افغان وزیر کی پاکستان، کالعدم ٹی ٹی پی سے قیامِ امن کیلئے مذاکرات کی اپیل
افغان طالبان کے ایک سینیئر رہنما نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں ایک کالعدم عسکریت پسند تنظیم کی سرگرمیوں کے سبب عالمی برادری کی انگلیاں افغانستان کی جانب اُٹھ رہی ہیں، انہوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اسلام آباد پر زور دیا کہ وہ قیام امن کی خاطر مل بیٹھ کر مذاکرات کریں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیر داخلہ محمد نبی عمری نے جنوب مشرقی قصبے خوست میں افطار کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت پاکستان سے کہتے ہیں اور جو بھائی (کالعدم ٹی ٹی پی) ان سے لڑ رہے ہیں اُن کو مشورہ دیتے ہیں کہ ساتھ بیٹھیں اور بات چیت کریں۔
افغان طالبان نجی طور پر پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی پر براہ راست مذاکرات کے لیے زور دیتے آئے ہیں تاکہ 2 دہائیوں پر محیط یہ تنازع ختم ہو جس میں ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں اور قبائلی علاقے میں لوگوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی دیکھی گئی۔
لیکن یہ پہلا موقع ہے جب افغان طالبان کی کسی سینیئر شخصیت نے اس موضوع پر اعلانیہ بات کی، انہوں نے نہ صرف پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان براہ راست بات چیت کا مطالبہ کیا بلکہ عسکریت پسند گروہ کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا۔
افغان حکومت کی جانب سے ماضی میں دونوں فریقین کے درمیان بات چیت میں ’سہولت کاری‘ فراہم کرنے کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں، پاکستان دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام افغانستان پر عائد کرتا ہے اور کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر زور دیتا ہے۔
افغان طالبان نے سختی سے اس بات کی تردید کی ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی افغان سرزمین استعمال کر رہی ہے، انہوں نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ اپنے اندرونی سیکیورٹی مسائل کا حل اپنی سرحدوں کی حدود میں ہی تلاش کریں۔
مارچ میں شمالی وزیرستان میں ایک خودکش بم حملے میں 7 فوجیوں کی شہادت کے ردعمل میں پاکستان نے افغانستان کے علاقے خوست اور پکتیکا میں فضائی حملے کیے جس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔
نائب وزیر داخلہ محمد نبی عمری نے کہا کہ ہم نے جنگ اور انقلاب دیکھا ہے، یہ جنگیں اور انقلابات اپنے پیچھے بیواؤں اور یتیموں کو چھوڑ جاتے ہیں، وطن اور معیشت کو تباہ کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب دنیا بہانہ بناتی ہے کہ یہاں افغانستان میں دہشت گرد موجود ہیں اور القاعدہ موجود ہے، میں قسم کھاتا ہوں کہ ہماری معلومات کے مطابق افغانستان میں القاعدہ کا ایک بھی رکن نہیں ہے۔
تاہم نائب وزیر داخلہ نے افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی موجودگی پر کوئی بات نہیں کی۔
محمد نبی عمری نے پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کو خبردار کیا کہ دونوں فریق جنگ نہیں جیت سکتے، افغان طالبان کے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک کروڑ افرادی قوت کی حامل مضبوط فوج ہونے کے باوجود اپنے مخالفین کا قلع قمع نہیں کر سکا، اسی طرح کالعدم ٹی ٹی پی بھی یہ جنگ نہیں جیت سکتی، افغان طالبان نے اس لیے جنگ جیتی کیونکہ پوری افغان قوم ان کے پیچھے کھڑی ہے، انہیں خوراک اور رہائش فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے افغان طالبان کے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان سے لڑنے والے بھائیوں (کالعدم ٹی ٹی پی) سے کہتے ہیں کہ خواہ وہ اس لڑائی کو جہاد کہیں یا جنگ، ان کے کام میں ہم مداخلت نہیں کرتے لیکن ان کو بھی ہمارا یہ مشورہ ہے کہ اگر وہ نظام (ریاست) کے خلاف لڑ رہے ہیں، تو چاہے آپ 100 سال تک نظام کے خلاف لڑیں، آپ جیت نہیں سکتے۔
اسی اثنا میں محمد نبی عمری نے ایک بار پھر کالعدم ٹی ٹی پی کا نام لیے بغیر اُن پر طنز کیا کہ اسے ممکنہ طور پر پاکستانی عوام میں بڑے پیمانے پر حمایت حاصل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن یہ لڑائی ہمارے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے، پاکستان میں اس تنازع کے پھیلاؤ سے افغانستان کی صورتحال متاثر ہوتی ہے۔
یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ افغانستان کی ایک اعلیٰ شخصیت نے کیسے ایک ایسے مسئلے پر لب کشائی کی جس پر افغان قیادت حساسیت کے سبب اعلانیہ گفتگو سے گریز کرتی ہے۔
پاکستان کی بیان کردہ پالیسی اب تک یہ رہی ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی قسم کے براہ راست مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گا اور افغان حکومت دوحہ معاہدے کی شرائط کے تحت کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے کی پابند ہے۔
باوثوق ذرائع نے بتایا کہ پاکستان نے بشام میں چینی باشندوں کے قتل میں کالعدم ٹی ٹی پی کے ملوث ہونے کے شواہد اکٹھے کر لیے ہیں، ان شواہد کا چین کے ساتھ اشتراک کیا جائے گا، جو ممکنہ طور پر اسے افغانستان کے ساتھ زیرِ بحث لائے گا۔
افغانستان میں چین ایک بڑا سرمایہ کار رہا ہے اور دونوں ممالک میں اعلیٰ سطح کی سفارتی موجودگی رکھتا ہے، حال ہی میں چین نے باضابطہ طور پر افغانستان کے سفیر کو تسلیم کرلیا ہے۔