شرح سود میں کمی کیلئے مرکزی بینک پر دباؤ میں اضافہ
مہنگائی کم ہونے کے تناظر میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان پر زری پالیسی کا ہنگامی اجلاس طلب اور شرح سود پر نظرثانی کرنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مہنگائی کے حالیہ اعداد و شمار کے اجرا سے قبل مرکزی بینک نے 29 اپریل کو اجلاس میں شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
کنزیومر پرائس انڈیکس سے پیمائش کردہ مہنگائی کمی کے بعد 17.3 فیصد پر آنے کے بعد صنعت و تجارت نے بلند شرح سود میں کمی کا مطالبہ کیا۔
زیادہ تر مالیاتی ماہرین کو امید تھی کہ رواں ہفتے شرح سود میں کمی کی جائے گی، لیکن انہیں مرکزی بینک کے حد سے زیادہ محتاط انداز کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔
صنعت و تجارت نے شرح سود میں کمی نہ کرنے پر مرکزی بینک پر شدید تنقید کی، کیونکہ اس سے لاگت پیداوار بڑھ گئی ہے اور ان کی مصنوعات کو غیرمسابقتی بنا دیاہے۔
تاہم، مہنگائی کے حالیہ اعداد و شمار کے بعد ایک بار پھر اسٹیک ہولڈرز کو حوصلہ ملا ہے کہ وہ حکومت سے شرح سود میں کمی کا مطالبہ کریں، مالیاتی شعبے میں ذرائع نے بتایا کہ کاروباری برادری حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ مرکزی بینک کو پالیسی ریٹ میں کمی لانے پر قائل کرے۔
ایک سینئر بینکار نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیرمنطقی ہے کہ جب مہنگائی 29 فیصد ہو تو اسٹیٹ بینک شرح سود 22 فیصد کرے لیکن جب افراط زر تنزلی کے بعد 17.3 فیصد پر آجائے تو پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔
بینکر کا کہنا تھا کہ شرح سود مہنگائی کے مقابلے میں 4.7 فیصد زیادہ ہے، لہٰذا واضح طور پر کمی کی گنجائش بنتی ہے۔
شرح سود میں کمی کی پیش گوئی کرنے والے تجزیہ کاروں نے کہا کہ مرکزی بینک کو ہنگامی اجلاس طلب کرنا چاہیے اور شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔