• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:26pm

1940ء سے 2024ء تک: پاکستان کے حالات و واقعات کی تصویری کہانی

قراردادِ پاکستان کو منظور ہوئے 84 برس بیت چکے ہیں، آئیے اس موقع پر 1940ء سے 2024ء تک پاکستان میں رونما ہونے والے اہم تاریخی واقعات کی تصویری جھلک آپ کو پیش کرتے ہیں۔
شائع March 23, 2024 اپ ڈیٹ March 25, 2024

قراردادِ پاکستان کو منظور ہوئے 84 برس بیت چکے ہیں۔ اس دوران ہمارے ملک کے سیاسی و معاشی حالات نے کئی اقسام کے اتار چڑھاؤ کا سامنا کیا ہے۔ کبھی ہمارے ملک کو آمریت کے سایوں نے اپنے گھیرے میں لیے رکھا تو کبھی جمہوریت کو پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع ملا۔ آئیے 1940ء سے 2024ء تک پاکستان میں رونما ہونے والے اہم تاریخی واقعات کی تصویری جھلک آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ قائداعظم محمد علی جناح 23 مارچ 1940 کو لاہور میں پارٹی کارکنان سے خطاب کر رہے ہیں۔ اس اجلاس میں اے آئی ایم ایل نے برطانوی ہندوستان میں مسلم اکثیریتی علاقوں کو علیحدہ خودمختار ریاستیں بنانے کی قرارداد منظور کی تھی— تصویر آرکائیوز 150


1947ء میں محمد علی جناح پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بن گئے۔ یہاں انہیں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے پہلا خطاب کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے—تصویر: دی کوئنٹ


اگست 1947ء سے ستمبر 1948ء تک پاکستان اور ہندوستان کے ایک ہی کرنسی نوٹس تھے۔ کیوں کہ پاکستان اب بھی تاجِ برطانیہ کے ماتحت دولتِ مشترکہ میں شامل تھا، اس لیے ہمارے نوٹوں پر جارج ششم کی تصویر موجود تھی—تصویر: پاکستان کرنسی ڈاٹ کام


پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان 1949ء میں دستور ساز اسمبلی سے خطاب کیا اور اس موقع پر انہوں نے قائداعظم کے انتقال کے چند ماہ بعد تیار کی گئی قراردادِ مقاصد بھی پڑھی—تصویر: فیس بک


پاکستان ریلویز کا 1949ء میں شائع ہونے والا پوسٹر۔ اس وقت حکومتِ پاکستان لوگوں کو یہ احساس دلاتی تھی کہ ریاستِ پاکستان کے پاس وسائل محدود ہیں—تصویر: عادل نجم


1950ء سے 1952ء کے درمیان پاکستان کی معیشت میں اس کی زرعی پیداوار کی طلب میں اضافے کے سبب زبردست تیزی آئی جس کے بعد پاکستان میں پہلا فائیو اسٹار ہوٹل 1951ء میں کراچی میں تعمیر ہوا جسے ہوٹل میٹروپول کا نام دیا گیا—تصویر: ڈاکٹر جی این قاضی


23 مارچ 1956ء کو پاکستان کا پہلا آئین نافذ ہوا جس کے تحت ملک کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا گیا۔ اس وقت کے گورنر جنرل اسکندر مرزا نے 2 مارچ کو مسودے پر دستخط کیے تھے—تصویر: فیس بُک


23 مارچ 1956ء میں کراچی میں ہونے والی پہلی یومِ پاکستان کی پریڈ—تصویر: ڈاکٹر کے بی قاضی


اسکندر مرزا کو ہٹانے کے بعد ایوب خان 1959 میں صدر اور فیلڈ مارشل بن گئے۔ انہوں نے پاکستان کو ’جناح کے وژن کے مطابق‘ چلانے کا عہد کیا۔ ان کے نزدیک یہ وژن صنعتی ترقی، پاکستان کے سیاسی حقائق سے قریب تر سیاسی نظام، جس پر فوج کی نظر رہے، مسلم ماڈرن ازم، تعلیم کا فروض، اور آزاد معیشت پر مبنی تھی—فائل فوٹو


ایوب دور کے ابتدائی چھ سالوں میں معاشی شرحِ نمو 6 فیصد اور پیداواری شرحِ نمو 8.51 فیصد ہوگئی۔ اس وقت یہ پیداواری شرح سب سے زیادہ تھی۔ جدید ٹیکنالوجی، بہتر بیج اور کھاد سے زرعی شعبے میں ’سبز انقلاب‘ آگیا— تصویر: لائف


1963ء میں شائع ہونے والا ڈاک ٹکٹ جس میں ایوب خان کے مارشل لا کو معاشی انقلاب قرار دیا گیا—تصویر: اسٹیمپ ورلڈ


1960ء کی دہائی کے اوائل میں لاہور میں اس جگہ مینارِ پاکستان تعمیر کیا جا رہا ہے جہاں 1940ء میں قرار داد منظور کی گئی تھی—تصویر: سٹیزین آرکائیوز آف پاکستان


1966ء میں پی آئی اے کی ایک فلائٹ میں شیمپین پیش کی جا رہی ہے۔ 1955ء میں قائم ہونے والی یہ ایئر لائن 1960ء کی دہائی کے وسط تک دنیا کی صفِ اول کی ایئرلائنز میں شمار ہونے لگی تھی۔ اسے یہ مقام 1980ء کی دہائی کے اوائل تک حاصل رہا—تصویر: اے ایس صدیق


1965ء کی پاک-بھارت جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں ایئر کموڈور ایم ایم عالم نے ایک منٹ میں بھارتی فضائیہ کے 5 طیاروں کو تباہ کرنے کا شاندار کارنامہ سر انجام دیا—تصویر: وکی پیڈیا


1967ء میں لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد کے داخلی دروازے کی تزئین و آرائش کی جا رہی ہے—تصویر: نیشنل جیوگرافک


1967ء میں ملک کا نیا دارالحکومت وجود میں آیا۔ شروعات میں اسے جناح پور کہا جانا تھا، مگر پھر حکومت نے اسے اسلام آباد نام دیا—تصویر: نیشنل جیوگرافک


1965ء کی جنگ نے معیشت پر منفی اثرات مرتب کیے۔ 1960ء کی دہائی کے اواخر میں ایوب حکومت کے خلاف ملک بھر میں پرتشدد تحریک شروع ہوگئی۔ دائیں بازو کی جماعتیں ایوب کی ’سیکیولر حکومت‘ کا خاتمہ جبکہ بائیں بازو کی جماعتیں ایک سوشلسٹ حکومت کا قیام چاہتی تھیں—تصویر: روزنامہ جنگ


مارچ 1969ء میں ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا اور اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔جنرل یحییٰ خان نے پاکستان کو ایک پارلیمانی جمہوریت بنانے کا اعلان کیا۔ انہوں نے 1962ء کے آئین کو معطل کرتے ہوئے اپوزیشن کی جماعتوں سے نئے آئین پر کام شروع کرنے کے لیے کہا۔ اس کے لیے انہوں نے بالغ حقِ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کیا—فائل فوٹو


ملک میں پہلے پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے۔ بنگالی قوم پرست جماعت عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان اور ذوالفقار علی بھٹو کی عوامیت پسند جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان کے سب سے بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں کامیابی حاصل کی—تصویر: فیس بُک


سقوطِ ڈھاکا ہوا۔ عام انتخابات کے نتائج پر شروع ہونے والے فسادات کے نتیجے میں 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان علحیدہ ہوگیا۔ یہ پاکستانی تاریخ کا انتہائی المناک باب ہے— تصویر: ڈان/ وائٹ اسٹار آرکائیوز


قوم سے اپنے پہلے خطاب میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ’بکھرے ہوئے ٹکڑے جمع کرنے‘ اور ’ترقی پسند نیا پاکستان‘ تعمیر کرنے کا عہد کیا—تصویر: پی ٹی وی


حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ مشاورت سے طے ہونے والا پہلا متفقہ آئین پاکستان کا مسودہ نافذالعمل ہوا۔ 1973ء کا آئین آج بھی پاکستان میں نافذ ہے۔


1974ء میں ایک آرٹ نمائش میں پاکستانی فلمی اداکار وحید مراد، ایک نامعلوم مہمان اور ٹی وی ادکارہ سائرہ کاظمی ساتھ کھڑے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے دوران پاکستانی فلمی صنعت اور ٹی وی اپنے سنہرے دور میں داخل ہوئے تھے—تصویر: ہرالڈ


1974ء میں ’احمدیہ معاملہ‘ ایک بار پھر منظر عام پر آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس بات پر زور دیا کہ پارلیمنٹ میں مذہبی بحث و مباحثوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مگر جماعت اسلامی نے یہ کہتے ہوئے رد عمل دیا کہ گنجائش ہے کیونکہ آئین کے مطابق پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ریاست ہے۔ جب فسادات نے شدت اختیار کر لی اور پنجاب اسمبلی کے چند پی پی پی ممبران بھی مطالبے کی حمایت کرنے لگے تو بھٹو نے پارلیمنٹ میں احمدیہ مخالف بل پیش کرنے کی اجازت دے دی۔ آئین میں ترمیم کی گئی اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا—فائل فوٹو


ذوالفقار علی بھٹو نے سوویت یونین اور امریکا کے غلبے کو چیلنج کرنے کے لیے ایک ’تیسرا بلاک‘ بنانے کا ارادہ کیا۔ یہ بلاک مسلم ممالک کے درمیان اتحاد سے قائم کرنا تھا۔ اس سلسلے میں 1974ء لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تمام مسلم ممالک کے ریاستی اور حکومتی سربراہان کو مدعو کیا گیا تھا—تصویر: فیس بُک


1975ء میں سیاح راولپنڈی میں ایک ہوٹل کے باہر تانگے کی سواری کر رہے ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں پاکستان میں شعبہ سیاحت نے بڑی تیزی سے ترقی کی اور حکومت نے سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بے زبرست اقدامات کیے۔—تصویر: آرکائیوز 150


1976ء میں پی آئی اے کے طیارے کراچی ایئر پورٹ پر کھڑے ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں کراچی ایئر پورٹ سب سے مصروف ترین ایئر پورٹس میں سے ایک بن چکا تھا اور اسے ’درہ ایشیا‘ کا خطاب بھی دیا گیا تھا—تصویر: معظم علی


1977ء میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں پیپلز پارٹی نے دوتہائی اکثریت سے انتخابات جیتے لیکن اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان نیشنل الائنس نے نتائج پر اعتراض کیا اور ساتھ ہی ملک میں مظاہروں کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تاریخ ساز مذاکرات ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں نے نئی انتخابات کی تاریخ پر تقریباً اتفاق کرلیا تھا—فائل فوٹو


ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ ملک کی امن و امان اور سیاسی استحکام کی صورتحال کو جواز بنا کر ضیالحق نے 3 ماہ میں انتخابات منعقد کرنے کے عزم کا اظہار کیا—فائل فوٹو


معمولی مجرموں، ’تکلیف دہ‘ صحافیوں اور بنیاد پرست طلبہ کو باقاعدگی کے ساتھ عوامی مجمعے کے سامنے کوڑے مارے جاتے تھے—تصویر: ڈان آرکائیوز


1979ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر فوجی حملہ کیا تو امریکا اور سعودی عرب نے پاکستان کے شمالی علاقوں سے سوویت کے خلاف جنگ میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ضیا حکومت کو بے پناہ اسلحے اور روپوں کی صورت میں امداد شروع کردی تھی۔ 1988ء میں ہونے والے اوجڑی کیمپ واقعے کو بھی اسی سلسلے سے منصوب کیا جاتا ہے کیونکہ یہ واقعہ اسی اسلحہ ڈپو میں پیش آیا جہاں امریکا کی جانب سے فراہم کردہ اسلحے کو رکھا گیا تھا—تصویر: فیس بُک


1979ء میں ڈاکٹر عبدالسلام کو طبیعات میں نوبیل انعام ملا۔ وہ پہلے پاکستانی تھے جنہیں یہ اعزاز ملا۔


4 اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو احمد رضا خان قصوری کے قتل کے جرم میں پھانسی دے دی گئی۔


1982ء میں جب پاکستان نے عالمی ہاکی کپ حاصل کیا تب پاکستان دنیائے ہاکی کے افق پر جگمگا رہا تھا—تصویر: اخبارِ وطن


1985ء میں طالبات اپنی ساتھی طالبہ بشریٰ زیدی کی موت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہی ہیں جو کراچی میں ایک روڈ حادثے کا شکار ہوئی تھیں۔ اس واقعے سے شہر میں وحشت ناک نسلی فسادات پھوٹ پڑے۔ نسلی تناؤ، بڑھتی شرح جرم اور منشیات اور اسلحہ مافیا کی وجہ سے کراچی کے حالات بد سے بدتر ہونا شروع ہوگئے—تصویر: ڈان


1988ء میں ضیاالحق کا طیارہ ایک مبینہ بم حملے سے تباہ ہونے کے بعد پاکستان میں جمہوریت دوبارہ لوٹ آئی۔ 1988ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور وہ پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔اپنی حکومت کی زبردست نااہلی کے ساتھ ان کا پہلا دور حکومت تباہ کن ثابت ہوا۔ 1993ء میں دوبارہ منتخب ہونی تھیں اور ایک بار پھر 1996ء میں ان کی حکومت ختم ہونی تھی—تصویر: ڈان


ضیاالحق کی موت کے بعد پاپ موسیقی کو کافی فروغ ملا اور یہ سلسلہ 1990ء کی دہائی تک جاری رہا—تصویر: فیس بُک


1990ء میں نواز شریف حلف اٹھا رہے ہیں۔ ان کی پاکستان مسلم لیگ 1990ء کے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آئی۔ انہوں نے ’ضیاالحق کے مشن کو جاری رکھنے‘ اور پیپلز پارٹی کو ’ضیا کی اسلامائزیشن کو پٹری سے نہ اتارنے دینے‘ کا عہد کیا۔ مگر معیشت پر قابو کرنے میں ناکامی اور ہاتھ سے نکلتے ہوئے سیاسی حالات کی وجہ سے ان کی حکومت برطرف ہوگئی۔ 1997ء میں وہ دوبارہ منتخب ہوئے مگر 1999ء میں ان کی حکومت پھر ختم کر دی گئی—تصویر: ڈاکٹر جی بی قاضی


اسی دوران جب ملک فرقہ وارانہ اور لسانی فسادات، بدعنوانی، اور کمزور معیشت جھیل رہا تھا، اس کی کرکٹ ٹیم نے 1992ء کا ورلڈ کپ جیت لیا—تصویر: کرکٹ آسٹریلیا


پاکستان نے 28 مئی 1998ء کو بلوچستان چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کیے۔ پاکستان دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنا—تصویر: وکی پیڈیا


پرویز مشرف نے نواز شریف کی دوسری حکومت کا تخت الٹ دیا۔ وہ پاکستان کے دسویں صدرمملکت بنے—تصویر: اے ایف پی


2007ء میں مشرف حکومت کے خلاف ملک گیر وکلا تحریک شروع ہوگئی۔ معیشت میں زوال آنا شروع ہوگیا تھا اور القاعدہ نے پاکستانی سرزمین پر حملے شروع کر دیے تھے۔ کمزور ہوتی ہوئی حکومت کے آدھے ادھورے اقدامات معاشرے سے انتہاپسندی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے—فائل فوٹو


18 اکتوبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد ملک واپس لوٹیں تو ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہیں۔ 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں جلسے کے بعد بےنظیر بھٹو کو قتل کردیا گیا جس کے بعد ملک بھر میں ہنگامی حالات پیدا ہوگئے—تصویر: فائل فوٹو


2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی۔ صدرِ مملکت کا عہدہ آصف علی زرداری نے سنبھالا۔ اس تصویر میں صدر زرداری اس وقت کے آرمی چیف اشفاق کیانی، پہلی خاتون اسپیکر فہمیدہ مرزا اور فاروق ایچ نائیک موجود ہیں—تصویر: ڈان


یونس خان کی قیادت میں پاکستان نے 2009ء میں آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا۔


عدالت عظمیٰ نے اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو برطرف کردیا۔ ان کی جگہ راجا پرویز اشرف نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا—تصویر: فیس بُک


2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی جس کے بعد نواز شریف تیسری بار ملک کے وزیراعظم بنے۔


2014ء میں ملالہ یوسفزئی کو امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ وہ نوبیل انعام جیتنے والی دنیا کی کم عمر ترین شخص ہیں۔


14 اگست 2014ء کو عمران خان نے نواز شریف حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ اسلام آباد پہنچ کر وہ ریڈزون میں دھرنے میں بیٹھ گئے۔ یہ دھرنا 4 ماہ جاری رہا اور آرمی پبلک اسکول واقعے کی وجہ سے عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا—فائل فوٹو


2017ء میں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ ان کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا۔


18 جون 2017 ء کو پاکستان نے سرفراز احمد کی قیادت میں فائنل میں بھارت کو یکطرفہ مقابلے میں شکست دینے کے بعد چیمپیئنز ٹرافی جیت لی۔


25 جولائی 2018ء کو ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس کے نتیجے میں عمران خان کی تحریک انصاف کی حکومت بنی جبکہ عمران خان ملک کے 22ویں وزیراعظم بنے۔


پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا اور پاکستان میں بالاکوٹ کے مقام پر ایئر اسٹرائیک کی۔ 27 فروری 2019ء کو پاکستان نے پاکستانی حدود میں داخل ہونے والے دو بھارتی طیاروں کو تباہ کیا اور پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرلیا۔ اس دوران پاک-بھارت کشیدگی عروج پر تھی اور جنگ کا خظرہ منڈلا رہا تھا۔ اسی اثنا میں جذبہ خیرسگالی کے تحت پاکستان نے ابھی نندن کو رہا کردیا۔


عمران خان کی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا قیام عمل میں آیا۔ اس اتحاد نے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جو کامیاب ہوگئی۔ 10 اپریل 2022ء کو پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار منتخب وزیراعظم کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے برطرف کیا گیا—فائل فوٹو


عمران خان کی برطرفی کے بعد شہباز شریف ملک کے 23ویں وزیراعظم بنے۔ ڈیڑھ سال کے لیے قائم ہونے والی اس مخلوط حکومت میں پاکستان نے مہنگائی کی بلند ترین شرح ریکارڈ کی گئی جبکہ ڈالر بھی آسمان سے باتیں کرتا رہا۔ ملک میں پیٹرول اور ڈالر نے پہلی بار 300 روپے کی حد عبور کی۔


عمران خان نے اقتدار سے برطرفی کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہرایا۔ وہ جلسوں اور بیانات میں بارہا الزمات لگاتے رہے۔ انہیں الزامات کا جواب دینے کے لیے ملکی تاریخ میں پہلی بار آئی ایس آئی کے سربراہ نے پریس کانفرنس کی۔ ندیم انجم نے پریس کانفرنس میں عمران خان کے الزامات کی سخت الفاظ میں تردید کی جس نے کئی نئے سوالات کھڑے کیے۔


عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرچکے تھے۔ ایسے میں وہ 9 مئی 2023ء کو عدالت میں پیشی کے لیے حاضر ہوئے لیکن انہیں احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا گیا۔ القادر ٹرسٹ کیس میں ہونے والی ان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہنگامہ آرائی کے واقعات رونما ہوئے جسے ’سیاہ باب‘ قرار دیا گیا۔


9 مئی 2024 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مشتعل افراد نے ہنگامے اور توڑ پھوڑ کی، اس دوران متعدد افراد نے لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس کو نذرِآتش کیا۔


انتخابات سے قبل 30 جنوری 2024ء کو عمران خان کو سائفر کیس میں 10 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ 31 جنوری کو عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 14، 14 سال قید کی سزا سنا دی گئی جبکہ غیرشرعی نکاح کیس میں عمران خان و اہلیہ کو 7، 7 سال قید کی سزا سنائی گئی—تصویر: ایکس


ملک بھر میں 8 فروری 2024ء کو عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ موبائل فون سروس بند اور نتائج میں تاخیر کے باعث انتخابات کی ساکھ پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ انتخابی نشان نہ ملنے کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بڑی تعداد نے قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کیں—تصویر: الیکشن کمیشن آف پاکستان


انتخابی نتائج میں کسی جماعت کو اکثریت نہیں مل پائی جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا اور شہباز شریف ملک کے 24ویں وزیراعظم منتخب ہوئے۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ویب ڈیسک
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔