جارہی ہے، پاکستانی بھی عالمی سطح پر خوراک کے زیاں میں اپنا اچھا خاصا حصہ ڈال رہے ہیں۔

 اگرچہ پاکستان کی غذائی پیداوار ملکی باشندوں کی ضروریات کے لحاظ سے مناسب ہے تاہم یہاں خوراک کے زیاں کے ذمہ دار عناصر میں لاپرواہی کے ساتھ ساتھ، ہمارے معاشرے میں پلیٹ کو خوب بھرلینے سے بہت زیادہ قلبی لگاؤ کا ہونا بھی ہے۔

مزیدِ برآں، عسکریت پسندی اور قدرتی آفات جیسےعناصر غذائی عدم تحفظ میں اضافے کا سبب ہیں۔ عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ لگ بھگ آدھی آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور بچوں میں کم خوراکی کا مسئلہ زیادہ سنگین نوعیت کا حامل ہے۔

 سبزیوں اور پھلوں پر مشتمل خوراک کی بڑی مقدار پیداواری مرحلے کے دوران اور فصل اتارنے کے بعد نامناسب طور طریقوں کے سبب تلف ہوجاتی ہے جبکہ گندم اور چاول جیسی اجناس، حشرات الارض کے حملوں اور ذخیرہ کرنے کی ناکافی گنجائش کے باعث خطرے کے سامنے رہتی ہے۔

خوراک کی بربادی روکنے کے لیے معاشرے کے عمومی لاپرواہ رویے کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے۔ شادی کی دعوت ہو یا کسی سماجی تقریب کی ضیافت، مشاہدہ ہے کہ شرکا پلیٹوں کو کھانے سے لبالب اور ضرورت سے کہیں زیادہ بھرلیتے ہیں اور پھر اُس میں سے صرف چند لقمے لے کر باقی یونہی چھوڑ دیتے ہیں ڈسٹ بِن میں جا کر ضائع ہونے کے لیے۔

جہاں تک فصلوں پر تحفظات کا تعلق ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ جلد خراب ہوجانے والی اشیائے خوراک کی سپلائی میں بہتری کے نظام اور سرد خانوں (کولڈ اسٹوریج) کی تعمیر پر سرمایہ کاری کرے۔ ساتھ ہی اجناس ذخیرہ کرنے کے لیے مزید گوداموں کی تعمیر کی بھی ضرورت ہے۔

جہاں تک خوراک ضائع ہونے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے معاشرے کے محاذ پر لوگوں کی ذہنیت کو بھی تبدیل کرنے کی اشد ترین ضرورت ہے۔

ملک میں لاکھوں لوگ خوراک کو ترس رہے ہیں ایسے میں یہ صاف بے ضمیری ہے کہ ہم بدستور کھانا ضائع کرتے پھریں۔

ڈان اخبار

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024