سینیٹرز نے ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن میں امریکی فرم کے کردار پر سوال اٹھادیے
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈیجیٹلائزیشن کے لیے ایک امریکی فرم کی خدمات حاصل کرنے نے سینیٹ اجلاس میں خطرے کی گھنٹی بجادی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیر کو مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر سعدیہ عباسی نے سب سے پہلے غیر ملکی لوگوں کے ساتھ آمدنی کے ذرائع کی نشاندہی کرنے کے والے ایف بی آر کے اہم ڈیٹا کو شیئر کرنے کے خدشے پر اعتراض اٹھایا۔
یہ اعتراض ایوان میں آنے والی ٹریبیونلز اور اعلی عدلیہ کے اندر قانونی چارہ جوئی میں پھنسے ہوئے 2 کھرب روپے سے زائد کی وصولی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے منی بل کا جائزہ لینے کے لیے بنائی گئی خصوصی 3 رکنی کمیٹی کی رپورٹ پر اٹھایا گیا۔
سینیٹر سعدیہ عباسی نے ایک خبر کا حوالہ دیا جس کے مطابق ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن پر ایک امریکی کثیر القومی حکمت عملی اور انتظامی مشاورتی فرم میکنزی اینڈ کمپنی نے تجویز دی ہے، وہ حیران تھیں کہ کیا پاکستان میں کام کرنے کے لیے کیا لوگوں کی کمی ہے؟
سینیٹر نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (پی پی آر اے) کے قوانین اور معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کو نظر انداز کرتے ہوئے میکنزی اینڈ کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت کس نے دی؟ انہوں نے نوٹ کیا کہ ٹینڈرز کو مدعو کیا جانا چاہیے تھا اور اس بات پر اصرار کیا جانا چاہیے تھا کہ ایک فرد ایسے فیصلے نہیں کر سکتا۔
اس کے بعد انہوں نے ایک پریس ریلیز پڑھ کر سنائی جس میں کہا گیا تھا کہ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن سے متعلق اسٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی جس میں ایف بی آر کے چیئرمین، سی ای او کارنداز اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے نمائندوں سمیت ’اہم اسٹیک ہولڈرز‘ نے شرکت کی، انہوں نے پوچھا کہ گیٹس فاؤنڈیشن ایف بی آر کے معاملات میں کلیدی اسٹیک ہولڈر کیسے بنی؟
سعدیہ عباسی نے مزید کہا کہ یہ ایک این جی او ہے جو پاکستان میں میکرو فنانسنگ کے لیے آئی تھی، انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ دوسروں کا ایجنڈا قانون سازوں پر مسلط کیا گیا اور ان سے اسے آگے بڑھانے کے لیے کہا جا رہا ہے، ایسی باتیں ملک کے لیے نقصان دہ ہوں گی۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سید شبلی فراز نے بھی ان کے خیالات کی تائید کی اور پوچھا کہ منی بل پاس کرنے کی کیا عجلت تھی؟ انہوں نے کہا کہ بلڈوزنگ قوانین کا رواج ختم ہونا چاہیے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بل ایوان میں بحث کے بغیر منظور کر لیے جاتے ہیں، صرف تین سینیٹرز نے منی بل کا جائزہ لیا ہے ، شبلی نے یہ نوٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بلڈوزنگ قانون سازی کی ایک نفیس شکل ہے۔
تاہم وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے اپوزیشن کے قانون سازوں کو مشورہ دیا کہ وہ مخالفت کی خاطر مخالفت سے گریز کریں اور حکومت کے مثبت اقدام کی حمایت کریں۔
ایوان نے بعد میں سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی طرف سے پیش کی گئی تحریک کے ذریعے خصوصی کمیٹی کی سفارشات کو منظور کر لیا۔
’ایکسٹینشن‘ سے انکار
مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان صدیقی نےپی ٹی آئی کے قانون ساز عون عباس کے ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے قانون سازی کے حوالے سے خدشات کا جواب دیتے ہوئے پیر کو سینیٹ کو بتایا کہ ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر کا کہنا تھا کہ ’ہم عدلیہ کی اصطلاح کا تعین کرنے کے لیے ربڑ اسٹیمپ بننے جا رہے ہیں، لیکن پی ٹی آئی اس کا حصہ نہیں بنے گی۔ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار کے خلاف مہم کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کے کسی بھی اقدام کی تردید کرتے ہوئے سینیٹر صدیقی نے ججوں پر کیچڑ اچھالنے کے رجحان کو بھی افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ یہ قابل مذمت ہے۔
دریں اثنا، جے یو آئی (ف) کے مولانا عطا الرحمن نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کو دوسرے صوبوں کے برعکس سینیٹ میں مکمل نمائندگی سے محروم رکھا گیا اور وہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس کا جرم کیا ہے؟ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا صوبے کی احساس محرومی میں اضافہ کرنا جرم نہیں؟ انہوں نے اپنی پارٹی کے اس مؤقف کو بھی دہرایا کہ ان کی جماعت نے نہ تو 2018 کے انتخابات کے نتائج قبول کیے اور نہ ہی 2024 کے انتخابات کے۔