ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں نظر ثانی کا معاملہ: جوڈیشل کمیشن کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی
ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں نظر ثانی کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی ہوگیا۔
ڈان نیوز کے مطابق جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی زیر صدارت ہوا, اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس یحیی آفریدی شریک ہوئے.
اس کے علاوہ اجلاس میں چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے بھی شرکت کی،
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ ،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اور جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک بھی اجلاس میں موجود تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں جوڈیشل کمیشن رولز میں ترمیم کا فیصلہ نہ ہوسکا۔
رولز کی منظوری کا معاملہ آئندہ اجلاس تک ملتوی ہوگیا ہے۔
واضح رہے کہ ترامیم کے مسودے کو 4 دسمبر 2023 کو قائم کی گئی کمیٹی نے حتمی شکل دی جس کے چیئرمین سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ، شریک چیئرمین سابق جج منظور ملک اور دیگر تھے۔
2010 میں جاری کردہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان رولز میں ترامیم کی تجویز پر غور کرنے والے اہم شعبوں میں کمیشن کے اجلاس بلانے اور فیصلے کرنے، سپریم کورٹ میں نامزدگیوں ، اعلیٰ عدالتوں میں نامزدگیوں، ضلعی عدلیہ اور بار کی ترقی کے لیے مناسب نمائندگی، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کے لیے انتخاب کا معیار، ہائی کورٹس میں ایڈیشنل ججوں کی تصدیق، کمیشن کے سیکریٹریٹ کا قیام، سیکریٹری اور دیگر عملے کی تقرری کا عمل شامل ہے۔
کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ سپریم کورٹ کے جج کی تقرری کے لیے چیئرپرسن مقرر کردہ معیار کے مطابق ہر اسامی کے لیے 3 افراد کے نام تجویز کرے گا اور اس آسامی کے خالی ہونے سے 15 دن قبل غور و خوض کے لیے کمیشن کا اجلاس بلائے گا۔
مجوزہ مسودے میں مزید کہا گیا کہ کہ اس کے بعد کمیشن پارلیمانی کمیٹی کی خالی جگہ کے لیے اکثریت سے ایک شخص کو نامزد کرے گا۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی ترقی کے لیے، جہاں روایتی طور پر سب سے سینئر جج کو یہ قلمدان دیا جاتا ہے، ترامیم نے تجویز دی ہے کہ چیف جسٹس کا تقرر اسی ہائی کورٹ کے 5 سینئر ججوں کے پینل سے کیا جائے گا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ کسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے چیئر پرسن اس عہدے کے خالی ہونے سے ایک ماہ پہلے ہائی کورٹ کے پانچ سب سے سینئر ججوں کے ناموں پر غور و خوض کے لیے کمیشن کی میٹنگ بلائے گا۔
بعد ازاں کمیشن ججوں کی تقرری سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کو ایک نام بھجوائے گا۔
ترامیم میں بار کونسلز کی فعال شرکت کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے کیونکہ وکلا کے ریگولیٹری اداروں کے نمائندے خود کو اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے عمل میں خاموش تماشائی کے طور پر محسوس کرتے ہیں حالانکہ آئینی ترمیم کے ذریعے ان کا کردار اس میں شامل کیا گیا تھا۔