کوئی شواہد نہیں کہ سائفر عمران خان کے قبضے میں تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ
سائفر کیس میں ایک نیا موڑ سامنے آیا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے پاس ایسے کوئی شواہد نہیں جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ خفیہ کیبلز یا سفارتی مراسلہ سابق وزیراعظم عمران خان کے قبضے میں تھا اور وہ ان کے قبضے سے غائب ہوگیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ریمارکس چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے دیے جس نے عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کی دوبارہ سماعت کی۔
اس سے قبل وکیل دفاع بیرسٹر سلمان صفدر نے وزارت خارجہ کی رپورٹ ہائی کورٹ میں جمع کرائی تھی جس میں سائفر کی تقسیم کی تفصیلات موجود تھیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد سابق آرمی چیف اور چیف جسٹس سمیت تقریباً ہر شخص نے خفیہ دستاویزات واپس کر دی تھیں۔
جب اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ وزارت خارجہ سے وزیراعظم کے دفتر تک سائفر کی نقل و حرکت کی وضاحت کر رہے تھے تو اس دوران جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ ’کیا ایف آئی اے، پراسیکیوٹنگ ایجنسی کے پاس کوئی ریکارڈ دستیاب ہے جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ عمران خان نے سائفر اپنے قبضے میں رکھا۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایسا کوئی ریکارڈ موجود ہے جس سے ظاہر ہوسکے کہ پرنسپل سیکرٹری نے سائفر وزیر اعظم کے حوالے کیا؟
اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ اُس وقت کے پرنسپل سکریٹری اعظم خان نے عدالت کے سامنے گواہی دی تھی کہ سائفر سابق وزیر اعظم خان کو دیا گیا تھا اور انہوں نے پھر کبھی واپس نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ یہ سنی سنائی بات ہے، امکان ہے کہ سابق وزیر اعظم نے سیکرٹری کو سائفر واپس کرنے کی ہدایت کی ہو گی۔
تاہم حامد علی شاہ نے کہا کہ عدالت کے پاس اس بات پر یقین کرنے کی کافی وجوہات ہیں کہ سابق وزیر اعظم نے سائفر وصول کیا اور پڑھا، جس کی بنیاد پر انہوں نے عوامی تقریریں کیں اور یہاں تک کہ امریکا کو ڈیمارش بھیجا تھا۔
جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’لیکن ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ اسے واپس نہیں کیا گیا؟‘
حامد علی شاہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیس کے گواہوں نے حلف لے کر کہا ہے کہ عمران خان نے کبھی بھی خفیہ دستاویز واپس نہیں کی، عوامی تقریر اور ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو کے دوران مسٹر خان نے خود اعتراف کیا کہ سائفر ان کے قبضے میں تھا۔
جسٹس اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ سیاستدان ایسے بیانات ہجوم کو خوش کرنے کے لیے دیتے ہیں۔
بعدازاں انہوں نے وکیل سے کہا کہ وہ اعظم خان کے مبینہ اغوا کے حوالے سے درج ایف آئی آر کی پیشرفت کے بارے میں عدالت کو آگاہ کریں۔
جسٹس عامر فاروق نے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ 2 مئی تک ایف آئی آر کے حوالے سے چالان یا ڈسچارج رپورٹ پیش کریں۔
سائفر کیس پس منظر
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج ایف آئی ار میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔