اسٹیج ڈرامے جو کبھی عید پر تفریح کے لیے ہمارا انتخاب ہوا کرتے تھے
پاکستان میں عیدالفطر اور عیدالاضحٰی ایسے تہوار ہیں جن سے مذہبی فریضے اور سماجی سرگرمی کے ساتھ ساتھ کچھ تفریحی پہلو بھی منصوب ہیں۔ اہل خانہ کے ساتھ کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے جانا، سینما میں اپنی پسندیدہ فلم دیکھنا یا پھر تھیٹر ڈراما دیکھنے جیسی تفریحی سرگرمیوں سے عید کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔
جیسے جیسے وقت گزررہا ہے، معاشرتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب کچھ بدل رہا ہے۔ پاکستانی فلمی صنعت کی زبوں حالی کا عالم یہ ہے کہ اس عید پر صرف ایک فلم ’دغا باز دل‘ ریلیز ہورہی ہے جس کی کہانی یکسانیت سے بھرپور ہے۔ ان روایتی فلموں سے فلم بین اب تنگ آچکے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب فلم سازوں کے درمیان مقابلہ ہوا کرتا تھا کہ کون اپنی فلم عید جیسے اہم تہوار پر ریلیز کرے گا۔ اسی طرح کھانا پینا اور دیگر سماجی سرگرمیوں میں بھی کمی آتی چلی گئی۔ ایک دور وہ بھی تھا کہ جب لوگ اسٹیج پر پیش کیے جانے والے ڈرامے جنہیں عرف عام میں ’کمرشل تھیٹر‘ بھی کہا جاتا ہے، انہیں دیکھنے کے لیے جوق در جوق تھیٹر ہالز کا رخ کیا کرتے تھے۔ (یہ الگ بحث ہے کہ سنجیدہ تھیٹر کے حلقہ احباب اسے تھیٹر نہیں مانتے۔)
اس تحریر میں ہم اسٹیج ڈراموں کے نشیب و فراز پربات کریں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا اب بھی ہمارے معاشرے میں تفریح کا یہ ذریعہ اسی طرح مقبول ہے جیسا ماضی میں تھا؟ یا جہاں اس ملک میں دیگر فنون ثقافتی زوال پذیری کی نذر ہوگئے، وہیں کیا اسٹیج ڈراموں کا عہد بھی ختم ہوچکا ہے؟ نوسال قبل شائع ہونے والے میرے مضمون میں آپ اس فرق کو واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
پنجابی زبان میں کمرشل تھیٹر
تھیٹر کے عمومی منظرنامے پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو پاکستان میں مستقل طور پر تین زبانوں میں تھیٹر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ عام دنوں یا تہواروں کے مواقع پر اردو، پنجابی اور انگریزی زبانوں میں تھیٹر پیش کیا جاتا ہے۔
پنجابی تھیٹر وہ کمرشل تھیٹر ہے جو لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں پیش کیا جاتا ہے اور اس کی مقبولیت آج بھی قائم ہے۔ عید پر لوگ پانچ ہزار کا ٹکٹ لےکر بھی یہ تھیٹر دیکھنے جاتے ہیں۔ یہ آج بھی عید کے تہوار کا توشہ خاص ہے جسے فلم اور ٹی وی سمیت دیگر میڈیمز سے زیادہ اہمیت حاصل ہے مگر اس کی اہمیت ایک مخصوص حلقے تک محدود ہے۔
پرانے دور میں لوگ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ کمرشل تھیٹر دیکھنے آتے تھے جبکہ اب اس میں فحش گوئی کا عنصر غالب آگیا ہے جس کی وجہ سے یہ سرگرمی تہواروں پر صرف مرد حاضرین کے لیے مختص ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ ایک ایسا تھیٹر ہے جو دیکھنے تو مرد آتے ہیں مگر اس میں کام کرنے والی فنکار خواتین ہیں جن کی بے باکی ہی ان کی شہرت اور معاوضے میں اضافہ کرتی ہے۔ اس دوڑ میں ہر اداکارہ یا رقاصہ ایک دوسرے سے آگے نکلنا چاہتی ہیں۔ البتہ کراچی میں پیش کیا جانے والا تھیٹر بھی مردوں کے لیے ہی مختص ہے۔
اسٹیج ڈراموں میں کہانی اور جگت اب دم توڑ رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں اس کی مقبولیت کم ہوتی جارہی ہے۔
لاہور میں امان اللہ اور کراچی میں عمر شریف نے اس کمرشل تھیٹر میں اپنی طرز کے الگ ناظرین پیدا کیے جو عام اور سنجیدہ ڈراموں سے مختلف تھے۔ اسی کے تناظر میں لاہور میں سہیل احمد جبکہ کراچی میں معین اختر نے ایک خاص تہذیبی انداز میں مزاح پیش کیا جس سے ان کی شہرت ہوئی اور انہیں سنجیدہ ناظرین نے اہمیت دی لیکن اس کے باوجود کمرشل تھیٹر میں پہلی طرز کے کامیڈینز اور ڈراما اداکار چھائے رہے جنہیں دنیا امان اللہ اور عمر شریف کے نام سے جانتی ہے۔
بعدازاں آنے والوں میں سے اکثریت نے انہیں کی پیروی کی۔ آج بھی اس نوعیت کا تھیٹر لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں پیش کیا جاتا ہے جبکہ کراچی میں بھی اکا دکا ڈرامے ہورہے ہیں مگر اب وہ تہواروں کی زینت بننے کی سکت نہیں رکھتے، اس لیے ان کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
اردو زبان کا سنجیدہ تھیٹر
نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) نے اردو میں بہت سے سنجیدہ کھیل پیش کیے جن میں سے بہت سے کھیلوں کو مختلف تہواروں میں بھی پیش کیا گیا مگر یہ ڈرامے زیادہ مقبولیت حاصل نہ کرسکے جس کی بنیادی وجہ کہانیوں کا اوریجنل نہ ہونا ہے۔ زیادہ تر کھیل مغربی پلے کا ترجمہ کرکے پیش کیے جاتے ہیں جبکہ ناقص پبلسٹی بھی ان کے فروغ میں آڑے آئی۔
تقریباً دو دہائیوں سے مصروف اس تھیٹر کو ناظرین کی طرف سے مخصوص حد سے زیادہ توجہ حاصل نہیں ہوسکی ہے بلکہ اب تو یہ ادارہ تھیٹر کے نام پر دیگر سرکاری ثقافتی اداروں کی طرح ایک نام نہاد سرکاری ادارہ بن کر رہ گیا ہے جو صرف خزانے پر بوجھ ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ عالمی تھیٹر فیسٹیول کرواتے تھے۔ وہ ایک عمدہ سلسلہ تھا مگر اب وہ بھی موقوف ہوچکا ہے۔
ان کے مقابلے میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نے تھیٹر کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ تھیٹر فیسٹیولز کی بنیاد بھی ڈالی جس نے ناظرین کی زیادہ توجہ حاصل کی مگر اس میں بھی معاشی پہلو بہت زیادہ مثبت نہیں رہا۔ تھیٹر فیسٹیولز کو جب انہوں نے اپنے ممبران کے لیے مفت پیش کیا تو لوگوں نے وہ کھیل دیکھے۔ لیکن بدقسمتی سے ان کے پاس بھی تھیٹر کے حوالے سے کوئی معاشی منصوبہ بندی نہیں ہے جس سے تھیٹر اپنے قدموں پر کھڑا کیا جاسکے۔
حتیٰ کہ ہولی وڈ کے پاکستانی نژاد امریکی اداکار فاران طاہر جیسی شخصیت نے کراچی میں آکر تھیٹر کیا مگر انہیں بھی وہ توجہ نہ مل سکی جو ملنی چاہیے تھی۔ اب بڑے بڑے فنکار اور عید جیسے بڑے تہوار بھی تھیٹر کو سہارا نہیں دے پا رہے۔ فلمی صنعت کی طرح تھیٹر بھی اپنے حتمی انجام کی جانب رواں دواں ہے۔
پاکستان ٹیلی وژن کی معروف شخصیت اور ڈراما نگار جناب انور مقصود کے پی ٹی وی ڈراموں کو بنیاد بناکر کچھ تھیٹر پلیز کیے گئے اور کچھ تھیٹر کے ناٹک انہوں نے نئے بھی لکھے جن میں چودہ اگست کے سابقے اور لاحقے استعمال کرکے ایک پوری سیریز تخلیق کی گئی جس کی ہدایت کاری داور محمود نے کی۔ انہیں ابتدا میں کافی کامیابی ملی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی غیر معیاری اور معاشی طورپر کمزور ہونے لگے۔
البتہ تھیٹر کے اس ماڈل میں دم ہے۔ اگرچاہیں تو انگریزی تھیٹر کی طرح یہ بھی معاشی طور پر مضبوط ہوسکتا ہے اور عید جیسے تہواروں پر تفریح کا ذریعہ بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے صرف انور مقصود کا نام کافی نہیں بلکہ اس حوالے سے دیگر پہلوؤں پر بھی کام کرنا ہوگا۔
انگریزی زبان کا کمرشل تھیٹر
پاکستان میں سب سے کامیاب انگریزی زبان میں پیش کیا جانے والا تھیٹر ہے۔ شاہ شرابیل اور ندا بٹ نے تجارتی بنیادوں پر تھیٹر کو فعال کیا۔ میں شاہد ہوں کہ ان تھیٹر میں ہاؤس فل ہوئے اور اندر آڈیٹوریم میں قدم رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ ان لوگوں کے پاس ڈراموں کا جدید پیرہن اور انداز ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے پاس مکمل منصوبہ بندی بھی ہے۔ اسی لیے جب یہ کھیل پیش کیے جاتے ہیں تو یہ چھا جاتے ہیں۔ پاکستان کی مجموعی حیثیت میں اب تک یہ سب سے کامیاب تھیٹر ثابت ہوا ہے۔ ان کے پاس یہ صلاحیت بھی ہے کہ جب چاہیں یہ عید جیسے تہواروں پر ہاؤس فل کرسکتے ہیں۔ اردو تھیٹر کو ان سے سبق سیکھنا چاہیے۔
حرف آخر
اب بھی موجودہ صورت حال میں پاکستانیوں کو عید جیسے تہواروں پر نت نت تفریحی مواقع کی تلاش ہوتی ہے۔ لوگ گھروں سے نکل کر کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ اچھی فلم اور تھیٹر ڈراما بھی دیکھنا چاہتے ہیں لیکن مجموعی طورپر فی الوقت فلم اور تھیٹر عوام کی اس ضرورت کو پورا کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
تھیٹر والے چاہیں تو اب بھی ماضی کی طرح وہ ہاؤس فل کرسکتے ہیں اور اس کے لیے انہیں معیاری تھیٹر تخلیق کرنا ہوگا جو تخلیقی طور پر مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی طورپر بھی پختہ ہو تاکہ وہ زیادہ دیر تک ناظرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواسکے اور ساتھ ہی معاشرتی سکون اور تفریح کی غرض سے اپنے حصے کا مثبت کردار بھی نبھا سکے۔
عید کے بعد کراچی آرٹس کونسل آف پاکستان میں ’ہوٹل جانِ جاناں‘ تھیٹر پلے ہونے جارہا ہے جس کے مصنف بابر جمال ایک باصلاحیت تھیٹر ڈراما رائٹر ہیں۔
اب یہ متعلقہ فنکاروں اور اداروں کے سوچنے کا کام ہے کہ تھیٹر کی روایت کو عید سے کیسے منسوب رکھا جا سکتا ہے، بقول شاعر مشرق علامہ اقبال،
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔