اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔
جاڑے کی ٹھنڈی راتوں میں اگر ہر کوئی رضائی اپنے طرف کھینچے گا تو بیچاری رضائی کو پھٹ ہی جانا ہے۔ گزرے زمانوں میں ہماری تاریخ تحریر کرنے والوں کے ساتھ بھی بالکل یہی معاملات رہے۔ جن لکھاریوں نے اپنے اپنے علاقوں پر کام کیا، وہ یہ کوشش کرنے اور ثابت کرنے میں ساری طاقت خرچ کر دیتے کہ پوری دنیا کی تاریخ اسی جگہ سے شروع ہوئی ہے جہاں وہ رہتا ہے یا جس موضوع پر وہ کام کررہا ہے۔
مطلب بابا آدم بھی وہیں اُترے تھے، انسان کی ارتقا کی داغ بیل بھی وہاں پڑی تھی، کپڑے بھی پہلے اسی کے علاقے میں بُنے گئے تھے بلکہ یہاں تک کہ چمپینزی نسل کے بندر بھی وہیں پیدا ہوئے تھے۔ مطلب کے سب کچھ وہیں ہوا تھا۔ باقی پوری دنیا کے انسان یا تو اس وقت تھے ہی نہیں اور اگر تھے بھی تو ویلے ہی بیٹھے تھے۔ یہ سوچ اتنی ہی غلط ہے جتنی سکندراعظم اور اُس کی فوج کی غلط تھی۔
ہوا یہ کہ جب سکندر اور اُس کے فوجی جتھے ہندوکش پار کرکے جنوب کی طرف گرم علاقوں میں آئے تو یہاں بے تحاشا جنگل تھے اور اُن میں ہزاروں کی تعداد میں بندر بھی تھے۔ چونکہ اس سے پہلے اُن کی آنکھوں نے بندر نہیں دیکھے تھے تو وہ یہ سمجھے کہ یہ درختوں پر کودنے والے انسان ہیں۔ انہیں فوری ماردیا جائے ورنہ یہ ہمیں برباد کردیں گے۔ پھر جب کچھ بندر مار دیے گئے تو دیر سے انہیں پتا لگا اور مقامی لوگوں نے بتایا کہ نہیں یہ بالکل بھی درختوں پر چھلانگیں لگانے والے انسان نہیں ہیں بلکہ یہ بے ضرر سے بیچارے بندر ہیں تب بندروں کے سر سے شامت ٹلی۔
آج ہم کوشش کرتے ہیں کہ سکندراعظم کے جانے کے بعد مختصراً ان حکومتوں کا ذکر کریں جو اس کے بعد یہاں سمندری کنارے قائم ہوئیں۔ اس کے بعد ان قدیم تجارتی راستوں کا ذکر کریں گے جو یہاں اس زمانے میں موجود تھے اور اب بھی ان کے نشانات باقی ہیں۔ اگر وقت ملتا ہے تو مونتوبار، کلاچی یا کراچی کے نام کے حوالے سے بھی ضرور بات کریں گے۔
سکندراعظم سندھ سے بابل کی طرف لوٹا تو یہ وہ سکندر نہیں رہا تھا جو مقدونیہ سے نکلا تھا۔ آپ زندگی کے گھوڑے کو دوڑنے کے لیے جتنا وسیع میدان فراہم کریں گے، اتنی ہی زیادہ خوشیاں اور تناؤ آپ کی تمناؤں کی جھولی میں جمع ہوتے جائیں گے۔ پھر آپ جب رُکیں گے اور گزرے دنوں کا لیکھا چوکھا کریں گے تب اگر خوشیوں کے پھول کم اور تناؤ کی خاردار جھاڑیاں زیادہ ہوئیں تو یہ آپ کو جینے نہیں دیں گی۔ سکندر سے بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ تناؤ کی رسی شب و روز کے ساتھ کستی چلی گئی اور 323 قبلِ مسیح (ق-م) جون کے گرم دنوں میں وہ اپنے حواس کھو بیٹھا اور مرگیا۔
سکندر کے بعد ایران میں سلوکیوں کا زمانہ آیا اور یہاں ریاست مگدھ کا حکمران چندر گُپت جو موریہ خاندان کا پہلا راجا تھا۔ اس کی سلطنت قائم ہوئی تو سندھ، ہندوکش تک گندھارا کا علاقہ اس کے ہاتھ میں آگیا۔ موریہ سلطنت (جس کا زمانہ 324 سے 187 ق-م ہے، موریہ سلطنت کو اگر مقامی لوگوں کی حکومت کہا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا) کا اشوک جو اس سلطنت کا تیسرا بادشاہ تھا وہ 272 ق-م میں تخت پر بیٹھا۔ وہ بدھ مت کا پیروکار تھا۔ اشوکا نے 232 ق-م میں یہ جہان چھوڑا تو موریہ سلطنت آزاد ریاستوں میں بکھر گئی۔
اس کے بعد ہمیں دوسری قومیں جو ٹھنڈے علاقوں سے تھیں ان کی آمد کا ایک طویل سلسلہ نظر آتا ہے۔ 184 سے 70 ق-م تک ہمیں یونانی باختری یہاں سے کچھ اور کاٹھیاواڑ تک نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں انڈو ستھین کا ایک پُرشور عہد نظر آتا ہے۔ ’مارسٹڈن‘ اس حوالے سے لکھتے ہیں، ’جو قومیں وسط ایشیا میں آباد تھیں، یونانی ان کو ستھین اور ان کے وطن کو ستھیا کہتے تھے، ان میں بہت سی قومیں تھیں۔ 500 برس سے اوپر (یعنی 150 قبل مسیح سے 400 عیسوی تک) یہ قومیں یکے بعد دیگرے اُن راستوں سے آتی رہیں جہاں سے آرین آئے تھے۔
یہ قومیں کشمیر، افغانستان، پنجاب، سندھ، گجرات اور وسط ہند کے مغربی حصے میں آباد ہوئیں۔ ان میں سے جو قوم ابتدا میں آئی وہ ’سکا‘ تھی۔ یہ لوگ سندھ، مالوہ، کچھ، کاٹھیاواڑ اور گجرات پہنچے۔’ستھین‘ بنیادی طور پر حملہ آور نہیں تھے بلکہ یہاں سکونت اختیار کرنے کے لیے آئے تھے۔ ان کا ایک وسیع جتھا شمال سے جنوب کی طرف دریائے سندھ کا کنارے گزرتا ہوا سندھ میں پہنچا اور یہاں آباد ہوا، تاریخ انہیں ’انڈو ستھین‘ کے نام سے جانتی ہے۔ یہ وسطی ایشیا سے آئے تھے اور آرین کی جڑ میں تھے۔ بنبھور سے بھی ’ستھی-پارتھین‘ آبادیوں کے آثار ملے ہیں۔ بنبھور کی تعمیرات کا تعلق بھی اُن قدیم زمانوں سے ہے۔ آج بھی سندھ کی مردم شماری میں ایک بڑا حصہ ستھین آبادی کا ہے’۔
انڈو ستھین ایک اور قوم تھی جنہیں ’کشن‘ (کوشن) کہتے تھے۔ یہ 45ء سے 225ء تک شمالی ہند میں حکمران رہی۔ پرشپور یعنی پشاور ان کی حکومت کا تخت تھا۔ پنجاب کشمیر اور سندھ میں ان کا راج تھا۔ کنشک بدھ مت کا پیروکار تھا۔
اس کے بعد ’ساسانیوں‘ کا زمانہ آتا ہے جو اپنا تعلق ’ہخامنشیوں‘ کی نسل سے ظاہر کرتے تھے۔ ساسانی سلطنت 226ء سے 651ء تک قائم رہی۔ ساسانی سلطنت کے بانی ارد شیر اول (226ء سے 240ء) نے پارتھیا کے آخری بادشاہ ارتنابوس چہارم کو شکست دے کر سلطنت کی بنیاد رکھی۔ سندھ میں اس کی حکومت 283ء سے 367ء تک قائم رہی۔ بنبھور سے ہمیں جہاں انڈو ستھین اور ساسانیوں کے زمانے کے برتن اور دوسرے آثار قدیمہ ملتے ہیں وہیں ہمیں انڈس ڈیلٹا میں وہ پہلا کوٹ بھی ملتا ہے جسے اینٹوں سے نہیں بلکہ پتھر سے تعمیر کیا گیا تھا۔
اس کے بعد رائے گھرانہ اور بودھی طاقتوں کا سندھ میں زمانہ (499ء سے 641ء) آیا۔ اس کے بعد رائے گھرانہ اور برہمن راج کے زمانے (641ء سے 711ء) تک اور پھر محمد بن قاسم کا حملہ اور سندھ پر اُموی اور عباسی خلفاء کی حکومت (711ء سے 854ء) اور پھر ہباریوں کی حکومت (854ء سے 1010ء) رہی جس کا مرکز برہمن آباد رہا۔ اس کے بعد سومرہ سرداروں کی حکومت (1026ء سے 1351ء)، (1351ء سے 1524ء) تک سمہ خاندان سندھ کے حاکم رہے۔ اُس کے بعد بالترتیب: ارغون، ترخان، مغل، کلہوڑا، تالپور اور برطانوی راج رہا۔
مختصراً ان زمانوں کا ذکر اس لیے کرنا ضروری ہے کیونکہ ان زمانوں میں بہت کچھ بنا اور بگڑا ہوگا۔ کئی حکومتیں اور حاکم آئے اور گئے ہوں گے۔ سندھو دریا نے کئی راستے تبدیل کیے۔ کئی مقام بسے اور ویران ہوئے مگر دریائے سندھ کا انتہائی مغربی بہاؤ جسے ہم ’گھارو‘ کے نام سے پہچانتے ہیں، اُس بہاؤ کے مغرب اور شمال میں زمینی تبدیلیاں نہیں آئیں اور اگر آئی بھی ہوں گی تو صرف برائے نام۔ اس لیے بنبھور سے کراچی اور سون میانی تک ہم آج کل جو لینڈاسکیپ دیکھتے ہیں، تھوڑی سے ردوبدل سے پہلے یہی منظرنامہ سکندراعظم نے بھی دیکھا ہوگا اور دوسرے حملہ آوروں نے اور ٹھنڈے شمالی علاقوں کے اُن جتھوں نے بھی جو یہاں حملہ کرنے نہیں بلکہ بسنے آئے تھے، سب نے یہ دیکھا ہوگا۔
پہلی بات کراچی جس جگہ واقع ہے، ان معروضی حالات کو ہم بھی اس سفر میں ہزاروں برس سے دیکھتے آئے ہیں۔ پہاڑی سلسلہ، سمندری کنارہ، مشرق میں پھیلی قدیم تہذیبوں کی وادیاں اس کی خوش قسمتی ہیں اور ان وادیوں سے بیوپاری قافلوں اور سمندری جہازوں سے ترقی کرتے گئے کیونکہ بیوپار ہی قوموں کو ترقی اور حیات عطا کرتا ہے۔ تو یہاں جو نہیں بدلے وہ قدیم راستے تھے جن میں سے کئی راستے آج تک زیرِاستعمال ہیں۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ پوٹنجر کمپنی سرکار کے لیے خفیہ سروے کرنے بلوچستان سے ایران جا رہا تھا تو سونمیانی کے مقام پر اسے ایک افغان بیوپاری ملا جو قلات جاکر وہاں سے کچھ مویشیوں کی خریداری کرنا چاہتا تھا۔ اس کے بعد پوٹنجر ’خضدار‘ پہنچا جو پہاڑوں کے بیچ میں بسا ایک چھوٹا سا شہر تھا جہاں 500 سے زائد مکان نہیں تھے۔ اس شہر میں اسے قندھار کا ایک سوداگر بھی ملا جس نے یہاں اور قرب و جوار بستیوں سے پانچ سو بھیڑیں خریدی تھیں، پوٹنجر لکھتا ہے کہ ’خضدار سے قندھار کم از کم 500 میل دور ہے اور یہ بیوپاری اتنی دور ان 500 بھیڑوں کو لے جائے گا۔ اس طرح کے بیوپاری آپ کو راستوں، بستیوں اور شہروں میں بہت دیکھنے کو ملیں گے‘۔
بیوپار کے بغیر بستیاں آباد نہیں ہوتیں۔ میرے سامنے بہت سے نقشے موجود ہیں جن میں کئی صدیوں میں بننے والے راستے بچھے ہوئے ہیں اور ان راستوں کا کمال یہ ہے کہ یہ آپ کی گھر کی گلی سے نکلتا ہے آپ جہاں چاہیں یہ راستہ آپ کو لے جائے گا۔ گزرے زمانوں میں جب ایک سے دوسرے ملک جانے کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑتی تھی تو بیوپار کرنے اور گھومنے کے لیے لوگ ایسے ہی ان راستوں پر نکل پڑتے تھے۔
وہ پگڈنڈیاں جن پر اونٹوں کے قافلے چلتے اور جو چلتے تو جنوب میں گجرات، اُجین، جیسلمیر، کشمیر سے شمال کی طرف آموں دریا تک چلے جاتے، وہاں سے مغرب کی طرف جانا چاہتے تو مشہد، اُسترآباد، تہران، بغداد اور دمشق تک چلے جاتے۔ پھر وہاں سے جنوب اور مشرق کی طرف جانے کے لیے نکلتے تو مدینہ، مکہ، عمان، مصر، بصرے، شیراز، کرمان، قلات، خضدار، بیلو، سون میانی سے کراچی اور دیبل بنبھور پہنچ جاتے۔ ان راستوں پر ہزاروں قافلے رواں دواں رہتے۔ ان قافلوں کے لیے راستوں میں کارواں سرائے بے ہوتے جہاں قافلے والے آرام کرتے۔
ہم یہاں خاص طور پر کراچی تک آنے والے اور وہاں سے نکلنے والے قدیم راستوں کی کھوج کریں گے اور اس کھوج میں مانک بی-پتھاوالا، ایم-ایچ-پنوھر اور گل حسن کلمتی صاحب بھی ہمارا ساتھ دیں گے کیونکہ ان لوگوں نے اس حوالے سے بہت سا تحقیقی کام کیا ہے۔ پہلا اہم راستہ ایران سے لے کر لسبیلہ اور حب کو پار کرکے کراچی پہنچتا تھا۔ تھوڑی اُلٹ پھیر سے یہ وہی راستہ ہے جہاں سے سکندر یہاں سے گزرا تھا اور یہی راستہ آگے بنبھور تک جاتا تھا۔ دوسرا راستہ درہ بولان سے دھریجی، کُنڈ اور گڈاپ سے ہوتا ہوا کراچی کی طرف آتا تھا۔ تیسرا راستہ سیہون سے جبکہ چوتھا راستہ ننگر ٹھٹہ سے نکلتا اور بنبھور سے ہوتا ہوا کراچی آتا تھا۔
منگھو پیر کی پہاڑی کو آپ ایک مرکز کی حیثیت سے دیکھ سکتے ہیں جہاں سے مختلف اطراف میں راستے نکلتے تھے اور لوٹنے والے راستوں پر قافلوں کے مسافروں کی تھکان دور کرنے کے لیے منگھو پیر ایک شاندار اور ہریالی سے بھرے مقام کا کام کرتا۔ بنھبھور سے ایک دوسرا راستہ بھی نکلتا تھا جو درسانو چھنو سے ہوتا ہوا نارا تھر جبل سے لٹ نئیں پار کرتا، حب ندی کے قریب، لوھارکو پہاڑی راستے سے گزر کر سنگھر، وندر سے سون میانی تک جاتا تھا۔ اسی راستے سے وندر سے ایک نیا راستہ نکلتا تھا جو وندر سے بالاکوٹ، لیاری اور آگے کیچ مکران سے گزرتا ہوا ایران کی طرف جاتا تھا۔
ان راستوں کے علاوہ اور بھی کئی پگڈنڈیاں اور راستے تھے جو کراچی سے ہوتے ہوئے سمندر کنارے بنی بندرگاہوں کی بستیوں تک جاتے تھے اس لیے ہمیں ان راستوں پر کئی ہٹیاں (چھوٹی سی گھاس پھوس کی بنی ہوئی پرچون کی دکان جہاں دال، نمک، مرچ، گڑ خردہ طور پر مل جاتی ہے، جیسے تین ہٹی)، لانڈھیوں (گھاس پھوس کا بنا گھر جس میں آنے جانے والے مہمان کچھ وقت گزار سکیں، جیسے جمعدار کی لانڈھی) اور کرواں سرائے کے نام و نشان ملتے ہیں۔
کراچی کے قرب و جوار میں اور بھی بہت سے قدیم مقامات تھے جہاں تک یہ راستے جاتے تھے جیسے ڈملوٹی، باتھ آئی لینڈ جزیرہ، کنٹری کلب، کراچی یونیورسٹی کیمپس، رتو کوٹ، گسری (گزری)، پٹ کھوڑی، منجار (گابوپٹ)، حب، ہلکانی، مہر جبل، نارا تھر، لنگھیجی، بولہاڑی، امیلانو، باکران، کاٹھوڑ، پپری، کھڈیجی، کونکر، گڈاپ اور بہت ساری بستیاں۔ ملیر وادی کے قدیم راستوں سے متعلق محقق گل حسن کلمتی صاحب ہمیں بتاتے ہیں کہ ’ٹھٹہ اور بنبھور سے سمندر کے کنارے ایک قدیم راستہ، کُوکری، گَگھُوٹ، وٹیجیِ، پپری اور باکران سے ہوکر دڑبے کی طرف جاتا تھا۔ اسی راستے سے ایک راستہ نکلتا تھا جو ملیر کی طرف آتا تھا اور ملیر سے ہوتا ہوا، مہران، سفوران، گُجھڑو، لَکی سے ہوتا منگھو پیر پہنچتا تھا جہاں سے بند مُراد سے ہو کر حب سے کیچ مکران کی طرف جاتا تھا۔
ایک اور راستہ پپری سے نکلتا، جو ریجی، کورٹیڑو سے ہوتا، ملیر نئے کو پار کرتا، کُھرکُھری، کونکر اور گڈاپ سے اُپکانے پہنچتا وہاں سے لنگھ لوہار والی جگہ سے حب کو پار کرتا وہ وندر اور اُتھل کی طرف جاتا تھا۔ ایک دوسرا راستہ گڈاپ کے نارا تھر جبل سے نکلتا اور لکی شاہ صدر سے ہوتا ہوا سیہون شریف پہنچتا۔ یہ راستہ ’سیہوانی واٹ (راستہ)‘ کے نام سے جانا جاتا ہے’۔
کراچی کی ملیر وادی اس مقام پر موجود ہے جہاں ماضی میں مغرب اور شمال سے آنے والے بیوپاری قافلوں کی قدیمی گزرگاہ ہوا کرتی تھیں۔ ایران، مکران اور افغانستان کے بیوپار قافلوں کی بھی یہ گزرگاہ رہی ہے۔ سمندری کنارے پر قائم اُس زمانے کی اہم بندرگاہیں جیسے بنبھور، ٹھٹہ، دیبل، لاڑی اور دوسرے بندر اس طرف تھے اور گجرات، کچھ، کاٹھیاواڑ، راجستھان کے لیے بھی قافلوں کو یہیں سے گزرنا پڑتا تھا تو اس وادی میں آنے جانے کا سلسلہ لگا رہتا تھا اور ’سسئی پنھوں‘ کے عشقیہ داستان کے کرداروں کی گزرگاہ بھی ملیر کی یہی وادی تھی۔
میرے پاس آپ کو سنانے کے لیے اس قدیم راستے سے وابستہ ’سسی پنھوں‘ کی عشقیہ داستان ہے۔ اس داستان کے حقیقت کے قریب تر ہونے کو ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت سے شواہد موجود ہیں۔ یہ داستان بنبھور میں پنپی اور جوان ہوئی۔ بنبھور، دیبل، باربئریکن، مونتوبار، سکندری جنت، یہ تمام اُن ناموں کا جھرمٹ ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں اور نزدیک نزدیک ایک ہی سمندر کے کنارے آباد تھے۔
کہا جاتا ہے کہ راجا دلورائے کے زمانے میں سیہون سے ایک برہمن نے اپنی بیٹی کو اس لیے صندوق میں بند کرکے دریا میں بہا دیا کیونکہ نجومیوں نے بتایا تھا کہ یہ بچی جب بڑی ہوگی تو یہ ایک مسلمان سے شادی کرے گی۔ یہ صندوق سندھو دریا میں تیرتا بنبھور گھاٹ پر آ پہنچا جہاں یہ ’محمود‘ دھوبی کو ملا۔ یہ بنبھور کا مشہور دھوبی تھا جس کے پاس 500 سے زائد دھوبی مزدوری کرتے تھے مگر قسمت نے اسے اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا۔ مگر صندوق میں ملی چاند جیسی بچی نے بے اولادی کا یہ داغ بھی دھودیا۔ بچی اتنی خوبصورت تھی کہ اس کا نام ’سسی‘ رکھ دیا۔ وہ جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی اس کا رُوپ اور نکھرتا گیا۔ اس کے باپ نے اس کے لیے محل بنایا اور محل کے چاروں طرف پُرفضا باغ بنوائے۔
اس زمانے میں قافلے کیچ، مکران یا شمال کی دیگر بستیوں سے آتے تو ملیر اور بنبھور سے گزرتے ہوئے ٹھٹھہ اور دوسرے مشہور مقامات میں تجارت کی غرض سے جایا کرتے تھے۔ قافلے والوں نے سسی کے حُسن کا چرچا بھی سنا اور یہ ذکر کیچ کے حاکم ’آری جام‘ کے فرزند ’پنھوں‘ سے کیا۔ سسی کے حُسن نے پنھوں کو بے تاب کردیا۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ وہ ایک بڑے قافلے کے ذریعے بہت سا مُشک و عنبر ساتھ لے کر ایک بیوپاری کے بھیس میں بنبھور جائے گا۔ جب یہ قافلہ بنبھور پہنچا تو خوشبوؤں سے سارا شہر مہک اٹھا۔ مشک و عنبر کی خرید و فروخت ہونے لگی۔ حسنِ اتفاق تھا کہ سسی بھی بن ٹھن کر اپنی سہیلیوں کے ہمراہ ادھر آئی۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں اور عشق کا سلسلہ چل پڑا۔
سسی سے شادی کے لیے پنھوں کو بہت سے امتحانوں سے گزرنا پڑا۔ بہرحال ’سسی پنھوں‘ کی شادی ہوگئی اور پنھوں نے واپس جانے کا ارادہ ترک کردیا اور بنبھور میں ہی سکونت اختیار کرلی۔ پنھوں کا بھائی ’چیزو‘ جو اس کے ساتھ آیا تھا، اُس نے واپس جاکر پوری حقیقت اپنے والد کو بیان کی۔ آری جام کے لیے یہ خبر کسی صدمے سے کم نہیں تھی کیونکہ تمام بھائیوں میں سے وہ پنھوں کو زیادہ چاہتا تھا۔ آری جام نے فوری طور پر پنھوں کے لیے ایک قاصد بھیجا کہ پنھوں کو جاکر کہے کہ وہ واپس لوٹ آئے۔ قاصد بنبھور آیا اور پنھوں کو دھوبی کی طرح کپڑے دھوتے دیکھا اور اس کے باپ کا پیغام پہنچایا مگر پنھوں نے واپس چلنے سے انکار کردیا۔ یہ خبر باپ پر بجلی کی طرح گری اور وہ شدید بیمار ہوگیا۔ باپ کی یہ حالت دیکھ کر تینوں بیٹوں چیزو، ہوتی اور نوتی نے متفقہ فیصلہ کیا کہ کسی بھی حالت میں پنھوں کو واپس کیچ لے کر آنا ہے۔
تینوں بھائی اونٹوں پر سوار ہوکر بنبھور پہنچے۔ سسی اور پنھوں نے ان کا خیرمقدم کیا۔ کچھ دنوں کے بعد ایک رات تینوں بھائیوں نے پنھوں کو اس قدر شراب پلادی کہ وہ اپنے ہوش کھو بیٹھا۔ سسی انتظار کرتے کرتے سوگئی۔ آدھی رات کو تینوں بھائیوں نے بے ہوش پنھوں کو اونٹ پر لادا اور اسے کیچ لے گئے۔ سسی جب صبح کو اُٹھی تو جیسے اس کی پوری دنیا لُٹ چکی تھی لیکن سسی نے ہار نہیں مانی اور پیدل ’کیچ‘ کی طرف چل پڑی۔ لوگوں اور سہیلیوں نے بہت سمجھایا کہ کیچ یہاں سے بہت دور ہے۔ راستے میں پہاڑ ہیں، جنگل ہیں، جنگلی جانور ہیں، پانی کی شدید کمی ہے، تپتا سورج ہے، اس لیے مت جاؤ مگر سسی نے کسی کی نہیں سُنی اور اپنے محبوب سے ملنے کے لیے چل پڑی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی (1689ء سے 1752ء) نے اس لوک داستان کو اپنی خوبصورت شاعری میں ڈھالا ہے اور سسی کے درد کی کیفیت کو بڑی گہرائی سے بیان کیا ہے۔
ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ اس لوک داستان کی قدامت کے متعلق لکھتے ہیں کہ ’یہ 11ویں صدی کی لوک داستان ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ اس لوک داستان میں کتنی صداقت ہے؟ لیکن اگر داستان میں بیس ٹکے کی بھی سچائی ہے تو آپ شہاب الدین غوری کے حملے کو دیکھیں جو اس نے 11ویں صدی میں کیا تھا اور اس لوٹ مار کے بعد بنبھور ویران ہوگیا تھا۔ ہم اگر اس عشقیہ داستان کو کچھ دیر کے لیے بنبھور، ملیر، کیچ اور مکران سے الگ بھی کرلیں تو اس کے بعد یہاں ایک قدیمی اور تجارتی راستہ رہ جاتا ہے جس پر سے بیوپاریوں کے ہزاروں قافلے مغرب اور شمال سے اس طرف آتے۔ گل حسن کلمتی صاحب نے اس راستے پر تحقیق کی اور اس پر کراچی یونیورسٹی کی طرف سے ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔ اس لیے اس قدیم راستے کو‘سسئی جی واٹ’ (سسی کا راستہ) کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔
قدیم راستوں کا ذکر ابھی باقی ہے اور کراچی سے وابستہ دو اور لوک داستانیں ہیں جو ہم آپ کو سنائیں گے۔ البتہ سسی پنھوں کے کرداروں سے فی الوقت ہم اجازت لیتے ہیں اور جلد ہی ملتے ہیں قدیم کراچی کی ان ہی پہاڑیوں اور پگڈنڈیوں پر جن پر سے نہ جانے کیسی کیسی خوبصورت آنکھوں والے لوگ گزرے ہوں گے۔
حوالہ جات
- ’کراچی سندھ جی مارئی‘۔ گل حسن کلمتی۔ نئوں نیاپو پبلیکیشن، کراچی
- ’پیرائتی سندھ کتھا‘۔ ایم۔ایچ۔ پنوھر۔ عمر اکیڈمی، کراچی
- Historical Geography of Sind. Maneck B. Pithawala. Sindh Culture Department, Karachi.
- Sind: a general introduction. Hugh Trevor Lambrick. 1992.