• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

آئی بی کی جانب سے آڈیو لیک کیس میں بینچ پر اعتراض واپس لینے کی متفرق درخواست خارج

شائع May 3, 2024
— فائل/ فوٹو:اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
— فائل/ فوٹو:اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کی جانب سے بینچ پر اعتراض واپس لینے کی متفرق درخواست خارج کردی۔

ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے آڈیو لیکس کیس میں بینچ پر اعتراض واپس لینے کی آئی بی کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آئی بی آڈیو لیکس کیس میں بینچ پر اعتراض کی درخواست واپس لینا چاہتا ہے، جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ آپ کی اعتراض والی درخواست تو پہلے ہی خارج کی جا چکی ہے، آرڈر آئے گا تو وہ آپ کو مل جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ آرڈر میں ڈائریکٹر جنرل آئی بی کو نوٹس کیا ہے کہ کیوں نا ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، آرڈر میں یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ کس نے درخواست دائر کرنے کی اتھارٹی دی تھی؟

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ آپ نے جو جواب دینا ہے وہ آرڈر آنے کے بعد دے دیجیے گا۔

بعد ازاں عدالت نے انٹیلیجنس بیورو کی جانب سے بینچ پر اعتراض واپس لینے کی متفرق درخواست خارج کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف کیس پر سماعت کے دوران پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (پی ٹی اے) کی جانب سے جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی متفرق درخواستیں خارج کردیں تھیں۔

عدالت نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ّایف آئی اے) کی درخواستیں 5، 5 لاکھ روپے کے جرمانوں کے ساتھ خارج کر دی تھیں۔

بعد ازاں آئی بی نے دیگر تین اداروں پر 15 لاکھ روپے جرمانے کے بعد اعتراض واپس لینے کی متفرق درخواست دائر کی تھی۔

جسٹس بابر ستار سے کیس سے علیحدہ ہونے کی استدعا کیوں کی گئی؟

27 اپریل کو ’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق آڈیو لیکس کیس میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی استدعا کی تھی۔

آڈیو لیکس کیس میں پیمرا، پاکستان ٹیلی پی ٹی اے، ایف آئی اے اور آئی بی نے متفرق درخواستیں دائر کردیں تھیں۔

ان چاروں اداروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں متفرق درخواست میں مؤقف اپنایا تھا کہ اسی نوعیت کے دوسرے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک اور بینچ فیصلہ دے چکا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے جسٹس بابر ستار سماعت سے معذرت کرلیں۔

یاد رہے کہ 14 مارچ کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی جانب سے مبینہ آڈیو لیک کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس بابر ستار نے کہا تھا کہ کیا پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کسی ایجنسی کو کوئی سہولت فراہم کر رہی ہے؟

5 مارچ کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے پی ٹی اے کے چیئرمین کو طلب کرلیا تھا۔

19 فروری کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف کیس پر سماعت کے دوران سرکاری افسران کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

13 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بشری بی بی اور نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف درخواستوں کو یکجا کردیا تھا۔

19 ستمبر کو سماعت کے دوران آڈیو لیکس کے خلاف کیس میں وزارت دفاع نے سرکاری افسران اور دیگر اہم شخصیات کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ اور لیک ہونے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

اس کے بعد 20 دسمبر کو آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ وفاقی حکومت نے کسی ایجنسی کو آڈیو ٹیپ کی اجازت نہیں دی۔

بعد ازاں 27 دسمبر کو خفیہ ایجنسی نے یہ عندیہ دیا تھا کہ عام ہیکرز مبینہ آڈیو لیک کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں۔

بشریٰ بی بی، نجم ثاقب کی مبینہ ٹیلی فونک کالز لیک ہوگئی تھیں، جس کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، اس حوالے سے دونوں نے عدالت میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں، تاہم عدالت نے نجم ثاقب اور بشریٰ بی بی کی جانب سے دائر علیحدہ علیحدہ درخواستوں کو اکٹھا کردیا تھا۔

آڈیو لیک

واضح رہے کہ 29 اپریل 2023 کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی پنجاب اسمبلی کے حلقہ 137 سے پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والے ابوذر سے گفتگو کی مبینہ آڈیو منظر عام پر آگئی تھی جس میں انہیں پنجاب اسمبلی کے ٹکٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سنا گیا۔

مبینہ آڈیو میں حلقہ 137 سے امیدوار ابوذر چدھڑ سابق چیف جسٹس کے بیٹے سے کہتے ہیں کہ آپ کی کوششیں رنگ لے آئی ہیں، جس پر نجم ثاقب کہتے ہیں کہ مجھے انفارمیشن آگئی ہے۔

اس کے بعد نجم ثاقب پوچھتے ہیں کہ اب بتائیں اب کرنا کیا ہے؟ جس پر ابوذر بتاتے ہیں کہ ابھی ٹکٹ چھپوا رہے ہیں، یہ چھاپ دیں، اس میں دیر نہ کریں، ٹائم بہت تھوڑا ہے۔

اس حوالے سے تحقیقات کے لیے قومی اسمبلی میں تحریک کثرت رائے سے منظور کی گئی تھی، تحریک کے متن کے مطابق سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب کی آڈیو سامنے آئی ہے، مبینہ آڈیو کے معاملے کی فرانزک تحقیقات کرائی جائیں، نجم ثاقب کی آڈیو لیک کی تحقیقات کے لیے خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔

اس تحریک کی منظوری کے اگلے روز ہی اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے تحقیقات کے لیے اسلم بھوتانی کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی قائم کر دی تھی، کمیٹی میں شامل دیگر ارکان میں شاہدہ اختر علی، محمد ابوبکر، چوہدری محمد برجیس طاہر، شیخ روحیل اصغر، سید حسین طارق، ناز بلوچ، خالد حسین مگسی، وجیہہ قمر اور ڈاکٹر محمد افضل خان ڈھانڈلہ بھی شامل ہیں۔

کمیٹی کے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق کمیٹی اپنی تحقیقات اور انکوائری کے سلسلے میں کسی بھی تحقیقاتی ادارے کی مدد لے سکے گی اور اپنی جامع تحقیقات کرکے رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔

30 مئی کو نجم ثاقب نے اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بنائی گئی اسپیشل کمیٹی کی تشکیل چیلنج کردی تھی, درخواست میں نجم ثاقب نے عدالت سے استدعا کی کہ اسلم بھوتانی کی سربراہی میں پارلیمانی پینل کی کارروائی روک دی جائے کیونکہ یہ باڈی قومی اسمبلی کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنائی گئی ہے۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کمیٹی نے انہیں طلب نہیں کیا لیکن کمیٹی کے سیکریٹری نے اس کے باوجود انہیں پینل کے سامنے پیش ہونے کو کہا۔

دوسری جانب 8 دسمبر 2022 کو مبینہ طور پر پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی آڈیو لیک ہوئی جس میں دونوں کو سابق وزیر اعظم کے پاس موجود گھڑیوں کی فروخت کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے سنا جاسکتا ہے۔

21 سیکنڈ پر مشتمل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی آڈیو میں زلفی بخاری اور بشریٰ بی بی کو گھڑیوں کے بارے میں بات چیت کرتے سنا جاسکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024