ڈان انویسٹی گیشن: بحریہ ٹاؤن کراچی کی مسلسل غیرقانونی توسیع کی مشکوک کہانی
گزشتہ سال اگست میں غیر متوقع طور پر متعدد لوگوں کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ای میل یا پوسٹ کے ذریعے طلبی کا نوٹس موصول ہوا۔ اس میں انہیں ہدایت دی گئی کہ وہ 13 ستمبر کو نیب کراچی میں شکایات کے تصدیق کے سیل میں اپنی جانب سے دائر متعلقہ شکایت کے سلسلے میں حاضر ہوں۔ 2020ء کے اواخر میں تقریباً 40 کے قریب لوگوں نے مشترکہ شکایت درج کروائی تھی۔
پھر آنے والے مہینوں میں بہت سے لوگوں نے انفرادی طور پر شکایات درج کروائیں۔ یہ تمام شکایات ایک جیسی تھیں جن میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ نجی تعمیراتی فرم بحریہ ٹاؤن نے ان سے عمر بھر کی جمع پونجی لے لی لیکن انہیں وہ زمینیں نہیں دیں جہاں سپریم کورٹ نے فرم کو بحریہ ٹاؤن کراچی تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی۔ لیکن نیب نے 2 سے 3 سال بعد اس اسکینڈل کا نوٹس لیا ہے جوکہ اپنے آپ میں نااہلی کی ایک مثال ہے۔ اس کے باوجود بدعنوانی اور غلط اقدامات کے بھنور میں نیب پاکستان وہ واحد ادارہ ہے جو کسی بھی ادارے یا گورننگ اتھارٹی کو احتساب سے بالاتر نہیں سمجھتا (ڈی جی نیب کراچی جاوید اکبر ریاض نے اس معاملے پر کہا کہ نئے نیب آرڈیننس کے تحت نیب حکام کو کسی بھی زیرِ تفتیش معاملے پر تبصرہ کرنے کی ممانعت ہے)۔
ضلع جامشورو کے دیہہ مول میں بحریہ ٹاؤن کی دیوار کئی کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے جوکہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے۔ یہ دیوار مولے ندی کے اوپر زمین کے ٹکڑے پر ختم ہوتی ہے۔ اس حوالے سے کچھ بتایا نہیں جارہا کہ یہ منصوبہ کہاں تک جائے گا یا یہ مزید کتنی زمین کو اپنے گھیرے میں لے گا۔ یہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس حد تک پھیلے گا جس حد تک حکمران اشرافیہ اس کی تعمیرات کو پھیلا سکتی ہے۔ یہ تعمیرات مارچ 2019ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود جاری ہیں جس میں منصوبے کے لیے 16 ہزار 896 ایکڑ اراضی کی اجازت دی گئی تھی اور بحریہ ٹاؤن کو اس زمین کی قیمت کے لیے قانونی طور پر سات سال میں اقساط کی صورت میں 460 ارب روپے کی ادائیگی کا پابند بنایا گیا تھا۔
23 نومبر 2023ء کو سپریم کورٹ نے کہا کہ نجی تعمیراتی فرم 166 ارب 25 کروڑ روپے میں سے صرف 24 ارب روپے ادا کر پائی ہے جوکہ اس وقت تک واجب الادا رقم تھی (اس میں شرحِ سود شامل نہیں)۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے تحریر کردہ فیصلے میں لکھا گیا ’بقایا پوری رقم واجب الادا اور قابل ادائیگی ہوچکی ہے۔۔۔ بحریہ ٹاؤن کا اقساط کی ادائیگی روکنے کا عذر یہ تھا کہ اسے زمین کا اتنا ایکڑ حصہ نہیں ملا جتنے کی اجازت دی گئی تھی جوکہ ایک جھوٹ پر مبنی ہے‘۔ عدالت کے حکم کے مطابق 23 نومبر کو پیش کیے گئے سروے نے بحریہ ٹاؤن کے جھوٹ کو بے نقاب کردیا تھا جس میں دکھایا گیا کہ 16 ہزار 896 ایکڑ سے زائد یعنی تقریباً 18 فیصد زیادہ (3 ہزار 35 ایکڑ) زمین پر بحریہ ٹاؤن کراچی نے قبضہ کیا ہے۔
4 سال تک احتساب سے بچ کر اس ریئل اسٹیٹ کے عفریت نے یہ ’کارنامہ‘ کیسے سرانجام دیا؟ ڈان کی یہ رپورٹ اس عیارانہ حکمت عملی کی دستاویزی شکل دکھائے گی جس کے تحت بحریہ ٹاؤن نے طاقتور عناصر اور بدعنوان حکام کی مدد سے حقائق کو مبہم کیا اور بحریہ ٹاؤن کراچی منصوبے کی غیرقانونی توسیع کی۔ جیسا کہ ایک وکیل نے ڈان کے ساتھ بات چیت میں کہا ’جب تک اس ملی بھگت کو ختم نہیں کیا جاتا، تب تک بحریہ ٹاؤن اور زمین کا کاروبار کرنے والے دیگر بے ایمان عناصر خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے رہیں گے‘۔
یہاں سپریم کورٹ کے دو سابقہ فیصلوں کا پس منظر کے طور پر ذکر کریں گے۔ 4 مئی 2018ء کو عدالت عظمیٰ نے ایک تاریخی فیصلے میں بحریہ ٹاؤن کی جانب سے کراچی کے ضلع ملیر میں ہزاروں ایکڑ اراضی کے حصول کو غیر قانونی اور اس فیصلے کو شروعات سے ہی کالعدم قرار دیا تھا۔ (زمین کو نجی تعمیراتی ادارے کے حوالے کرنے کے لیے جس ڈھٹائی سے قانون کی خلاف ورزی کی گئی، اس کی تفصیل ڈان کے 18 اپریل 2016ء کو شائع ہونے والے مضمون میں موجود ہے)۔
4 مئی 2018ء کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا بینچ تشکیل دیا گیا۔ بینچ کے احکامات پر قومی خلائی ایجنسی اسپارکو اور قومی نقشہ سازی اور زمینوں کا سروے کرنے والی سرکاری ایجنسی سروے آف پاکستان نے متعلقہ علاقے کا سروے کیا۔ ان کے جمع کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر بورڈ آف ریونیو سندھ نے دسمبر 2018ء میں ایک تفصیلی نقشہ عدالت میں جمع کروایا۔
اس نقشے میں 2016ء میں بحریہ ٹاؤن کے قبضے، اس کی تعمیرات اور جو 2018ء کے اواخر میں زیرِقبضہ زمین یعنی کُل 25 ہزار 600 ایکڑ زمین کا احاطہ کیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بینچ نے بحریہ ٹاؤن جو صرف ایک سال قبل اسی عدالت کے مطابق غیرقانونی قبضے کی مرتکب تھی، اسے اس علاقے کی حد بندی کرنے کے کی اجازت دے دی گئی جو وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کی تعمیر کے لیے خریدنا چاہتی تھی۔
2 مارچ 2019ء کو نجی تعمیراتی فرم نے عوامی درخواست کے جواب میں عدالت میں دو دستاویزات جمع کروائیں جن میں سے ایک کو 23 ہزار 960 ایکڑ رقبے پر تیار کردہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے ابتدائی مجوزہ منصوبے’ کے طور پر بیان کیا گیا جبکہ دوسری دستاویز میں ’اس منصوبے میں زمین کی حدود جس پر تعمیر کی (بحریہ) کو اجازت تھی جوکہ 16 ہزار 896 ایکڑ تھی اور اب یہ بحریہ ٹاؤن کراچی منصوبے کی حتمی باؤنڈری ہے‘۔
اس نقشے میں 9 ہزار 385 ایکڑ کا رقبہ سبز رنگ سے نشان زد کیا گیا جسے بحریہ ٹاؤن نے ’مجموعی زمین‘ کے طور پر بیان کیا اور 7 ہزار 510 ایکڑ اراضی کو جامنی رنگ سے نشان زد کیا گیا جسے بحریہ ٹاؤن نے ’زیرِتعمیر علاقہ‘ قرار دیا۔ (بورڈ آف ریونیو نقشے پر مبنی عدالت میں جمع کروائے گئے اس منصوبے کو 23 نومبر 2023ء کے فیصلے میں حوالے کے طور پر استعمال کیا گیا جس میں لکھا گیا ’بحریہ ٹاؤن کی 2 مارچ 2019ء کی تجویز (سی ایم اے: نمبر 2019/1870) کو اس عدالت نے قبول کر لیا تھا‘)
عدالتی حکم پر عمل درآمد کے لیے تشکیل دیے جانے والے بینچ نے 21 مارچ 2019ء کو اپنا فیصلہ سنایا اور بحریہ ٹاؤن کو 16 ہزار 896 ایکڑ اراضی پر تعمیر کی اجازت دی جو پہلے ہی ریئل اسٹیٹ فرم کو اپنا ہاؤسنگ پروجیکٹ تیار کرنے کے لیے دی گئی تھی جس کے لیے اسے زمین کی قیمت کے طور پر سات سالوں میں 460 ارب روپے ادا کرنا تھی۔
بددیانتی کا حربہ
سب سے پہلے سپریم کورٹ کی طرف سے 8 نومبر 2023ء کو کیے گئے سروے پر غور کریں کہ ’بحریہ ٹاؤن کے قبضے میں موجود اصل زمین اور اگر اس کی طرف سے کوئی اضافی اراضی پر قبضہ کیا گیا ہے تو اسے واضح کریں‘۔ حکم کے مطابق سروے آف پاکستان نے ڈیٹا 23 نومبر کو بینچ کے سامنے پیش کیا۔ ڈیٹا کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے زیرِ قبضہ 3 ہزار 35 ایکڑ زمین میں سے 2 ہزار 222 ایکڑ جامشورو جبکہ 813 ایکڑ زمین ملیر میں ہے۔ اراضی کے واجبات ادا نہ کرنے پر بحریہ ٹاؤن نے جو دلائل پیش کیے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ 16 ہزار 896 ایکڑ کے بجائے جس رقبے کے لیے اس نے 460 ارب روپے ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اس میں سے صرف 11 ہزار 776 عشاریہ 47 ایکڑ زمین اس کے قبضے میں تھی۔
بحریہ ٹاؤن نے کہا کہ وہ یوٹیلیٹی کی سہولیات فراہم کرنے والوں اور دیہات کی زیراستعمال حصے کو فروخت یا اس پر تعمیراتی کام نہیں کرسکتی۔ ان حصوں میں سے تین عناصر کو خاص توجہ دینی چاہیے جن میں کے-فور پروجیکٹ، ہائی ٹینشن لائن ایریا اور گوٹھوں کی زمین شامل ہے کیونکہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بحریہ ٹاؤن نے کس طرح عدالت کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔
عمل درآمد کے لیے تشکیل دیے گئے بینچ میں بورڈ آف ریونیو سندھ نے جو نقشہ جمع کروایا جس کے تحت بحریہ ٹاؤن نے اپنی سائٹ کا منصوبہ بنایا تھا۔ نقشے کے مطابق بحریہ ٹاؤن کراچی کے-فور پروجیکٹ، یوٹیلیٹی انفرااسٹرکچر اور اس علاقے میں گوٹھوں کے زیرِاستعمال رقبے کی حد بندی بھی کرتا ہے۔ اس لیے اس نقشے کو بحریہ ٹاؤن کے حالیہ دعووں کی حقیقت جاننے کے لیے بطور حوالہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بورڈ آف ریونیو سندھ میں کے-فور منصوبے کے لیے 25 ہزار 600 ایکڑ میں سے 335 عشاریہ 39 ایکڑ درج ہے۔ لیکن بحریہ نے اپنے لیے مختص 16 ہزار 896 ایکڑ کے تناظر میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کی اراضی میں کے-فور کے لیے 345 اعشاریہ 75 ایکڑ زمین بنتی ہے۔ درحقیقت جی پی ایس ڈیٹا سے سامنے آتا ہے کہ 16 ہزار 896 ایکڑ زمین میں صرف کے-فور کی زمین زیادہ سے زیادہ 155 ایکڑ پر آتی ہے۔ اپنے دعوے کے برعکس بحریہ ٹاؤن نے اس زمین پر تین بڑی سڑکیں بھی تعمیر کی ہیں جن میں 9 ایکڑ پر مرکزی شاہراہ جناح ایونیو کے طور پر کیا گیا اضافہ بھی شامل ہے۔
بجلی کی ہائی ٹینشن لائنز کے لیے مختص کیے گئے علاقے پر بھی تنازعات سامنے آرہے ہیں۔ بورڈ آف ریونیو سندھ کے نقشے میں ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اراضی 38.3 ایکڑ بنتی ہے جبکہ بحریہ ٹاؤن نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ 303 اعشاریہ 9 ایکڑ ہے۔
اس کے بعد اب گوٹھوں پر غور کریں جہاں مقامی کمیونٹیز نسلوں سے بارانی (بارش سے چلنے والی) زراعت یا اس علاقے میں مویشیوں کی پرورش میں مصروف ہیں، اس علاقے میں اب بحریہ ٹاؤن کراچی آرہا ہے۔ بحریہ ٹاؤن کراچی نے مقامی لوگوں کی زندگیوں کو اس طرح پلٹ دیا ہے جس کا کراچی کی شہری آبادی تصور بھی نہیں کرسکتی۔ 2015ء اور 2016ء کے دوران جب ’انکاؤنٹر اسپیشلسٹ‘ راؤ انوار ایس پی ملیر تھے تب پولیس نے جبری ہتھکنڈوں کے ذریعے زمین کا بڑا حصہ ہتھیا لیا تھا۔ ان ہتھکنڈوں میں چھاپے، املاک کو نقصان، ان کے خلاف دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات کی دھمکیاں وغیرہ شامل ہیں۔
موجودہ صورت حال کی بات کی جائے تو ایک گاؤں حاجی علی محمد گبول گوٹھ جو بحریہ ٹاؤن کراچی کے 2019ء کے سائٹ منصوبے میں شامل تھا، وہ 58 ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا اور اسے بھی بحریہ ٹاؤن کی زمین میں شامل کرلیا گیا ہے۔ ایک اور دیہات علی داد گوٹھ جو سائٹ نقشے میں موجود نہیں تھا لیکن اسے بھی گھیر لیا گیا ہے۔ یہ دونوں گوٹھ مل کر 103 ایکڑ اراضی کا اضافہ کرتے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن اس رقبے کے لیے 130 ایکڑ سے زائد کا دعویٰ کررہا ہے اور اس نے ان گوٹھوں کو تعمیرات کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔
بحریہ ٹاؤن 2 ہزار 236 ایکڑ کی سڑکیں جو اس کی ملکیت میں ہیں، اپنی زمین میں شمار نہیں کررہا۔ ایک اسکیم میں تعمیر کی جانے والی سڑکیں، سہولیات اور انفرااسٹرکچر لازم و ملزوم ہیں اور ان کی تعمیر ڈیولپر کی ذمہ داری ہوتی ہے (جیسا کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کے سینیئر حکام اور مقامی حکومت کے حکام نے تصدیق کی ہے، بحریہ ٹاؤن کراچی کے معاملے میں ایم ڈی اے نے منصوبے کے اندر بڑی سڑکیں اور پُل اپنی لاگت سے تعمیر کی تھیں)۔
4 مئی 2018ء کے فیصلے میں درحقیقت جسٹس فیصل عرب نے حساب لگانے کے لیے کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ریگولیشنز میں طے شدہ رہائشی اور غیر رہائشی استعمال کے لیے اراضی مختص کرنے کے 40-60 کے تناسب کا اطلاق کیا تاکہ 7 ہزار 68 ایکڑ کی مالیت کا اندازہ لگایا جائے جو بحریہ ٹاؤن نے اپنے ابتدائی مرحلے میں قانونی طریقے سے حاصل کی تھی۔ اس فارمولے کے تحت معزز ججز نے ’سڑکوں اور دیگر عوامی مقامات وغیرہ میں استعمال ہونے کی وجہ سے 40 فیصد حصے کو خارج کردیا جبکہ بقیہ 60 فیصد رقبہ یعنی 4 ہزار 421 ایکڑ کو محفوظ طریقے سے قابل فروخت زمین تصور‘ کیا۔
اس زمین پر بحریہ ٹاؤن کے قبضے کا واضح طور پر اس وقت واضح انکشاف ہوا جب ڈان کی ایک ٹیم نے نومبر میں اس علاقے کا دورہ کیا تاکہ ہم بذات خود نقشہ سازی کریں۔ ضلع جامشورو کے دیہہ مولے میں ڈان کی ٹیم بحریہ ٹاؤن کی دیوار کے اس پار پہنچی جس کا اس رپورٹ کے آغاز میں ذکر کیا گیا ہے۔ جی پی ایس کے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سرکار اور عدالت کے حکم پر ہونے والے سروے سے 5.3 کلومیٹر مزید آگے کا علاقہ ہے۔ زیادہ دور نہیں، دیہہ مولے میں واقع ایک پہاڑی کے اوپر ایک کمرے کی خالی عمارت بھی موجود ہے جسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے چوکیدار موسم گرما میں استعمال کرتے ہیں۔
اس مقام کے قریب ڈان کی ٹیم کو بحریہ ٹاؤن کی سیکیورٹی کی گاڑیوں نے ہارن بجا کر روکا۔ ایک گارڈ نے گاڑی سے باہر نکل کر پوچھا کہ ٹیم کس کی اتھارٹی سے آئی ہے، اسی دوران ڈرائیور نے اپنے فون سے دونوں کے مابین گفتگو کی ریکارڈنگ شروع کردی۔ جب ٹیم کے ایک رکن نے پوچھا کہ کیا یہ زمین بحریہ ٹاؤن کراچی کی اراضی کا حصہ ہے تو اس نے اثبات میں سر ہلایا اور ڈان کی ٹیم کو جانے کو کہا۔ جیسے جیسے ڈان کی گاڑیاں اراضی سے باہر نکل رہی تھیں، سیکیورٹی کی گاڑیاں بھی ان کا تعاقب کرتی رہیں۔
21 مارچ 2019ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا یہاں ذکر کرتے ہیں۔ ’بحریہ ٹاؤن کراچی کو 16 ہزار 896 ایکڑ کے علاوہ حکومت سندھ کی ملکیت کی کسی دوسری زمین کا کوئی حق، مفاد یا قبضہ حاصل نہیں ہے۔۔۔ حکومت سندھ اور ایم ڈی اے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ یہ زیرِقبضہ زمین بازیافت کیا جائے گی اور بحریہ ٹاؤن کراچی کو کسی بھی اضافی زمین پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس ہدایت کی کسی بھی خلاف ورزی پر حکومت سندھ، ایم ڈی اے اور بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ یا جو بھی ذمہ دار پایا جائے گا، اس کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے گی‘۔
بحریہ ٹاؤن کو دی گئی 16 ہزار 896 ایکڑ زمین کا ایک انچ بھی جامشورو کی حدود میں نہیں آتا۔ اس فیصلے کے چند ماہ بعد 12 ستمبر 2019ء کو شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں ڈان نے سیٹیلائٹ تصاویر کے ذریعے جامشورو ضلع میں بحریہ ٹاؤن کی مداخلت کو بے نقاب کیا۔ حیران کُن طور پر 11 اکتوبر 2019ء کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ’بحریہ ٹاؤن کراچی کے سلسلے میں نجی تعمیراتی فرم کی انتظامیہ کی طرف سے کی جانے والی ادائیگیوں اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کے حوالے سے اظہارِ اطمینان کیا‘ جوکہ 12 اکتوبر 2019ء کو دی نیوز کی رپورٹ میں سامنے آیا۔ گمان ہوتا ہے کہ سیٹلائٹ تصاویر سے قانون کی خلاف ورزیاں ثابت ہونے کے باوجود عدالتی عمل پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔
ڈان نے گزشتہ سال بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ سے سپریم کورٹ میں ان کے دعووں اور مارچ 2019ء کے عدالت عظمیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کے حوالے سے سوالات کے لیے بار بار رابطہ کیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
’بدعنوانی پر پردہ ڈالا جارہا ہے‘
آنے والے سالوں میں حکام نے نہ صرف بحریہ ٹاؤن کی سرگرمیوں پر آنکھیں بند کرلیں بلکہ ریئل اسٹیٹ فرم کے اقدامات پر پردہ ڈالنے کی بھی کوشش کی۔ ہم نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے نقشے کی وہ مصدقہ کاپی حاصل کرنے کی کوششیں کیں جو مارچ 2019ء میں سپریم کورٹ کے بینچ کو پیش کی گئی تھیں، بورڈ آف ریونیو سندھ کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے نقشے یا بحریہ ٹاؤن ادائیگی کے شیڈول کی تعمیل کر رہا ہے یا نہیں، یہ تمام معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اس حوالے سے کچھ فراہم نہیں کیا گیا۔ حالانکہ درحقیقت یہ واضح طور پر عوامی مفاد کا معاملہ ہے لیکن اس کے باوجود نہ صحافی اور نہ ہی وکلا کو ان تک رسائی فراہم کی جارہی ہے۔
10 اکتوبر 2022ء کو ملیر اور جامشورو میں بحریہ ٹاؤن کی سرگرمیوں کے متاثرین کی نمائندگی کرنے والی ایک قانونی فرم نے درخواست دائر کی جس میں الزام لگایا گیا کہ بحریہ ٹاؤن سپریم کورٹ کے متعلقہ فیصلوں کی خلاف ورزی کررہا ہے اور ’بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے آج تک ادا کی گئی تمام اقساط کی تفصیلات‘ کی استدعا کی۔ اس درخواست کو رجسٹرار نے اس بنیاد پر خارج کردیا کہ یہ معاملہ ’سب جوڈیس‘ یعنی عدالت میں زیرِ سماعت ہے لہٰذا اس کی معلومات نہیں دی جاسکتیں۔
31 مارچ 2023ء کو وکیل محمد حسیب جمالی نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے ان سرمایہ کاروں کی نمائندگی کی جن کے خریدے گئے پلاٹ 16 ہزار 896 ایکڑ کی مختص زمین سے باہر تھے اور بحریہ ٹاؤن اپنے وعدے کے مطابق ان علاقوں میں انہیں رہائشی زمین مہیا نہیں کررہا تھا۔ ان لوگوں نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کے دفتر میں شکایت درج کروائی کہ جس مقدمے کا انہوں نے ’ازخود نوٹس‘ لیا تھا، عدالتی عملہ بار بار درخواست کرنے کے باوجود عدالت عظمیٰ کی سماعت کے دوران پیش کیے گئے نقشوں اور دستاویزات کی مصدقہ کاپی فراہم نہیں کررہا۔ درخواست سے ایک اقتباس یہ ہے، ’کوئی سرکاری حکم یا وجوہات فراہم کیے بغیر عدالتی افسران نے زبانی طور پر کاپیاں دینے سے انکار کردیا۔۔۔ یہ واضح ہے کہ عدالت میں جمع کی گئی دستاویزات عوامی ملکیت ہوتی ہیں اور یہ عدالتی ریکارڈ عوام کے معائنے اور مشاہدے کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔ سپریم کورٹ رولز کا آرڈر IX ایسی مصدقہ دستاویزات کی دستیابی سے متعلق ہے‘۔
27 اپریل 2023ء کو سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے دفتر نے تحریری طور پر اس درخواست کا جواب دیا کہ ’سائٹ یا لے آؤٹ پلان کے نقشوں کی تصدیق شدہ کاپی جاری کرنے کی درخواست کو قبول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسے ہی سائٹ کے نقشے یا لے آؤٹ منصوبہ بحریہ ٹاؤن اور اسپارکو سے متعلق ہیں‘۔
سپریم کورٹ سمیت متعدد ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ متعلقہ ریکارڈ کو سیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے باوجود اس کو سیل کرنے کے حوالے سے کوئی تحریری حکم نامہ موجود نہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ صرف زبانی ہدایات پر ہی معلومات تک رسائی روکی نہیں جاسکتی جبکہ اس معاملے میں کسی کے شامل ہونے کا اشارہ بھی ہوسکتا ہے۔
ممتاز وکیل عبدالمعز جعفری نے ڈان کو بتایا، ’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ معلومات فراہم نہ کرنے کی یہ غیر رسمی ہدایت قانونی طور پر درست کیسے ہے۔ جہاں معاملہ حساس نوعیت کا ہو وہاں عدالتیں اسے راز میں رکھ سکتی ہیں لیکن اس ہدایت میں حساسیت کو بنیاد بنایا ہی نہیں گیا۔
’شاید بحریہ ٹاؤن مقدمے کی تفصیلات کو رازداری فراہم کرنے کی کوئی قانونی طور پر جائز وجہ ہو جبکہ بحریہ ٹاؤن کو اس سے پہلے ہی اس کے مبینہ جرائم پر بات چیت نہ کرنے کا غیر معمولی حق دیا جاچکا ہے۔۔۔ لیکن معلومات نہ دینے کے حوالے سے کوئی جائز وجہ فراہم کرنے میں ناکامی پہلے سے ہی ایک مبہم اور غیر معمولی عمل کو مزید مشکوک بناتی ہے‘۔
معلومات فراہم نہ کرنے کی وجہ سے بحریہ ٹاؤن کراچی کا منصوبہ بلا روک ٹوک جامشورو تک پھیل رہا ہے۔ لیکن اس بار تبادلے اور زمین یکجا کرنے کے اپنے پرانے طریقہ کار پر عمل کرنے کے بجائے جو اس نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے پہلے مرحلے میں کیا تھا اور جسے سپریم کورٹ نے 2018ء میں غیر قانونی قرار دیا تھا، اس نے مزید بالواسطہ حکمت عملی کا سہارا لیا ہے۔ سندھ کے سیاسی مالکان کی پشت پناہی سے بحریہ ٹاؤن نے ضلع جامشورو میں قبائلی اختلافات کی طاقت کو بروئے کار لانا شروع کیا۔ اس طرح قبائلیوں اور ان لوگوں کے درمیان دوریاں پیدا ہوگئیں جو ملیر کی حدود سے بالکل ساتھ جامشورو کے دیہہ مولے کی اراضی کے مالکان تھے۔
اس کا تفصیلی ذکر ڈان کے مضمون میں کیا گیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح کرپٹ لینڈ بیوروکریسی کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ ہے۔ اس طریقہ کار سے واقف ایک مقامی بروکر نے اس وقت ڈان کو بتایا، ’وہ کھٹاس لے رہے ہیں (کٹھا زمین کی پیمائش کا اندازہ ہے جس میں زمین کے ریکارڈ میں اراضی اور اس کے مالک کا نام بھی شامل ہوتا ہے) اور اسے اس زمین میں شامل کررہے ہیں جو آس پاس کی سرکاری زمین کا ٹکڑا ہے۔ مثال کے طور پر اگر وہ 10 ایکڑ کا کھٹا لیں گے تو وہ اسے ریکارڈ میں 100 ایکڑ کے طور پر دکھائیں گے اور اسے بحریہ کے قریب زمین دیں گے‘۔
پھر انہوں نے مزید کہا، ’آپ کا کیا خیال ہے کہ دیہہ مولے کے تمام اب کٹھے ایک کونے میں ہیں؟‘
مقامی لوگوں کے مطابق بحریہ ٹاؤن نومبر 2023ء کو سپریم کورٹ کی سماعت سے چند ہفتے پہلے تک 16 ہزار 896 ایکڑ سے باہر زمین کی منظوری پر کام کررہی تھی۔ جب ڈان نے علاقے کا دورہ کیا تو ضلع ملیر میں کلمتی رومی قبرستان کے قریب آدم گبول گوٹھ کی کئی ایکڑ بارانی اراضی تھی جسے حال ہی میں بلڈوزر کے ذریعے صاف کیا گیا تھا۔
’اپنے اصول بنائے جارہے ہیں‘
حقائق کو مبہم کرنے کے حوالے سے کوئی بھی بحث بورڈ آف ریونیو سندھ کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے جو یہ کھیل اپنے اصولوں کے مطابق کھیل رہا ہے۔ 2011ء کے ازخود نوٹس کیس نمبر 16 میں اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری نے سندھ کے پورے ریونیو ریکارڈ کو ’بڑے پیمانے پر کرپشن اور زمینوں پر قبضے کے منظم جرائم بالخصوص پرائم اسٹیٹ اراضی اور ریونیو ریکارڈ میں بدانتظامی یا جعلسازی‘ کی وجہ سے ڈیجیٹلائز کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالتی حکم کے نتیجے کے طور پر بورڈ آف ریونیو سندھ کے لینڈ ایڈمنسٹریشن اینڈ ریونیو منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم (لارمس) کو بنانے میں اربوں روپے کی لاگت آئی۔ ابتدائی طور پر زمین کے اصل ریکارڈ اور نقشے ویب سائٹ پر عوام کے لیے قابل رسائی تھے۔ تاہم کئی سالوں سے ان معلومات تک رسائی کو کافی حد تک محدود کردیا گیا ہے اور بشمول نقشہ جات اور مائیکرو فلمڈ ریکارڈ متعدد لنکس کو غیر فعال کردیا گیا ہے۔ یہ شفافیت کے تصور کے منافی ہیں اور عدالت عظمیٰ کے حکم کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
سندھ کی نگران کابینہ کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ سابقہ صوبائی حکومت نے 2012ء میں ڈیجیٹائزیشن کا عمل روک دیا تھا اور دوسرے مرحلے میں ضرورت کے مطابق ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ریکارڈ کی تصدیق کرنے کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ ’2012ء تک تین مہینوں میں ہم نے جو کچھ بھی ڈیجیٹائز کیا تھا، اس میں سے 70 فیصد کی توثیق کرنے میں ہم کامیاب ہوگئے۔ سپریم کورٹ نے انہیں شفاف الاٹمنٹ پالیسی بنانے کو بھی کہا تھا لیکن انہوں نے وہ بھی نہیں کیا‘۔
زمین کے معاملات میں انتشار کے حوالے سے پوچھے جانے پر نگران حکومت کے عہدیدار نے کہا، ’پچھلی حکومت کے دوران کراچی میں سب رجسٹرار اور مختیار کار ’اوپر سے‘ تقسیم کے لیے ماہانہ 60 سے 70 کروڑ روپے جمع کرتے تھے۔ ان کے پاس فری ہینڈ تھا۔ حتیٰ کہ اگر کسی کی زمین قانونی ہو تب بھی وہ اس سے ’نظام‘ کے مطابق اپنے مقرر کردہ نرخ پر وصولی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر کورنگی کے لیے انہوں نے 3 لاکھ روپے فی ایکڑ طے کیے تھے۔ مختیارکاروں کا تبادلہ کرکے ہم نے وصولی کے اس نظام کو تباہ کردیا‘۔
نومبر 2023ء میں سروے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حکم سے سامنے آیا کہ جامشورو میں بحریہ ٹاؤن کے زیرِقبضہ علاقے میں ’بحریہ گرینز کے نام پر سیہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایس ڈی اے) کی منظور کردہ 5 سو 32 اعشاریہ 25 ایکڑ اراضی بھی شامل ہے‘۔ سابق ڈی جی حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایچ ڈی اے) محمد سہیل جن پر نیب کی جانب سے تحقیقات جاری ہیں کہ جب وہ ڈی جی ایم ڈی اے تھے تب انہوں نے مبینہ طور پر 2013ء سے ملیر میں بحریہ ٹاؤن کو غیر قانونی طور پر اراضی حاصل کرنے اور قبضے میں سہولت کاری کی تھی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ محمد سہیل کے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور ملک ریاض کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور انہوں نے مبینہ طور پر بحریہ ٹاؤن کو جامشورو میں زمین تحفے میں دینے میں اہم کردار ادا کیا (ڈی جی نیب کراچی نے ڈان کو اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا کہ محمد سہیل کے خلاف تحقیقات کے کیا نتائج سامنے آئے)۔ ایس ڈی اے کے دو سینیئر افسران غلام محمد قائم خانی اور منیر سومرو جو کافی شہرت یافتہ ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن کے لیے جامشورو میں محمد سہیل کے احکامات پر عمل درآمد کیا تھا۔
محمد سہیل جو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما عامر خان کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں، اس کھیل کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ ڈی جی ایچ ڈی اے کے طور پر انہوں نے مبینہ طور پر خود کو اور کچھ دیگر اعلیٰ سرکاری افسران کو بغیر کسی نیلامی کے 29 بیش قیمت پلاٹ الاٹ کیے تھے۔ مختلف سرکاری اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر ان کی تقرری بھی قانونی چارہ جوئی کا موضوع رہی ہے۔ اگست 2016ء میں سپریم کورٹ نے ایم ڈی اے میں ان کے تبادلے کو معطل کرنے اور انہیں واپس ان کی پیرنٹ آرگنائزیشن (کے ایم سی) میں منتقل کرنے کا حکم دیا تھا لیکن بعد میں انہیں ایک بار پھر ایم ڈی اے میں واپس بھیج کر ڈی جی تعینات کردیا گیا۔
جہاں تک ایس ڈی اے کے مذکورہ دو عہدیداروں کا تعلق ہے، منیر سومرو کو بدعنوانی سمیت دیگر الزامات کی بنیاد پر دسمبر 2009ء میں سندھ ہائیکورٹ کے حیدرآباد سرکٹ بینچ نے ڈی جی ایس ڈی اے کے عہدے سے برطرف کردیا تھا لیکن 2014ء میں انہیں ایک بار پھر اسی عہدے پر تعینات کردیا گیا۔ بطور ڈی جی ایچ ڈی اے غلام محمد قائم خانی پر بھی بدعنوانی کے الزامات ہیں جن میں گلستان سرمست (کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں کے لیے حیدرآباد کی فلیگ شپ رہائشی اسکیم) میں فنڈز کی خوردبرد بھی شامل ہے۔ نتیجتاً میں 14 سال بعد بھی اس اسکیم پر ابھی تک کام مکمل نہیں ہوسکا ہے۔
تاہم ایس ڈی اے یا کسی بھی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو ریاست کی زمین کسی بھی ڈویلپر کے حوالے کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔ سندھ کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈز (ترمیمی) آرڈیننس 2005ء کے سیکشن 10 اے (2 بی) کے مطابق، ’تجارتی مقصد کے لیے کسی بھی زمین کو بازار کی قیمت سے کم قیمت پر نیلامی کے بغیر الاٹ نہیں کیا جائے گا‘۔ سرکاری اراضی حکومت کے پاس عوام کی امانت ہوتی ہے جسے تحفے کے طور پر کسی کو نہیں دیا جاسکتا۔ ڈی جی ایس ڈی اے سعید صالح جمانی نے ڈان کے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ ایس ڈی اے کے ان اقدامات کو کس طرح قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ 28 نومبر 2012ء کو سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو سرکاری اراضی کی لیز یا کسی بھی قسم کی الاٹمنٹ، ٹرانسفر یا ریکارڈ میں نام تبدیل کرنے (میوٹیشن) وغیرہ پر اثرانداز ہونے سے روک دیا تھا۔ یہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے منصوبہ سازوں کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ لہٰذا انہوں نے ایک اور راستہ تلاش کیا۔
19 ستمبر 2013ء کو سندھ اسمبلی نے سیہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی (بحالی اور ترمیمی) ایکٹ 2013ء منظور کیا جس نے ایس ڈی اے کو زمین (جوکہ میوٹیشن کی ایک شکل ہے) کو یکجا کرنے کا اختیار دے دیا۔ تین ماہ بعد ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ایکٹ 1993ء میں اسی طرح کی ایک شق شامل کردی گئی۔ دونوں ترامیم میں ترقیاتی اتھارٹیز کو اراضی کو یکجا کرنے کا اختیار دے کر سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی۔ یہ وہ اقدامات تھے جن سے عدالت نے حکومت سندھ کو دور رہنے کو کہا تھا۔ لیکن مئی 2018ء کے فیصلے میں انہوں نے ان مکار چالوں کی قیمت ادا کی۔ یہی وجہ ہے کہ بحریہ ٹاؤن اور اس کے سرپرستوں نے ایک مختلف طریقہ کار کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا جس کے تحت اس وقت ضلع جامشورو میں کام جاری ہے۔
اس دھوکے بازی کے جال میں پھنسنے والے متاثرین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک رئیل اسٹیٹ ڈیولپر کی وجہ سے وہ اس صورتحال کا حصہ بن جائیں گے جبکہ اسی طرح بہت سے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس فراڈ میں اپنی عمر بھر کی جمع پونجی کھو دی۔ لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک یا اس کے اعلیٰ عہدیداروں کا کبھی احتساب کیا بھی جائے گا یا نہیں۔ بہرحال یہ تو واضح ہے کہ اقتدار کے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا، قانونی معاملات سے استثنیٰ کی ضمانت دیتا ہے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔