پاکستان کے مایہ ناز بیوروکریٹ روئیداد خان سیاسی تاریخ کے معتبر گواہ
جنرل ایوب خان سے لے کر نواز شریف تک، متعدد حکمرانوں کے دور میں خدمات سرانجام دینے والے پاکستان کے مایہ ناز بیوروکریٹ روئیداد خان 101 برس کی عمر میں اسلام آباد میں چل بسے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وہ تقسیمِ ہند سے قبل مردان میں پیدا ہوئے، انہوں نے گزشتہ سال 23 ستمبر کو اپنی 100ویں سالگرہ منائی، ان کی رحلت کا اعلان سیاستدان اور ان کے رشتہ دار مشاہد حسین سید نے کیا۔
انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا، ’انہوں نے اپنی پوری زندگی بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پاکستان کی خدمت کی، وہ اسلام آباد کے لیے ماحولیاتی تحفظ کے علمبردار تھے، انہوں نے کتابیں تصنیف کیں اور جمہوریت اور انسانی حقوق کے دلیر کارکن بنے، وہ واقعی ہمارے دور کی ایک منفرد، کثیر جہتی شخصیت تھے جنہیں ان کے مداح یاد رکھیں گے‘۔
روئیداد خان کے لواحقین میں 5 بیٹے اور ایک بیٹی ہے، انہیں اسلام آباد کے ایچ-11 قبرستان میں سپردخاک کیا گیا جبکہ ان کے نمازِجنازہ میں افراسیاب خٹک، وسیم سجاد، راجا ظفرالحق، اشرف جہانگیر قاضی، ریاض محمد خان، فیصل جاوید سمیت دیگر کئی اہم شخصیات نے شرکت کی۔
عوامی خدمت کے شعبے میں خدمات
لاہور کے فارمن کرسچن (ایف سی) کالج اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل روئیداد خان نے 1949 میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس میں شمولیت اختیار کی۔
ایوب خان کے دورِ صدارت میں انہوں نے بطور پشاور ڈپٹی کمشنر خدمات سرانجام دیں اور انہیں بعدازاں 1963 سے 1965 تک کمشنر کراچی تعینات کر دیا گیا، یہ وہی دور تھا جب دارالحکومت اسلام آباد منتقل کیا جارہا تھا۔
جنرل یحییٰ خان کے دورِحکومت میں 1970 کے تاریخی انتخابات کے دوران انہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کی سربراہی کے فرائض سرانجام دیے، اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وہ شعبہِ سیاحت کے وفاقی سیکریٹری تھے، بعدازاں 1978 سے 1988 کے درمیان جنرل ضیاالحق کے دور میں روئیداد خان نے وفاقی سیکریٹری برائے داخلہ کے طور پر کام کیا۔
اس کے بعد ان کے دوست اور دیرینہ ساتھی غلام اسحٰق خان نے انہیں وزارتِ داخلہ کا سیکریٹری جنرل تعینات کردیا، عوامی خدمت کا شعبہ چھوڑنے کا اعلان کیا تو فوری طور پر روئیداد خان کو 1990 میں نواز شریف کے پہلے دورِحکومت میں وزیرِ احتساب تعینات کردیا گیا۔
لیکن روئیداد خان نے سول ملٹری تعلقات، بیوروکریسی کے ذریعے اختیارات کے ناجائز استعمال اور اپنی صفوں میں بدعنوانی جیسے متنازع موضوعات پر زیادہ توجہ نہیں دی، ان کی کتاب اے ڈریم گون سور (A Dream Gone Sour) بھی انہی مواقع کے حوالے سے تھی جن سے پاکستان ایک پُرامن ملک کے طور پر ترقی کرسکتا تھا، مگر وہ مواقع ضائع کردیے گئے۔
2014 میں ڈان ہیرالڈ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے ’ مہم جو فوجی حکمرانوں اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے خود کو غیر محفوظ محسوس تصور کرنے والے سیاستدانوں’ کو مورد الزام ٹھہرایا لیکن انہوں نے اپنے کسی بھی حقیقی یا تصوراتی کردار کا فوری دفاع کیا، انہوں نے کہا، ’میں سول سروس میں تھا، میرا کام خدمت کرنا تھا، میں نے کچھ غلط نہیں کیا‘۔
یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ روئیداد خان وہی شخص تھے جنہوں نے سیکریٹری داخلہ کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حکم پر دستخط کیے لیکن انہوں نے اس دعوے کی تردید کی، انہوں نے ہیرالڈ کو بتایا، ’میں نے پھانسی کے حکم نامے پر دستخط نہیں کیے تھے، راولپنڈی کی سینٹرل جیل پنجاب کے ہوم سیکریٹری کے ماتحت ہے، وفاقی سیکریٹری داخلہ کے نہیں۔۔۔ بلیک وارنٹ لاہور سے آئے تھے‘۔
ریٹائرمنٹ کے بعد
ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بیوروکریٹ روئیداد خان سول سوسائٹی کے ایکٹو ممبر رہے۔
مشاہد حسین کے مطابق روئیداد خان نے ریٹائرمنٹ کے بعد عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) میں شمولیت اختیار کرلی تھی، اس وقت ان کے بھائی عبدالخالق خان پارٹی کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔
مشاہد حسین بتاتے ہیں کہ 1988 میں وہ (بطور صحافی) اور روئیداد خان (بطور ممبر اے این پی) نے جلالہ آباد میں خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کے جنازے میں شرکت کی۔
تقریباً 5 سال قبل روئیداد خان نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی۔
مشاہد حسین نے ڈان کو بتایا، ’وہ مارگلہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے بانی صدر تھے اور انہوں نے مارگلہ ہلز میں مجوزہ سرنگ کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا تھا جسے وہ جیت گئے تھے، انہوں نے 2007 میں عدلیہ بحالی کی تحریک میں بھی فعال کردار ادا کیا تھا‘۔
مشاہد حسین سید ’سیٹرڈے کلب‘ کو بھی یاد کرتے ہیں جس میں ریٹائرڈ جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹس، سفارت کاروں اور دیگر اہم شخصیات کو روئیداد خان کی رہائش گاہ پر جمع ہوتے تھے تاکہ وہ ان کے ساتھ تمام معاملات پر گفتگو کریں۔