• KHI: Fajr 5:51am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:31am Sunrise 6:58am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:51am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:31am Sunrise 6:58am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

ایل این جی ریفرنس واپس: ’معزز افراد کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا‘

شائع May 2, 2024

لکھاری ماہر معیشت و کاروبار ہیں۔
لکھاری ماہر معیشت و کاروبار ہیں۔

چلیے آج کچھ نام لیتے ہیں۔ نام نہاد قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے 2015ء کی ایل این جی ڈیل میں مبینہ کرپشن کا کیس واپس لیے جانے کے بعد سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی معذرت کے مستحق ہیں۔

ان سمیت وہ تمام افراد اب معافی کے مستحق ہیں جنہیں اس کیس میں ملزم قرار دیا گیا تھا۔ ان میں سابق وزیرخزانہ مفتاح اسمعٰیل جن کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا، پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر شیخ عمران الحق جنہوں نے جیل میں وقت گزارا حالانکہ انہیں اپنا جرم تک نہیں پتا تھا، پورٹ قاسم اتھارٹی جہاں ایل این جی ٹرمینل لگایا گیا تھا، اس کے سابق چیئرمین آغا جان اختر، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے سابق چیئرمین سعید احمد خان، اوگرا کے سابق ممبر عامر نسیم، اوگرا کی سابق چیئروومین عظمیٰ عادل خان، پی ایس او کے سابق ایم ڈی شاہد اسلام اور حسین داؤد اور ان کے بیٹے صمد داؤد شامل ہیں۔

مذکورہ بالا تمام افراد کو نیب ریفرینس میں ایل این جی کرپشن کیس میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔ ان میں سے تین، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمعٰیل اور عمران الحق نے تو اس ریفرنس کے نتیجے میں جیل میں بھی وقت گزارا۔ فردِ جرم عائد ہونے سے قبل ہی انہوں نے مہینوں قید میں گزارے۔

شاہد خاقان عباسی کے خلاف پہلا باقاعدہ فردِ جرم عائد ہونے سے قبل انہوں نے جیل میں 138 دن گزارے۔ مفتاح اسمعٰیل جیل میں 118 دن گزار چکے تھے جب تمام ملزمان کے خلاف پہلی چارج شیٹ دائر کی گئی جبکہ شیخ عمران الحق ضمانت ملنے سے قبل فردِ جرم عائد ہوئے بغیر ہی جیل میں 112 دن گزار چکے تھے۔

یہ تمام افراد اور ان کے شریک ملزمان کو بری کیا جاچکا ہے۔ وہ لوگ جو اس کیس کی کارروائی قریب سے دیکھ رہے تھے وہ واقف تھے جو آج کھل کر دنیا کے سامنے آچکے ہیں۔ ایل این جی ڈیل میں کوئی کرپشن نہیں ہوئی تھی۔ معزز افراد کی ساکھ کو صرف اسی لیے مجروح کیا گیا تاکہ انتقام پسند سیاستدان عمران خان اپنی سیاست کو آگے بڑھا سکیں۔ یہ کیس ہرگز شفاف نہیں تھا، سیاسی انتقام تھا۔

ہم شروع سے حقائق سے اس لیے واقف تھے کیونکہ نیب سے تفتیش کے بعد باہر آنے والے بہت سے ملزمان نے ہمیں بتایا کہ ان پر شاہد خاقان عباسی کے خلاف جھوٹے حلف ناموں پر دستخط کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ دورانِ تفتیش انہیں بتایا گیا کہ اگر انہوں نے سابق وزیراعظم پر کرپشن کے الزامات والے حلف ناموں پر دستخط کیے تو انہیں بغیر کسی رکاوٹ کے چھوڑ دیا جائے گا۔ انہوں نے انکار کردیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ الزامات جھوٹے ہیں۔ دسمبر 2019 میں داخل کی گئی عبوری چارج شیٹ میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیے جانے والے ایک ملزم نے دعویٰ کیا کہ اسے دستخط کرنے پر مجبور کرنے کے لیے تشدد (بجلی کے جھٹکے) کا نشانہ بنایا گیا تھا لیکن اس نے پھر بھی دستخط سے انکار کیا۔

معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ دیگر افراد کے خلاف بھی کرپشن کے جھوٹے الزامات عائد کیے گئے جنہیں بعد میں تو بری کردیا گیا لیکن ان کی ساکھ اور عزت پر کیچڑ اچھالا گیا جبکہ انہیں عوامی توہین اور سوشل میڈیا ٹرائلز کا نشانہ بنایا گیا۔ ان میں احسن اقبال، احد چیمہ اور فواد حسن فواد بھی شامل ہیں۔

تادمِ تحریر ایک اور مقدمہ چل رہا ہے جوکہ اتنا معروف نہیں لیکن یہ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کے 13 ایگزیکٹوز کے خلاف ہے۔ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ ملک کی سب سے بڑی سرکاری آئل اور گیس کی کمپنیز میں سے ایک ہے۔ یہ کہانی بھی ایل این جی کیس سے مماثلت رکھتی ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے لگائے گئے الزامات جنہیں ہر ممکن طور پر عدالت کے ذریعے خارج کردیا جائے گا، نے باعزت کارپوریٹ سیکٹر کے افراد کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے جنہوں نے تقریباً ایک دہائی قبل نجی شعبے میں اپنے اچھے کریئر کو چھوڑ کر اس وقت سرکاری اداروں میں قوم کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا جب حکومت کارکردگی بہتر بنانے کے لیے نجی شعبے کے باصلاحیت افراد کو سرکاری اداروں میں شامل کرنے کی بھرپور کوشش کررہی تھی۔ اسی سلسلے کی کڑی کے طور پر شیخ عمران الحق پی ایس او کے ایم ڈی بنے۔

ان 13 افراد میں سے کچھ کے گھروں پر پولیس نے چھاپے مارے، ان کے خلاف جارحانہ طور پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے، انہیں ملازمت سے برطرف کیا گیا اور پھر ہائی کورٹ نے انہیں بحال کردیا۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور وہ ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہوئے۔ ان کا مقدمہ سیاسی نہیں جیسے ایل این جی کیس یا احسن اقبال، احد چیمہ اور فواد حسن فواد کے خلاف مقدمات تھے۔ ان کا مقدمہ سنگین نوعیت کا ہے جو پبلک سیکٹر اداروں میں پھیلا ہوا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دورِ حکومت میں دائر ہونے والے تمام سیاسی کرپشن مقدمات میں ایل این جی کیس سب سے زیادہ ہائی پروفائل تھا۔ اس نے اشارہ کیا کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان اور دیگر پر کرپشن کے ایسے مقدمات بنائے گئے جنہیں ثابت ہی نہیں کیا سکتا۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ’مشین‘ نے کامیابی سے 2015ء کے ایل این جی مقدمے میں کیے جانے والے تمام فیصلوں میں شکوک پیدا کرکے عوامی غصے کو بھڑکایا۔ اسپاٹ مارکیٹ اور 2021ء میں طے پانے والے معاہدے سے موازنہ کرکے ان کا کہنا تھا کہ 2015ء میں طے پانے والے معاہدے کی لاگت بہت زیادہ تھی۔

انہوں نے دلیل دی کہ ٹرمینل کے ساتھ ذخیرہ کرنے کی کوئی سہولیات نہیں بنائی گئیں، اس لیے اس کی پوری صلاحیت استعمال نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے استدلال کیا کہ اسے گیس میں تبدیل کرنے کا ٹیرف بہت زیادہ ہے۔

آج اس کیس کے ساتھ تمام الزمات بھی دفن کردیتے ہیں۔ آج اس سیاہِ طرزِ سیاست کا نشانہ بننے والے تمام افراد ان لوگوں سے معذرت کے مستحق ہیں جنہوں نے ان کے خلاف مذموم مہمات چلائیں۔ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، ٹی وی اینکرز اور سوشل میڈیا ٹرولنگ کرنے والے ان تمام افراد کو معافی مانگنی چاہیے جو کیس کے حقائق پر غور کیے بغیر ان الزامات کو بڑھاوا دے رہے تھے۔ نیب حکام جو جانتے تھے کہ یہ ایک بوگس کیس ہے اور اس کے باوجود اعتراف کروانے کی کوشش کرتے رہے جبکہ انہیں ملزمان کے خلاف کوئی ثبوت بھی نہیں مل سکا، انہیں بھی معافی مانگنی چاہیے۔

خاص طور پر عمران خان کو انتقامی سیاست کے حربوں پر ملک سے معذرت کرنی چاہیے۔ آج ان کے ساتھی یہ دلیل پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہیں اس معاملے میں کچھ کہنے یا کرنے کا اختیار نہیں تھا اور انہیں اسٹیبلشمنٹ نے استعمال کیا۔ یہ سراسر غلط بیانی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے خود کو ہتھیار کے طور پر پیش کیا اور وہ خود ایل این جی کیس میں دلچسپی لے رہے تھے۔ یہی وقت ہے کہ ہم انتقامی سیاست کے دروازوں پر تالا لگا دیں کیونکہ اگر اس کا سلسلہ جاری رہا تو ہمیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024