• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:26pm

’آئین میں بچوں سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے ہم ایمرجنسی نافذ کررہے ہیں‘

شائع May 13, 2024

لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

گزشتہ ہفتے بدھ کو اسلام آباد میں منعقدہ ایک کانفرنس میں وزیراعظم نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ اگرچہ 18ویں ترمیم کے نتیجے میں تعلیم صوبائی معاملہ بن چکا لیکن وزیر اعظم نے کہا کہ ایمرجنسی ملک کے لیے ہے اور وہ تعاون، تعمیل اور پیروی کو یقینی بنانے کے لیے تمام صوبوں اور وزرائے اعلیٰ کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ مذکورہ کانفرنس میں صوبوں کے نمائندگان بھی شریک تھے۔

ملک میں 5 سے 16 سال کے درمیان تقریباً دو کروڑ 62 لاکھ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ اور جو اسکول جاتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کو معیاری تعلیم فراہم نہیں کی جارہی۔ معیاری تعلیم تک رسائی کا انحصار، والدین کی آمدنی پر ہے کہ جتنی آپ کی آمدنی ہے اسی کے مطابق آپ اپنے بچے کو اسی معیار کی تعلیم مہیا کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر آپ کا بچہ یا تو اسکول نہیں جائے گا یا کسی سرکاری یا کم فیس والے نجی اسکول میں تعلیم حاصل کرے گا اور اس طرح کے زیادہ تر اسکولز معیاری تعلیم کی فراہمی میں ناکام ہوتے ہیں۔

آرٹیکل اے-25 ملک میں 5 سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کو ’مفت اور لازمی‘ تعلیم فراہم کرنے کو کہتا ہے جسے 2010ء میں ہمارے آئین کے بنیادی حقوق کے حصے میں شامل کیا گیا تھا۔ 14 سال بعد ہم نے آئین میں اپنے بچوں کو جس بنیادی حق دینے کا وعدہ کیا تھا، اسے پورا کرنے کے لیے ایمرجنسی کا اعلان کررہے ہیں! اس سے پہلے اپنی تقریر میں وزیراعظم نے اسے مجرمانہ غفلت قرار دیا تھا۔ یہ یقیناً اس سے کہیں زیادہ ہے۔

لغت میں ’ایمرجنسی‘ کے معنی ہیں ’ایک سنگین، غیر متوقع اور خطرناک صورت حال جس کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہوتی ہے‘۔ جہاں تک ملک میں تعلیم کی موجودہ حالت کا تعلق ہے تو بلاشبہ صورت حال سنگین اور خطرناک ہے۔ لیکن یہ غیر متوقع ہر گز نہیں۔ یہ دہائیوں سے تعلیم کو دانستہ اور بامقصد انداز میں نظرانداز کرنے کا نتیجہ ہے۔

آج بھی جب بین الاقوامی ادارے تعلیم پر جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد خرچ کرنے کی سفارش کرتے ہیں تو ہماری حکومت 1.7 فیصد یا اس سے تھوڑا زیادہ ہی خرچ کرتی ہے۔ ماہرین تعلیم، محققین، سول سوسائٹی کے نمائندگان، اساتذہ، والدین اور طلبہ جو برسوں سے اس غفلت کی بات کررہے ہیں، ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ماضی میں سامنے آنے والی ہر تعلیمی پالیسی میں تعلیم کو ہمہ گیر بنانے کا اعادہ کیا گیا۔ اگرچہ ہم نے 1947ء میں پہلی تعلیمی کانفرنس سے درست سمت میں اپنے سفر کا آغاز کیا لیکن ہمیں تعلیم کو عالمگیر بنانے میں ابھی بہت کام کرنا ہے۔ ہماری موجودہ تعلیمی صورت حال ان انتخابات کا نتیجہ ہے جو ہم نے بحیثیت معاشرہ ماضی میں کیے اور اب بھی کررہے ہیں۔

اس تناظر میں ہنگامی حالات میں ’فوری کارروائی کی ضرورت‘ ہوتی ہے جو ابھی ہونا باقی ہے۔ ایمرجنسی کا اعلان کرتے وقت اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا کہ حالات سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے، پالیسی میں کیا تبدیلیاں ہوں گی اور ریاست تعلیم پر کب اور کیسے زیادہ سرمایہ کاری کرے گی۔ یہ سب کب طے ہوگا؟

اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟ اس عمل درآمد کی نگرانی کون کرے گا اور کون اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ہم ’تمام بچوں کے لیے معیاری تعلیم تک رسائی‘ کے ہدف کے حصول کے لیے اقدامات لیں۔ ہم یہ کیسے یقینی بنائیں گے کہ یہ سب کچھ محض بیان بازی نہیں ہے اور حقیقی اقدامات لیے جائیں گے؟

وزیراعظم نے کہا کہ وہ خود نگرانی کریں گے۔ اس طرح پُرعزم ہونا اچھی بات ہے لیکن وزیراعظم کی مصروفیت کو مدنظر رکھا جائے تو یہ کام ان کے لیے کرنا انتہائی مشکل ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ عمل درآمد کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ایک ’ٹاسک فورس‘ ہوگی۔ ٹاسک فورس، اس کا مینڈیٹ اور طاقت، اس کے طریقہ کار کا اعلان بھی نہیں کیا گیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس تمام معاملے میں پیش رفت کب ہوتی ہے۔

اگر ہم اپنے ملک کے تمام بچوں کو معیاری تعلیم تک رسائی فراہم کرنے کے اپنے وعدوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو فوری طور پر جامع کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ کام ایمرجنسی کی آڑ میں ہو تو ایسا ہی صحیح۔ لیکن حکومت کی سنجیدگی ان اقدامات جو وہ اب لیں گے اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نتائج سے ثابت ہوگی۔ بصورت دیگر یہ سب بیان بازی بن کر رہ جائے گی اور یوں ہم ایک اور موقع ضائع کردیں گے۔

کوئی ایک پروگرام نہیں ہوسکتا جس پر تمام صوبائی حکومتیں عمل کریں۔ تمام صوبوں اور وفاق کے مختلف حالات کے پیش نظر اگر حکومتوں کی اپنی ترجیحات مقامی حالات کے مطابق ہیں تو یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ درحقیقت یہ تو اور بہتر ہے کیونکہ مقامی منصوبہ بندی سے مقامی لوگ اسے خود سے جوڑ پائیں گے۔ لیکن تمام حکومتوں کی طرف سے ترجیحات اور جن ایکشن پلانز پر وہ عمل کریں گی، اس کا واضح اعلان ہونا چاہیے۔

پاکستان کے سرکاری شعبے میں تقریباً ایک لاکھ اسکولز ہیں جبکہ مجموعی طور پر 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد اسکولز موجود ہیں۔ اسی طرح ہمارے پاس پبلک سیکٹر میں تقریباً 10 لاکھ اساتذہ ہیں اور مجموعی طور پر 20 لاکھ سے زیادہ اساتذہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ہمارے پاس اب بھی اسکولز اور اساتذہ کی کمی ہے۔ تو ایسے میں ہم یہاں ایک بہت بڑے نظام تعلیم کی بات کررہے ہیں۔ ایک بڑے نظام میں اصلاحات یا بڑے نظام میں تبدیلی کے لیے بڑی اور گہری تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی۔

حکومتیں کافی عرصے سے تعلیم سمیت مختلف شعبہ جات میں چھوٹے چھوٹے اقدامات لے رہی ہیں، لیکن یہ ان دو کروڑ 62 لاکھ اسکول نہ جانے والے بچوں یا اسکولز جانے والے لاکھوں بچوں کے لیے تعلیمی معیار کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کافی نہیں۔

ہمیں مزید اسکولز، اساتذہ اور کلاسز کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی تشخیص اور امتحانی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے نصاب اور کتابوں کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اساتذہ کی تدریسی صلاحیتوں اور علم کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پبلک سیکٹر میں گورننس کے بہتر ڈھانچے کی ضرورت ہے۔

اس سمیت بہت کچھ ہمیں بڑے پیمانے پر تیزی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے مزید وسائل درکار ہوں گے اور اس کو ترجیح بنانے اور ہم آہنگی پیدا کرنے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔ اور اس کے لیے اعلیٰ سطح کی اہلیت کی بھی ضرورت ہوگی۔ ایمرجنسی کا مطالبہ کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ اس سب میں بذاتِ خود توجہ دے رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کیا یہ بیان بازی کے علاوہ بھی کچھ ثابت ہوگا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

فیصل باری

لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] اور [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024