• KHI: Asr 4:08pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:25pm Maghrib 5:02pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm
  • KHI: Asr 4:08pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:25pm Maghrib 5:02pm
  • ISB: Asr 3:25pm Maghrib 5:03pm

چیف جسٹس کے استعفے کا مذموم مطالبہ کرنے والے عدلیہ میں تقسیم چاہتے ہیں، پاکستان بار کونسل

شائع April 5, 2024
—فائل فوٹو: پی بی سی ویب سائٹ
—فائل فوٹو: پی بی سی ویب سائٹ

پاکستان بار کونسل نے کہا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے استعفے کا نا مناسب مطالبہ کرنے والے عدلیہ میں تقسیم چاہتے ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط سے متعلق پاکستان بار کونسل کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس کے دوران پاکستان بار کونسل نے ججز کے خط کے معاملے پر قرارداد منظور کی۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق کے استعفے کا مطالبہ نامناسب ہے، ایسے مطالبات عدلیہ کی آزادی کو نیچا دکھانے کے مترادف ہیں، چیف جسٹس کے استعفے کامطالبہ وہی کر رہے ہیں جو عدلیہ میں تقسیم چاہتے ہیں۔

پاکستان بار کونسل نے کہا کہ ہائیکورٹ ججز کے خط کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیے، سوموٹو کیس کے بھی جلد فیصلہ کیا جائے، استعفے سے معاملات حل نہیں مزید خراب ہوں گے، استعفے کے مطالبے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ واضح رہے کہ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا خط منظر عام پر آیا تھا۔

یہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

خط میں کہا گیا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔

خط میں مزید کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اس وقت برطرف کر دیا گیا تھا جب ان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بینچز کی تشکیل اور احتساب عدالت اسلام آباد میں مقدمات کے ٹرائل میں مداخلت کرتے ہیں۔

خط کے مطابق ان الزامات کے بعد اس وقت کی وفاقی حکومت اور آرمی چیف کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف شکایات دائر کی گئی تھیں۔

اس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے حالیہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے تحقیقات کیے بغیر برطرف نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برترفی کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔

خط کے مطابق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے مؤقف کی جیت ہوئی ہے تاہم غیر قانونی برطرفی کا ازالہ ممکن نہیں، کیا اس وقت واقعی خفیہ ایجنسی کے اہلکار عدالتی معاملات میں مداخلت کر رہے تھے؟ اس کا جواب نہیں مل سکا ہے، اگر خفیہ ایجنسی کے اہلکار واقعی عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے میں ملوث تھے تو کیسے ان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

متن کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی میڈیا انٹرویوز میں خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ دہرایا۔

خط میں کہا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں؟

ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا۔

خط میں کہا گیا تھا کہ ہم درخواست کرتے ہیں کہ عدالتی امور میں انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت اور عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کے لیے ججوں کو دھمکانے کے معاملے پر غور کرنے کے لیے ایک جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔

اس کے ایک روز بعد مختلف حلقوں کی جانب سے اس کی تحقیقات کے مطالبات سامنے آئے، جس کے پیشِ نظر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججز کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا۔

28 مارچ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس عیسیٰ سے ملاقات کی، جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔

30 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے الزامات پر ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا، تاہم اگلے روز انہوں نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی تھی۔

ان کی معذرت کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے معاملے پر از خود نوٹس لیا تھا اور پہلی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر فل کورٹ تشکیل دے دیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی تھی، بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان شامل تھے۔

31 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے پر 300 سے زیادہ وکلا نے سپریم کورٹ سے آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے عدالتی امور میں مداخلت کرنے کے الزامات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 19 نومبر 2024
کارٹون : 18 نومبر 2024