’سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟‘ سائفر کیس میں سزا کیخلاف اپیل پر سماعت ملتوی
اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وفاقی وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کی خلاف اپیلوں پر سماعت 25 مارچ تک ملتوی ہوگئی ہے،سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے وکلا سلمان صفدر، سکندر ذولقرنین و دیگر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ایف آئی اے پراسیکیوشن ٹیم میں اسپیشل پراسیکیوٹرز حامد علی شاہ اور ذوالفقار نقوی بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد آیاز شوکت بھی عدالت میں حاضر ہوئے، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خاندانی افراد، ارکان قومی اسمبلی، سینیٹرز اور وکلا قیادت بڑی تعداد میں کمرہ عدالت موجود ہیں۔
سماعت کے آغاز پر بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری وکلا کو صرف ایک دن کے لیے مقرر کیا گیا تھا، ایڈووکیٹ جنرل نے دونوں کونسلز کے نام دیے تھے، جب کسی وکیل کو نہ کرسکیں تب ہی وکیل دینے کا قانون موجود ہے، ہائی کورٹ رولز کے والیوم تھری چیٹر 24 میں کونسل دینے کا بتایا گیا ہے، مخصوص حالات میں سیشن جج سرکاری فنڈز سے وکیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم وکلا موجود تھے، کیس ہی 18 دن پہلے شروع کیا، عدالت یہاں پر سرکاری وکیل دینے کا مجاز نہیں، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے لیے سرکاری وکیل مقرر کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، جن فیصلوں پر انحصار کیا گیا ان میں 2، 3 سال تاخیر پر سرکاری وکلا مقرر کیے گئے تھے، میں نے جج صاحب کو بتایا تھا کہ اُن کیسز کی صورتحال اِس کیس سے مختلف ہے، اگر عدالت ملزم کی جانب سے سرکاری وکیل مقرر کرتی بھی ہے تو ان کو مناسب وقت دینا ضروری ہوتا ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے سلمان صفدر نے بتایا کہ کوئی بھی حالات نہیں تھے کہ سرکاری وکیلوں کی تعیناتی ہوتی ، جس فیصلے کی نظیر پر ٹرائل کورٹ نے انحصار کیا اس میں حالات مختلف تھے۔
’اگر کسی ملزم کی کیس میں دلچسپی نا ہو تو ٹرائل تو چلے گا‘
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ مگر کونسلز دینے سے متعلق عدالتی فیصلے موجود ہیں، اگر کسی ملزم کی کیس میں دلچسپی نہ ہو، وکیل نہیں کررہا ہو تو ٹرائل تو چلے گا ناں؟ ہائی کورٹ رولز میں کہیں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نام دینے کا کہا گیا ہے مگر کہیں پر کسی کا نام نہیں، وکیل نے جواب دیا کہ اس کیس میں بڑے سینئر اسپیشل پراسیکیوٹرز تعینات کیے گئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں کہ سرکاری وکلا کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوتی ہے؟ سرکاری وکلا مقرر کرنا کسی کورٹ کی دائرہ اختیار ہے یا کسی اور کا؟ عام حالات میں تو ایڈووکیٹ جنرل یا پراسیکیوٹر جنرل ہی نام دیتے ہیں، یہاں پر بات ڈیفنس کونسل کی ہورہی ہے تو یہ بتائیں کہ یہاں تعیناتی کسی قانون کے تحت ہوگی؟
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس وجہ سے ہم نے ایڈووکیٹ جنرل کو آج بلایا ہے، کیا جس ای میل کے ذریعے نام مانگے گئے وہ ای میل ریکاڈ کا حصہ ہیں؟ جن ڈیفنس کونسلز کو تعینات کیا گیا وہ دونوں سرکاری وکیل ہیں؟ ایڈووکیٹ جنرل، پراسیکیوٹرز اور سرکاری وکیل سے مطلب ریاست ہے کیونکہ یہ ریاست کا حصہ ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اگر ایڈووکیٹ جنرل عدالتی احکامات کو نظر انداز کرتے ہیں تو تب کیا ہوتا؟ وکیل نے بتایا کہ سکندر ذولقرنین اس کیس میں وکیل مقرر تھے، وکلا پہنچتے بھی تھے، مگر تاخیر بھی ہوتی تھی۔
اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہمیں ڈیفنس کونسل کی تعیناتی سے متعلق لیگلیٹی بتائیں، وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ڈیفنس کونسلز کی تعیناتی سے متعلق کوئی لیگلٹی نہیں تھی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ سلمان صاحب آپ بار بار لائن سے آؤٹ جارہے ہیں جن سوال کا جواب پوچھا وہ بتائے۔
’کیس کے اہم گواہ اعظم خان کا بیان ہماری غیر موجودگی میں ریکارڈ کیا گیا‘
وکیل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ 10 گواہ ایسے ہیں جن کے وکلا کی غیر موجودگی میں بیانات ریکارڈ کروائے گئے، تمام وکلا موجود تھے مگر ان کو باہر روکا گیا، جب ہم اندر گئے تو اہم گواہ چلا گیا تھا، اس کیس کے اہم گواہ اعظم خان کا بیان بھی ہماری غیر موجودگی میں ریکارڈ کیا گیا، جب ہم کمرہ عدالت پہنچ گئے تو جج صاحب نے کہا کہ ہم بیان قلمبند کراچکے ہیں۔
عدالت نے دریافت کیا کہ کیا صرف 4 گواہ نے آپ کی موجودگی میں بیان ریکارڈ کرایا؟ آپ نے کہا تھا کہ پہلے ہم گواہوں پر جرح کریں گے پھر آگے ٹرائل چلایا جائے گا، وکیل نے بتایا کہ ہم نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ گواہوں پر ہمیں جرح کا موقع دیں۔
عدالت نے کہا کہ اس کیس میں سرکاری وکیل کو کیوں تعینات کیا گیا؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل کی بجائے بار صدر کو کیوں نہیں لکھا گیا؟
جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ سرکاری وکیل کا کام زیادہ تر پراسیکیوشن کی طرف ہوتا ہے، وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جو مانگا گیا اس کے مطابق میں نے نام دے دیے۔
اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ملک عبد الرحمٰن اور حضرت یونس کو ڈیفنس کونسلز تعینات کیا گیا تھا، ملک عبد الرحمٰن نے 2016 میں ڈسٹرکٹ کورٹس کا لائسنس جبکہ 2018 میں ہائی کورٹ کا لائسنس لیا، حضرت یونس کا ڈسٹرکٹ کورٹس کا لائسنس 2015 جبکہ ہائی کورٹ کا 2017 کا ہے، مجھے اسٹیٹ کونسلز میں جو قابل لگتے تھے انہی کا نام دیا، مجھے کہا گیا تھا کہ ہمیں سرکاری وکیل دیے جائیں تو میں نے 2 نام دے دیے۔
’عدالت نے سرکاری وکیل کیوں مانگے تھے؟‘
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ عدالت نے سرکاری وکیل کیوں مانگے تھے؟
وکیل سلمان صفدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ہم نے عدالت سے استدعا کی کہ ہمارے غیر موجودگی میں جن 10 گواہوں کا بیان قلمبند کرایا گیا انہیں واپس کریں، میرے 23 سالہ وکالت کے کیرئیر میں اس طرح کی عدالتی کارروائی پہلی بار دیکھی ہے کہ جج وکیل کو ہی نہ سنیں، ایک گواہ کا بیان قلمبند کرنے کے بعد اس پر 3 گھنٹے تک جرح ہوئی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم ابھی تک 26 جنوری کے آرڈر میں پھنسے ہوئے ہیں کہ سرکاری وکیل کیسے تعینات ہوئے؟
کمرہ عدالت میں گفتگو پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس والے دیکھیں باتیں کون کررہا ہے، یہ کیس چل رہا ہے کوئی تھیٹر نہیں۔
سماعت جاری رکھتے ہوئےعدالت نے ریماکرس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل نے کیسے سمجھا کہ سرکاری تعینات کیے جائیں ؟ ایڈووکیٹ جنرل کیوں ؟ بار ایسوسی ایشن کا صدر کیوں نہیں تھا ؟ اسٹیٹ کونسل تو پراسیکیوشن کی طرف سے بھی ہوتا ہے ، ان دونوںسرکاری وکیلوں کی کتنی اسٹینڈنگ ہے ؟
اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ عبد الرحمن 2019 سے ہائی کورٹ کا لائسنس رکھتے ہیں ، جبکہ حضرت یونس 2017 سے ہائیکورٹ کی پریکٹس کر رہے ہیں ، مجھے انسداد دہشتگردی عدالت جج سے اسٹیٹ کونسل تعینات کا خط آیا تھا۔
’یہ جج کے مس کنڈکٹ کا کیس ہے‘
اس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ یہ جج کے مس کنڈکٹ کا کیس ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیبنے استفسار کیا کہ جج نے ایڈووکیٹ جنرل سے سرکاری وکیل مانگا انہوں نے تعینات کر دیا ، جب میں اسپیشل کورٹس کو دیکھ رہا تھا آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت میں اس وقت 6 کیسز تھے ، وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ میں نے جج پر اعتراض کی درخواست دی تھی کہ آپ یہ کیس نا سنیں ، میں نے کہا ہماری غیر موجودگی میں آپ نے گواہ کا بیان ریکارڈ کرا لیا ، جج صاحب نے 3 گھنٹے ہماری درخواست سنی اور خارج کردی۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ یہ کورٹ آرڈر میں بار بارسرکاری وکیل کیا لکھا گیا ہے؟ سرکاری وکیل سے ایڈووکیٹ جنرل کو تاثر ملا ہو گا کہ سرکاری وکیل فراہم کرنے ہیں، یہ لیٹر صرف ایڈووکیٹ جنرل کو کیوں لکھا گیا، صدر بار ایسوسی ایشن کو کیوں نہیں؟
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایڈووکیٹ جنرل سے دریافت کیا کہ آپ نے سرکاری وکلا میں سے ان دونوں کے ہی نام کیوں دیے کسی اور وکیل کا کیوں نہیں؟
ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے اپنے آرڈر میں واضح لکھا تھا کہ سرکاری وکیل مقرر کیے جائیں، وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ یہ پروفیشنل مس کنڈکٹ کا کیس ہے۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل تو واضح ہیں کہ سرکاری وکیل مانگے گئے اور انہوں نے نام دے دیے۔
بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ٹرائل جج نے 26 جنوری کو سرکاری وکلا مقرر کرنے کے لیے لکھا، 15 جنوری کو ٹرائل شروع ہوا اور 26 جنوری کو ٹرائل جج نے سرکاری وکلا مانگ لیے، ٹرائل جج نے 11 دن میں وکلا کو تاخیری حربے اپنا کر کیس التوا میں ڈالنے کا ذمہ دار بھی قرار دے دیا، جنوری کو ڈیفنس کونسلز تعینات ہوئے اور 27 جنوری سے وہ ٹرائل کا حصہ بنے، عثمان ریاض گل اس کیس میں بانی پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل تھے مگر ان کی جگہ ملک عبد الرحمٰن کو ڈیفنس کونسل بنایا گیا، وکلا کی غیر موجودگی پر بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی بھی پہلے غیر حاضر رہے۔
سلمان سفدر نے بتایا کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے ڈیفنس کونسلز کو ماننے سے انکار کیا گیا، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے عدالت کو بتایا کہ ان کے وکلا موجود ہیں، عثمان ریاض گل نے عدالت کے سامنے درخواست دی کہ سکندر ذولقرنین اس کیس میں دلائل دیں گے، بعد ازاں بانی پی ٹی آئی کے وکیل عثمان ریاض گل نے عدالت بتایا کہ سینئر وکیل سکندر ذولقرنین طبعیت ناسازی پر پیش نہ ہوسکے، بانی پی ٹی آئی کے وکیل عثمان ریاض گل نے ڈیفنس کونسلز کی تعیناتی سے متعلق نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے سے عدالت کو آگاہ کیا تھا۔
سلمان صفدر کا مزید کہنا تھا کہ ڈیفنس کونسلز کی تعیناتی سے متعلق نوٹیفکیشن کو بھی جوڈیشل آرڈر کا حصہ نہیں بنایا گیا، شاہ محمود قریشی کی جانب سے علی بخاری اور تیمور ملک کی بھی عدالت کے سامنے درخواستیں موجود ہیں، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو شاہ محمود قریشی سے ان کے وکلا کی ملاقات کی بھی درخواست دی گئی مگر ملاقات نہیں کرائی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ سرکاری اخراجات پر تعینات ڈیفنس کونسل ملک عبد الرحمٰن کے جرح پر بھی اعتراض کیا گیا، ڈیفنس کونسل عبد الرحمن آتے رہے پراسیکیوشن کا حصہ رہے مگر ان کی کوئی حاضری نہیں ہے۔
اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ملک عبد الرحمٰن توہین الیکشن کمیشن کیس میں اڈیالہ جیل جاتے رہے، سرکاری وکیل عبد الرحمٰن کی سائفر کیس میں کوئی حاضری نہیں لگی۔
وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ جیل ریکارڈ کے مطابق ان کی کئی بار حاضریاں لگیں ہیں، سائفر کیس میں ان کی حاضری نہیں لگی۔
اس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اگر وہ کسی اور کیس میں آتے رہے ہوں گے تو حاضری تو ریکارڈ میں ہوگی ناں، جو کیس عدالت میں ہو تو کیا وکلا کو میڈیا پر بات کرنی چاہیے ؟ اس طرح کے معاملات کو پاکستان بار کونسل کو بھی دیکھنا چاہیے۔
وکیل نے کہا کہ جب معاملہ زیر سماعت ہو تو اس معاملے میں ویسے ہی بڑی احتیاط ہونی چاہیے، بیرون ملک میں جونیئر سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے میڈیا اور اخبار نہیں پڑھا؟
عدالت نے ریمارکس دیے کہ اب تو میڈیا بھی تقیسم ہوگیا ہے، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور اب سوشل میڈیا۔
وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کے دو وکلا علی بخاری اور تیمور ملک انتخابات لڑ رہے تھے، انتخابی سرگرمیوں کے باوجود دونوں وکلا اڈیالہ جیل میں عدالت پیش ہوتے رہے، وکلا کے باوجود عدالت نے ڈیفنس کونسل کے لیے ایڈووکیٹ جنرل کو لکھا۔
بعد ازاں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا، انہوں نے بتایا کہ وزارت خارجہ کے گواہ سے کل 3 لائنوں کا بیان قلمبند کرایا گیا.
اس پر عدالت نے دریافت کیا کہ اعظم خان کے حوالے سے کیا لکھا گیا ہے؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ سلمان صفدر صاحب آپ یہاں شرارت کررہے ہیں، آپ نے کہا کہ آپ کو ایک ہی موقع ملا اور انہوں نے ڈیفنس کونسلز تعینات کیے، مگر عدالتی فیصلے میں 22 جنوری سے آپ کو بار بار کہا جارہا تھا مگر آپ پیش نہیں ہورہے۔
بعد ازاں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے سرکاری وکیل کے جیل وزٹ سے متعلق ریکارڈ طلب کرلیا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ڈیفنس کونسلز کی تعیناتی سے متعلق ریکارڈ بھی عدالت کے سامنے پیش کریں۔
علاوہ ازیں ہائی کورٹ نے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل سے دسمبر اور جنوری کے حاضری رجسٹر کی کاپیاں فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 25 مارچ تک ملتوی کردی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر ایڈووکیٹ جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا پرنسپل کو ملنے والی چیز وزیراعظم کو موصول ہونا تصور ہو گی؟
یاد رہے کہ 13 مارچ کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں ضمانت اور سزا معطلی کی اپیلوں پر میرٹ پر دلائل سننے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف دائر اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر پی ٹی آئی کے وکلا سے دلائل طلب کرلیے تھے۔
اس سے قبل سماعت میں عدالت نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل نے سزا کے خلاف اپیلوں پر دلائل کا آغاز کردیا جبکہ عدالت نے فریقین کو 11 مارچ مکمل تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت کردی تھی۔
واضح رہے کہ رواں سال 30 جنوری کو سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔
سائفر کیس
سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی خطرے میں ڈالنے اور ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں نامزد کیا گیا تھا۔
مقدمے میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔
سائفر کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔
مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔
ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔
مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔
ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔