• KHI: Asr 4:09pm Maghrib 5:45pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:09pm Maghrib 5:45pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

حسان خان نیازی کیخلاف اقدام قتل کیس: عدالت پیشی کی درخواست پر دلائل کیلئے دوبارہ نوٹس

شائع May 2, 2024
—فوٹو: آئی ایس ایف / ٹوئٹر
—فوٹو: آئی ایس ایف / ٹوئٹر

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے زیر حراست رہنما، سابق وزیر اعظم عمران خان کے بھانجے حسان خان نیازی کی اڈیالہ جیل سے پیش کیے جانے کی درخواست پر دلائل کے لیے دوبارہ نوٹس جاری کردیے۔

حسان خان نیازی کے خلاف اقدام قتل کی دفعات کے تحت درج مقدمے کی سماعت ہوئی۔

’ڈان نیوز‘ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کے جج محمد عباس شاہ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے موقع پر ملزم حسان خان نیازی اور وکیل نعیم حیدر پنجوتھا ایڈووکیٹ میں سے کوئی عدالت میں پیش نہ ہوا۔

علی اسفند یار اعوان ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے حسان نیازی کی اڈیالہ جیل سے پیش کیے جانے کی درخواست پر دلائل کے لیے دوبارہ نوٹس جاری کیے۔

حسان نیازی اور نعیم حیدر پنچھوتھا کی عدم پیشی کے باعث عدالت نے سماعت ملتوی کردی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کی جانب سے کیس کی دوبارہ سماعت 13 مئی کو کی جائے گی۔

واضح رہے کہ حسان نیازی کو پولیس نے اگست 2023 میں ایبٹ آباد سے گرفتار کیا تھا، جو 9 اور 10 مئی کے مظاہروں کے بعد سے روپوش تھے۔

15 اگست کو حفیظ اللہ نیازی نے اپنے بیٹے حسان نیازی کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کروائی تھی۔

17 اگست کو ملٹری حکام نے پولیس کو خط لکھ کر درخواست کی کہ حسان نیازی کو ٹرائل کے لیے ملٹری کے حوالے کیا جائے۔

ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی نے مذکورہ خط دیکھا ہے، جو بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر نے سرور روڈ کے انچارج انویسٹی گیشن محمد سرور کو لکھا تھا۔

خط میں کہا گیا کہ 9 مئی 2023 کو جناح ہاؤس، لاہور کنٹونمنٹ میں ہونے والے واقعے میں ملوث حسان نیازی پولیس کی حراست میں ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق فوجی حکام کو انکشاف ہوا کہ حسان نیازی آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی دفعہ 2 (ون) (ڈی) کے ساتھ پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کی دفعہ 59 (4) (سول جرائم) کے تحت جرائم میں ملوث پایا گیا ہے، جو پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ’کورٹ مارشل‘ کے دائرہ کار میں قابلِ سزا جرم/الزامات ہیں۔

مزید کہا کہ لہٰذا فوجی حکام کی طرف سے مشتبہ (…) سے کورٹ مارشل کے ذریعے پوچھ گچھ، تفتیش اور مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

خط میں سرور پولیس اسٹیشن سے مزید درخواست کی گئی کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 549 (3) کے تحت ملزم کو ملٹری حکام کے حوالے کیا جائے تاکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی دفعات کے تحت تفتیش اور اس کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کورٹ مارشل کے ذریعے ٹرائل کیا جاسکے۔

خیال رہے کہ 9 مئی کو القادر ٹرسٹ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی طرف سے ملک گیر احتجاج کیا گیا تھا جس کے دوران فوجی، سول اور نجی تنصیبات کو نذر آتش کیا گیا، سرکاری و نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا تھا۔

مظاہرین نے لاہور میں کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر بھی دھاوا بول دیا تھا جسے جناح ہاؤس بھی کہا جاتا ہے اور راولپنڈی میں واقع جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو)کا ایک گیٹ بھی توڑ دیا تھا۔

اس کے بعد ملک بھر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑائی میں ملوث 1900 مشتعل مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا تھا، جب کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے کارکنوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 15 نومبر 2024
کارٹون : 14 نومبر 2024